اسلام آباد کلب کا مسئلہ دھوتی نہیں ہے۔ یہاں کوئی بابو سوٹ پہن کر جائے یا کوئی بانکا دھوتی اوڑھ کر‘ یہ اشرافیہ تخلص کرنے والی اقلیت کی افتاد طبع کے معاملات تو ہوسکتے ہیں، ان سے عام شہری کا کوئی واسطہ نہیں۔ عام آدمی کے سوالات کچھ اور ہیں۔ افسوس یہ ہے کہ ان کی طرف نہ کسی رکن پارلیمان کی توجہ ہوتی ہے نہ کسی بیوروکریٹ دانشور کی۔ اسلام آباد کلب اشرافیہ اور افسر شاہی کی موج مستی کے لیے بنایا گیا، ایک گوشہ عافیت ہے۔ خرابی مگر یہ ہے کہ اشرافیہ نے یہ سارا بندوبست قومی خزانے کو چاٹ کر قائم کیا ہوا ہے اور اس سال غنیمت سے فیض یاب ہونے پر سب کے ہاں اتفاق ہے۔ جھگڑا اب صرف دھوتی کا ہے۔ یہ کلب ایوان صدر اور وزیراعظم ہائوس سے چند فرلانگ کے فاصلے پر ہے۔ ریڈ زون کی دہلیز پر سرینا ہوٹل کے پہلو میں اس کلب کے پاس 244 ایکڑ سرکاری زمین ہے۔ تصور کیجیے کہ ملک کے دارالحکومت میں افسر شاہی کے موج میلے کے لیے اس ملک نے 244 ایکڑ زمین مختص کر رکھی ہے، جو ملک دیوالیہ ہونے کے خطرے سے دوچار ہے۔ اب یہاں کوئی سوٹ پہن کر جائے یا دھوتی پہن کر یہ سوال نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ افسر شاہی کے لیے 244 ایکڑ سرکاری زمین کس اصول اور کس قانون کے تخت مختص کی گئی ہے؟ یہ واردات کتنی سنگین اور تکیف دہ ہے‘ اس کا اندازہ اس بات سے لگا ہے کہ یہ زمین اس کلب کو مبلغ ایک روپے فی ایکڑ سالانہ پر عطا فرمائی گئی تھی۔ 2018ء میں شور مچا کہ سونے جیسی قیمتی زمین یوں کوڑیوں کے بھائو کیسے دی گئی ہے تو فیصلہ ہوا کہ چونکہ ملکی معیشت ٹھیک نہیں ہے، اس لیے ریٹ کا تعین نئے سرے سے ہوگا۔ بڑھیے اور سرپیٹ لیجیے کہ 2018ء میں یہ قیمت بڑھا کر ایک روپے سے گیارہ روپے کر دی گئی۔ آپ پورے ملک میں اس ریٹ پر کسی اجاڑ بیابان ویرانے میں بھی جگہ لے کر دکھائیے جس ریٹ پر اشرافیہ اور افسر شاہی نے خود کو اسلام آباد کی قیمتی ترین ایسے بندوبست کے لیے بندربانٹ کی اصطلاح استعمال کرنا تو جانوروں کی توہین ہوگی‘ اہل زبان ہی رہنمائی فرما سکتے ہیں کہ کیا اسے بیوروکریسی کہا جا سکتا ہے؟ دھوتی کو رونے والوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ اسلام آباد کلب 1952 کنال رقبے کے سالانہ صرف 26 سو روپے قومی خزانے میں جمع کرا دیا ہے۔ دھوتی پہن کر حساب لگایا جائے یا سوٹ پہن کر‘ ہر دو صورتوں میں یہ فی کنال ایک روپیہ 37 پیسے سالانہ بنتا ہے۔ کیا قومی وسائل کے ساتھ اس سے بڑا کھلواڑ بھی کیا جا سکتا ہے۔ ظلم کا اندازہ کیجئے‘ زمین سرکار کی اور اس پر قائم اشرافیہ کا یہ کلب ایک عرصہ تک ایک لمیٹڈ کمپنی رہا۔ کوئی ہے جو خلق خدا کی رہنمائی فرمائے کہ یہ واردات کیسے اور کیونکر ممکن ہو سکی؟ کہنے کو تو 1978ء میں اسے ایک صدارتی فرمان کے ذریعے حکومتی تحویل میں لے لیا گیا اور اب یہ وزارت کیڈ کے ماتحت ہے لیکن آڈیٹر جنرل کی رپورٹ بڑھیں تو معلوم ہوتا ہے یہاں عملاً جنگل کا قانون ہے اور اسے ریاست کے اندر ریاست کا درجہ حاصل ہے۔ بے نیازی دیکھئے‘ یہ اپنے بائی لاز خود بناتا ہے۔ اپنے بنائے ان بائی لاز کو یہ حکومت سے منظور تک نہیں کرواتا۔ حکومت کی مرضی کے بغیر خود ہی ملازمین بھرتی کرتا ہے۔ پیپرا رولز کو پامال کرتا ہے مگر کوئی پوچھنے والا نہیں۔ اسلام آباد میں کوئی مقامی حکومت ہو تو وہ پوچھے کہ اسلام آباد کلب کی رکنیت کا معیار کیا ہے؟ کیا کوئی استاد‘ کوئی عالم دین‘ کوئی ایسا آدمی جو منصب یا تجوری پر نہ رینگ رہا ہو اس کا ممبر بن سکتا ہے؟ کیا قومی وسائل اس لیے ہوتے ہیں کہ ایک مخصوص طبقے کو نوازنے پر برباد کردیئے جائیں؟ آج ہمیں بتایا جاتا ہے کہ اشرافیہ کا حق ہے وہ اپنے لیے اپنا کلب بنائے۔ یہ اشرافیہ اب ’’پینڈوئوں‘‘ کے ساتھ ’’اتھڑے بیل‘‘ پر تو بات نہیں کرسکتی نہ ہی بس یا ٹیکسی ڈرائیورز کے ساتھ بیٹھ سکتی ہے۔ یہ دلیل معتبر ہوتی اگر اشرافیہ یہ اہتمام اپنے خرچے پر کرتی۔ قومی وسائل پر کسی ایک گروہ کی اجارہ داری کو آخر کس اصول کی بنیاد پر قبول کیا جائے؟ کیا دنیا میں کبھی ایسا ہوا کہ پہلے ایک جنگل کو نیشنل پارک قرار دے دیا جائے اور پھر اس نیشنل پارک کی زمین افسر شاہی کی موج مستی کی نذر کر دی جائے۔ ایسا افسوسناک رویہ تو قابض قوتیں بھی روا نہ رکھتی ہوں، جو ہمارے فیصلہ سازوں نے شعار کر رکھا ہے۔ بندر بانٹ دیکھیے‘ ساتھ ہی ایک اور کلب ہے۔ گنز کلب۔ نام پر غور کیجیے۔ Guns Club۔ یہ نام کوئی اور رکھتا تو دہشت گردی میں دھر لیا جاتا۔ اشرافیہ کو مگر سب جائز ہے۔ یہ بھی جنگل کی زمین کاٹ کر بنایا گیا ہے اور نیشنل پارک میں بنایا گیا ہے۔ اسے 27 ایکڑ جنگل کی اراضی عطا فرمائی ہے اور کمال یہ ہے کہ بالکل مفت عطا فرمائی گئی ہے۔ ایک روپیہ تک لینے کا تکلف نہیں کیا گیا۔ پاکستان سپورٹس بورڈ کو حکومت نے کھیلوں کے لیے کچھ زمین دے رکھی تھی۔ اس نے 44 ایکڑ زمین آگے ایک پرائیویٹ کلب کو دے دی۔ سپریم کورٹ میں سی ڈی اے کا یہ موقف ریکارڈ کا حصہ ہے کہ اسے حکم دیا گیا کہ گنز کلب کو مزید 28 ایکڑ زمین دی جائے اور بالکل مفت دی جائے۔ قومی وسائل افسر شاہی اور اشرافیہ پر یوں لٹائے جا رہے ہیں اور ہماری پارلیمان بے نیاز بیٹھی ہے۔ عرصے بعد ایک آواز اٹھی تو وہ بھی دھوتی کے لیے اٹھی۔ عام آدمی کا مسئلہ مگر دھوتی نہیں ہے۔ مسئلہ وہ لوٹ مار ہے جو قانون کا لبادہ اوڑھ کر کی جاتی ہے تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے۔ تجاوزات کے خلاف مہم کے نام پر مارکیٹیں گرا دی جاتی ہے‘ موروثی زمین پر بنے گھر روند دیے جاتے ہیں‘ لوگوں کے خواب نسلہ ٹاور کے ملبے میں برباد ہو جاتے ہیں لیکن نیشنل پارک کی زمین پر کوڑیوں کے بھائو ہونے والے یہ ’’قانونی قبضے‘‘ کسی کو نظر نہیں آتے۔ ہمارے ہاں مفادات کے کارٹل بن چکے ہیں۔ جیسے ہی مفاد پر ضرب پڑتی ہے لوگ کارٹل کے تحفظ کے لیے بے چین ہو جاتے ہیں۔ سرکاری وسائل کو بے رحمی سے استعمال کرنا استحقاق سمجھ لیا گیا ہے۔ قرض لے لے کر افسر شاہی کوپالا پوسا جارہا ہے اور اسکے ناز نخرے برداشت کیے جا رہے ہیں اور جب لٹا لٹا کر خزانہ خالی ہو جاتا ہے تو پھر عوام سے کہا جاتا ہے عزیز ہم وطنو! ہم نے ڈیم بنانا ہے‘ فنڈ دیجیے۔ افسر شاہی کے کمالات دیکھیے۔ حال ہی میں (NEST) کی افسر شاہی نے طلباء کے لیے مختص 25 ملین روپے کلب کی ممبر شپ میں جھونک رہے اور اب ان کے خلاف کارروائی ہورہی ہے۔ سوال دھوتی کا نہیں‘ سوال ان بے نیازیوں اور بے ادائیوں کا ہے۔ کیا اس ملک کی قسمت میں یہی لکھ دیا گیا ہے کہ خلق خدا کی رگوں سے لہو نکال کر افسر شاہی اور اشرافیہ کی ناز برداریاں کی جائیں۔ فاضل رکن پارلیمان کو معلوم ہونا چاہیے کہ مسئلہ یہ نہیں کہ اسلام آباد کلب میں دھوتی کی اجازت ہے یا نہیں‘ مسئلہ یہ ہے کہ عوام کی دھوتی اتاری جا رہی ہے اور عوام کے پاس دھوتی کے سوا اب کچھ بچا ہی نہیں۔