سماجی اقدار کسی بھی معاشرہ کی سیاسی پختگی کو جانچنے کا اہم ذریعہ ہوا کرتی ہیں یہی وجہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں سماجی رجحان اور چیلنجز کے ادراک کے لیے سماجی انڈیکیٹرز کو تحقیق کے آلہ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ عالمی کوآپریٹو سیکٹراور سرمایہ کاری ان رجحانات پر خصوصی دلچسپی لے رہے ہیں۔ مثال کے طور پر سماجی مساوات اور ہم آہنگی بشمول مذہبی اور فرقہ وارانہ اور نسلی ہم آہنگی کسی بھی سوسائٹی معاشرہ اور ملک میں سیاسی استحکام داخلی سکیورٹی اور معاشی ترقی کے بارے میں پیش گوئی میں بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ البتہ ترقی پذیر ممالک کی حکومتیں سماجی ہم آہنگی پر کم ہی توجہ رکھتی ہیں اور ان کی نظر دفاعی‘ خارجی اور معاشی معاملات پر ہی مذکور ہوتی ہیں۔ پاکستان کا شمار بھی ان اقوام میں ہوتا ہے جہاں سماجی ہم آہنگی کم ترین اور سماجی بالخصوص مذہبی تفریق بلند ترین سطح پر ہے۔ ایک تنظیم دی فنڈ فارمیشن نے ریاستوں کی کمزوری جانچنے کے لیے 12مختلف سوشل انڈیکیٹرز پر مشتمل ایک گلوبل انڈیکس مرتب کیا ہے۔ جس کے ذریعے اقوام کا داخلی استحکام ماپا جا سکتا ہے۔ کمزور ریاستوں کی فہرست میں پاکستان کی رینکنگ میں گزشتہ چند برسوں سے بہتری آئی ہے اور پاکستان کا شمار کمزور ترین ممالک میں 13کے بجائے 2018ء میں 20ویں نمبر پر آ گیا ہے۔ البتہ پاکستان کے سماجی اشاریے تاحال کافی کمزور ہیں۔ معاشرہ میں اجتماعی تحفظات میں اضافہ ہو رہا ہے ۔ اس انڈیکیٹرز کے ذریعے ریاست اتھارٹی کا تجزیہ کیا جاتا ہے کہ معاشرے میں کسی مخصوص مذہبی یا نسلی گروہ کو ایذارسانی سے بچانے کے لیے ریاست کس قدر متحرک ہے۔ کسی گروہ کے ساتھ اجتماعی جبر کو گہرائی سے جانچنے کے علاوہ اس معاشرہ میں مذہبی عدم برداشت کی تاریخ مذہبی آزادی کا بھی مطالبہ کیا جاتا ہے۔ان سماجی انڈیکیٹرز جس کے ذریعے یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ تنازعہ کے بعد حقیقت اور مصالحت کے لیے کیا طریقہ کار وضع کیا گیا ہے۔ سماجی ہم آہنگی اور تعمیر نو کے ساتھ متاثرین کی تلافی کے اقدامات کا جائزہ بھی لیا جاتا ہے۔ اسی طرح مذہبی توقیر بھی ایک حساس فیکٹر ہے جو کسی بھی قوم کی سماجی اور اقتصادی سیاسی اور سماجی عناصر کسی بھی قوم میں ہم آہنگی اور اس کے بیرونی تعلقات میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں باوجود اس کے کہ خارجی عوامل کا ملک کے معاشی و سیاسی استحکام کا انحصار اندرونی ہم آہنگی سے ہوتا ہے جو خارجی تعلقات میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہے۔ بظاہر یہی محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان کی نئی حکومت سماجی اشاریوں میں بہتری کی طرف بہت کم توجہ دے رہی ہے۔ اس کے لیے حکومت کو شدت پسندی کی وجوہات کا تعین اور نفرت آمیز مواد کا تدارک کرنا ہو گا ‘جس کا مختلف گروہوں کی طرف سے پرچار کیا جا رہا ہے۔ ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں عقیدے کی آزادی کے استحصال کی وجہ مذہبی شدت پسندی کو قرار دیا گیا ہے جو کسی ایک کلاس یا گروہ تک محدود نہیں ہے اور اس کے تدارک کے لیے ایک اجتماعی فکر کی ضرورت ہے جس میں تمام مذہبی عقائد کے حامل لوگوں کو یکساں آزادی کے نظریہ کی فروغ کی ضرورت ہے۔ ملک میں جو طبقات مذہبی جبر کا شکار ہیں ان میں ایک اہم گروہ ہزارہ کمیونٹی بھی شامل ہے ۔اس طرح مسیحی اور ہندو بھی شدید مذہبی تعصب کا شکار ہیں۔مسلکی تنازعات تو ملکی سلامتی کے لیے خطرہ بن چکے ہیں ۔المیہ یہ ہے کہ اس تعصب کے انسداد کے لیے وہ میکنزم وقت کے ساتھ کمزور پڑتا جا رہا ہے جسے تصادم کے بعد کی حالت سے نمٹنے کے لیے متحرک کیا گیا تھا۔ کمزور مذہبی ہم آہنگی اور تعصب صورتحال کو مزید گھمبیر بنا سکتا ہے یا یہ تنازعہ کو مزید ہوا دینے کا باعث بن جائے گا۔ پختونخواہ تحفظ موومنٹ کو بھی اسی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ کمزور ریاستی انڈیکس میں یہ اشاریے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کئے جاتے ہیں ان حالات میں اقتدار کی منتقلی تو ہو جاتی ہے مگر کیا اس کے نتیجے میں برسر اقتدار آنے والی حکومت کو منصفانہ انتخابات کے ذریعے بننے والی حکومت نہیں کہا جا سکتا ہے؟ کیا یہاں فرقہ پرست اشرافیہ قبائلی اشرافیہ اور ان کے حواری نہیں ہیں؟ یہ لوگ کس قدر طاقتور ہیں؟ کیا یہ مصالحتی عمل ہے؟ یہ انڈیکیٹر شناخت کے معاملہ کو بھی ڈیل کرتا ہے۔ ان سے ہی ریاست کی کمزوری کا تعین بھی کیا جاتا ہے اس کے ذریعے ہی یہ اندازہ لگایا جاتا ہے کہ یہ قومیت پرستی ہے؟ یا پھر علیحدگی کی تحریک ؟ کیا مذہبی نسلی تعصب یا دیگر توہمات کا راج ہے؟ ان کی بنا پر کسی مخصوص گروپ کو قربانی کا بکرا بنایا جا رہا ہے۔ کیا کوئی ایک مخصوص گروہ اکثریت کے وسائل پر قابض ہے؟ کیا وسائل منصفانہ انداز میں تقسیم کئے گئے ہیں؟ پاکستان کے تناظر میں ان سوالات کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے ان تمام مسائل کا براہ راست تعلق ریاست کی رٹ‘ عوامی خدمت ‘گورننس ‘قانون کی حکمرانی اور انسانی حقوق کی فراہمی ہے‘ البتہ ایک انڈیکیٹر جس کو کمزور ریاست سے الگ نہیں کیا جا سکتا وہ آزادی اظہار ہے۔ کمزور سماجی اعشاریے حتمی طور پر مختلف انداز میں معاشی ترقی پر اثر انداز ہوتے ہیں ان اشاریوں میں سوال اٹھانے کو جمہوری حق جانا جاتا ہے۔ کمزور سماجی اشاریے حتمی طور پر مختلف انداز میں معاشی ترقی کو متاثر کرتے ہیں جس سے قوموں کی باہمی تجارت پر اثرات بد مرتب ہوتے ہیں۔ تخلیقی عمل رک جاتا ہے اور مخصوص سوچ کے غلبہ سے شدت پسندی جنم لیتی ہے جس کی وجہ سے باصلاحیت لوگ ملک چھوڑنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ اس صورتحال سے مقامی سرمایہ کار کا ہی اعتماد مجروح نہیں ہوتا بلکہ غیر ملکی سرمایہ کاری کے امکانات بھی مخدوش ہو جاتے ہیں۔ غیر ملکی سرمایہ دار کسی صورت بھی مذہبی اور نسلی تعصب کی شکار اقوام یا ممالک میں طویل المدتی سرمایہ کاری پر آمادہ نہیں ہوتے۔ پاکستان میںحالیہ اقتصادی راہداری سے معاشی ترقی کی ایک امید ابھری ہے کیونکہ ان منصوبوں اور بنیادی ڈھانچے کی تکمیل کے بعد نہ صرف چین سے سرمایہ کاری کی توقع ہے بلکہ دیگر ممالک بھی پاکستان کی طرف متوجہ ہوں گے مگر ان ممالک کو تاحال تحفظات ہیں ‘جس میں سیاسی عدم استحکام سکیورٹی کی صورتحال کمزور سماجی اشاریے کے طور پر ابھر رہے ہیں ۔ہم کوئی بڑا خواب نہیں دیکھتے ‘مگر چلیے یہ خواب تو دیکھ سکتے ہیں کہ پاکستان عسکری گروہوں اور تشدد پسند قوتوں سے پاک ملک بن جائے گا ‘جہاں کمزور طبقات اور اقلیتیں خود کو محفوظ اور سماج کا موثر طبقہ محسوس کریں گی ۔اگر ایسا ہو جاتا ہے تو اس سے عالمی سرمایہ کار کو کیا پیغام جائے گا؟ ہم صرف چند سماجی انڈیکیٹر میں بہتری کے ذریعے بڑی تبدیلی لا سکتے ہیں۔ اس سے غیر ملکی سرمایہ کاروں کا پاکستان پر اعتماد بحال ہو گا اور ملک میں سرمایہ کاری بڑھے گی۔