بہرحال کرکرے کی تحقیق کا یہ نتیجہ نکلا کہ دہشت گردانہ واقعات کے بارے میں جو عمومی تاثر پید اکردیا گیا تھا وہ کچھ حد تک تبدیل ہوا کہ اس کے پشت پر وہ عناصر بھی ہیں جو اس ملک کوہندو راشٹر بنانا چاہتے ہیں۔ ابتداء میں ان واقعات میں معصوم مسلم نوجوانوں کو ماخوذ کرکے انہیں ایذائیں دی گئیں اور کئی ایک کو برسوں تک جیلوں میں بند رکھا گیا۔ ایک معروف صحافی لینا گیتا رگھوناتھ نے یو پی اے حکومت کی ہند و دہشت گردی کے تئیں ' نرم رویہ‘ کو افشاں کیا تھا۔ لینا کے بقول ’’ تفتیشی ایجنسیوں کے ایک افسر نے انہیں نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر وزارت داخلہ کو سونپی گئی ان خفیہ رپورٹوں کے مطالعے کی اجازت دی تھی۔ ان رپورٹوں میں مرکزی وزارت داخلہ سے یہ درخواست کی گئی تھی کہ وہ آر ایس ایس کو ایک شو کاز ( وجہ بتائو) نوٹس جاری کرے کہ اس کے خلاف جو شواہد اور ثبوت ہیں کیوں نہ ان کی بنیاد پر اسے غیر قانونی اور ممنوع قرار دیا جائے؟‘‘ مہاراشٹر کی اسوقت کی کانگریس کی قیادت میں مخلوط حکومت نے بھی ابھینو بھارت اور دیگر ہندو انتہا پسند تنظیموں کو غیر قانونی قرار دینے کی سفارش کی تھی لیکن اس پر مرکزی حکومت نے عمل نہیں کیا۔ 2014ء میں وزیر اعظم مودی کے برسراقتدار میں آنے کے بعد سے متواتر ان مقدمات کو کمزور کروانے کی کوششیں کی گئیں۔ اس سلسلے میں مالیگائوں کے بم دھماکہ مقدمہ کی خصوصی سرکاری وکیل رو ہنی سالیان نے یہ سنسنی خیز انکشاف بھی کیا ، کہ سرکاری وکیلوں پر دبائو ڈالا جارہا ہے کہ وہ مقدمات کی پیروی میں سست روی اور نرمی سے کام لیں۔ اسکے علاوہ سرکاری گواہوں کو منحرف کرنے کا عمل شروع ہوا۔ سالیان کے مطابق نیشنل انوسٹی گیشن ایجنسی کے ایک سینئر افسر نے (جو محض ایک پیغام رساں تھا) اپنے بالا افسروں کو یہ پیغام پہنچایا کہ وہ مقدمہ کی پیروی کے لئے پیش نہ ہوں۔ سالیان نے کہا کہ ’’اس کا مقصد (افسر کا لایا ہوا ہے پیغام) بالکل واضح ہے کہ ہم سے ہمدردانہ احکامات کی توقع نہ رکھیں۔‘‘ انہوں نے مزید بتایا کہ بی جے پی جب سے بر سر اقتدار آئی تو این اے آئی کا ایک افسر ان کے پاس آیا اور بات کی۔ سالیان کے بقول : ’’ اس نے کہا کہ وہ فون پر بات کرنا نہیں چاہتا، اس لئے وہ یہاں آیا اور پیغام سنایا کہ میں نرم رویہ اختیار کروں۔‘‘ مالیگائوں کیس میں سادھوی پرگیہ ٹھاکر، کرنل پروہت، سوامی اسیم نند( جس کے گجرات ضلع آنند میں واقع آشرم کو بی جے پی کے کئی بڑے رہنمائوں بشمول اس وقت کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی کی سرپرستی حاصل تھی) اور دیگر کے مقدمات کے بارے میں محترمہ سالیان کو یہ ہدایت کہ وہ ’’نرمی اور تساہلی‘‘ سے کام لیں۔ یہ حقیقت بھی قابل تشویش ہے کہ دہشت گردی کے ان واقعات کی چل رہی تحقیقات بھی روک دی گئی، جن میں آرایس ایس کے بڑے رہنما جیسے اندریش کمار وغیرہ کا نام نہ صرف ملزموں نے عدلیہ کے سامنے دیئے گئے اپنے اقبالیہ بیان میں دیا تھا بلکہ جانچ رپورٹوں میں بھی ان کے نام آئے تھے۔پچھلے چند سالوں میں گجرات کے تقریباً وہ تمام پولیس افسران جو ’’پولیس مقابلوں ‘‘ کے نام پر بے رحمانہ قتل کرنے کے الزامات کا سامنا کررہے ہیں رہا ہوچکے ہیں اور بعض کو دوبارہ ملازمت پر بحال کردیا گیا ہے۔ یہاں تک کہ حکمراں جماعت کے موجودہ صدر امیت شاہ ، جن کے بارے میں قومی تفتیشی ایجنسی یعنی سی بی آئی نے اپنی چارج شیٹ میں یہ تک لکھ دیاتھا کہ ’’ ( پیسہ اینٹھنے کا)ریکٹ ان سے شروع ہوتا ہے اور ان پر ختم ہوتا ہے۔‘‘ وہ بھی سہراب الدین اور ان کی اہلیہ کے علاوہ دیگر انکائونٹر میں ’’ بری ‘‘ کردیئے گئے ہیں۔مودی حکومت کے برسر اقتدار آنے کے بعد سے اجمیر درگاہ بلاسٹ کے 14گواہان منحرف ہوئے ۔ ان میںسے ایک گواہ رندھیر سنگھ نے بی جے پی میں شمولیت اختیار کرلی اور اسے جھارکھنڈ کی بی جے پی حکومت میں وزیر مقرر کیا گیا۔کرکرے نے جو ضخیم چارج شیٹ تیار کی تھی اس میں آر ایس ایس لیڈر اندریش کمار، وشو ہندو پریشد کے پروین توگڑیا کے علاوہ کئی اور نام بھی شامل تھے۔ سوامی اسیم نند نے کاروان میگزین کو دیئے گئے اپنے طویل انٹرویو میں آرایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت کا بھی نام لیا تھا۔یہ تو طے تھا کہ بھارت کی موجودہ حکومت سمجھوتہ ، اجمیر اور مالیگائوں کیسوں کی پیروی میں ایک منصوبہ کے تحت تساہلی سے کام لیکر ہندو تنظیموں پر دہشت گردی کے داغ دھو رہی تھی، مگر خاص طور پر سمجھوتہ بلاسٹ کیس میں پاکستانی حکام کی سرد مہری سمجھ سے بالاتر ہے۔ جس طرح 2008 ء کے ممبئی دھماکوں میں یا حا ل میں جیش محمد کے سربراہ مسعود اظہر کے سلسلے بھارت نے اقوام متحدہ تک کا دروازہ کھٹکھٹایا ، آخر پاکستانی حکام سمجھوتہ کیس کی مانیٹرنگ کرنے سے کیوں کترا رہے تھے۔ اگر کورٹ کا تجزیہ درست ہے کہ تین بار سمن جاری کرنے کے باوجود پاکستانی گواہان کو کورٹ میں پیش نہیں کیا گیا، تو اسکی ذمہ داری کا تعین ہونا چاہئے۔ بھارت کے علاوہ پاکستانی حکام کی بھی جوابدہی طے ہونی چاہئے اور ان کو بھی اپنی پوزیشن صاف کرنے کی ضرورت ہے۔