دنیا پر حکومت وہی کرتا ہے جو سمندروں کو کنٹرول کرتا ہے۔سپر پاور کا درجہ اختیار کرنے کے لیے سمندروں پر حکمرانی ایک لازمی شرط ہے۔ جس ملک کی بحریہ جتنی بڑی ہوگی ‘ اسکے جنگی بحری جہازوں اور بیڑوں کی تعداد جتنی زیادہ ہوگی وہ ملک اتنا طاقتور ہوگا۔ملکوں کے درمیان اشیاء کی بڑی مقدار میں تجارت کا سب سے بڑا ذریعہ سمندرہیں۔ ماضی میں صرف اشیا ء کی بحری تجارت ہوتی تھی لیکن بیسویں صدی سے تیل اور گیس بھی شامل ہوگئے۔ سمندری تجارتی راستوں کو کنٹرو ل کرنا عالمی سیاست کا اہم جزو ہے۔ طاقتور ملکوں کے جنگی بحری جہاز اور آبدوزیں ہر سمندر میںاپنی طاقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے گشت کرتے پھرتے ہیں تاکہ کم طاقتور اور کمزور ملک ان سے ڈرے سہمے رہیں ۔ انکی تابعداری کرتے رہیں۔ سولھویں اور سترھویں صدی میں ہالینڈ کی ڈچ بحریہ کی سمندروں پر حکمرانی تھی۔ انیسویں صدی کے شروع میں برطانیہ کی بحریہ طاقتور ہونے لگی اور پہلی جنگ ِعظیم تک سمندروں پر برطانیہ کے بحری جنگی جہاز حکومت کرتے تھے۔ ان کے زور پر برطانیہ دنیا کا حکمران تھا۔بیسویں صدی کے اوائل میں برطا نیہ کا زوّال شروع ہونے کے بعد امریکہ بڑی بحری طاقت بنا ۔ امریکی صدر تھیوڈورروز ویلٹ نے امریکی بحریہ کا حجم دوگنا کیا۔ اس پالیسی کے تحت ’ روزویلٹ گریٹ وائٹ فلیٹ ‘نامی بحری بیڑہ وجود میں آیا جس نے چودہ ماہ میں دنیا کے سمندروں کا چکر لگایا۔ یہاں سے دنیا پر امریکی حکمرانی کا آغاز ہوتا ہے۔ اسکے بعد صدر ولسن نے دوسری جنگ ِعظیم کی ضرورتوں کوپورا کرنے کی غرض سے امریکی بحریہ کا حجم مزید تین گنا کردیا۔دوسری جنگ عظیم کے اختتام پر امریکی بحریہ میں چھ ہزار جنگی جہاز تھے۔ تاریخِ عالم میں اسوقت تک یہ سب سے بڑی بحریہ تھی۔ اس کے بعدسے امریکہ کی سمندروں پر حکمرانی مسلّم ہوگئی۔ انیس سو اسّی کی دہائی میں صدر رونالڈ ریگن نے امریکی بحریہ کو وسعت دی۔انہوں نے چھ سو جدید ترین بحری جہازوں پر مشتمل بحریہ تشکیل دے کر سوویت یونین پر واضح برتری کی مہر ثبت کردی۔ سوویت یونین کی معیشت اس قابل نہیں تھی کہ وہ اتنی بڑی بحریہ بناسکتا۔بالآخر سرد جنگ ختم ہوئی۔ سوویت یونین زوّال پذیر ہوگیا۔ اب امریکہ کو سمندروں پر برتری قائم رکھنے میں وہی مسئلہ درپیش ہے جو پہلی جنگ عظیم کے بعد برطانیہ کو ہوا تھا۔جب کسی سپر پاور کی معیشت کا حجم کم ہونے لگتا ہے تو اسکی بحریہ سکڑنے لگتی ہے ۔ بیسویں صدی کے شروع میں برطانیہ کو معاشی مجبوریوں کے باعث اپنے بحری جہازوں کی تعداد چھ سو سے کم کرکے ڈیڑھ سو کرنا پڑی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے انگریزوں کو مشرق بعید میں جاپان کی بڑھتی بحری طاقت اور افریقہ میں امریکی بحریہ کی مدد پر انحصار کرنا پڑا۔ برطانوی سپر پاورزوّال پذیر ہونے لگی۔ چین کی بڑھتی ہوئی بحری طاقت کے مقابلہ میں اب یہی صورتحال امریکہ کو درپیش ہے۔امریکی بحری طاقت اُس رفتار سے نہیںبڑھ رہی جو چین کو زیر کرنے کے لیے کافی ہو۔ موجودہ انتظامیہ نے بحریہ کے بیڑے کو 294 جنگی جہازوں تک محدود کیا ہے۔ تاہم واشنگٹن کی حکومت موجودہ استعداد کو سوا تین سو جہازوں اور بعد میں پونے چار سوجہازوں تک بڑھانا چاہتی ہے۔ امریکی بحریہ کسی ایک دن میں سمندر کے کسی ایک مقام پر نوّے بحری جہاز تعینات کرتی ہے تاکہ دنیا کے ہر حصّہ میں اپنی چودھراہٹ قائم رکھ سکے۔ امریکی فوجی کمانڈر چاہتے ہیں کہ یہ تعداد ایک سو تیس ہونی چاہیے۔ امریکی بحریہ کے بعض ماہرین سمجھتے ہیں کہ صرف معیار میں برتری کافی نہیں بلکہ دنیا پر حکومت کرنے کی خاطر بحری جہازوںکی تعداد کا زیادہ ہونا بھی ضروری ہے۔ان کا موقف ہے کہ امریکی بیڑے میں جدید ترین ٹیکنالوجی کے حامل بڑے جنگی بحری جہازوں اور نسبتاً چھوٹے جنگی بحری جہازوں کی تعداد ملا کر ساڑھے چار سو ہونی چاہیے۔ دوسری طرف‘ چین کی بحریہ تیزی سے پھیل رہی ہے۔ اسوقت چینی بحریہ امریکہ کے مقابلہ میں زیادہ بڑی ہوچکی ہے۔امریکی محکمہ دفاع کے مطابق چین کے پاس360 جنگی بحری جہاز ہیں جبکہ امریکہ کے پاس 297۔ بحریہ کے ماہرین کا اندازہ ہے کہ اگلے چار برسوں میں چین کی بحریہ میں چار سو جنگی جہاز ہوں گے۔ چین کے عسکری بجٹ کا پچپن فیصد بحری طاقت بڑھانے پر صرف ہوتا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ چین کے جنگی بحری جہازوں کی ٹیکنالوجی کا معیار امریکی جہازوں کے قریب قریب آچکا ہے۔ چین کے پاس کمرشل اور جنگی بحری جہاز بنانے کے درجنوں کارخانے‘ شپ یارڈ ہیں جبکہ امریکہ میں بڑے جہاز بنانے کے صرف سات شپ یارڈ ہیں۔ چین‘ جنوبی کوریااورجاپان دنیا کے نوّے فیصد تجارتی بحری جہاز بنارہے ہیں۔ اب اپنی بحری صنعت میںکچھ جان ڈالنے کی خاطر امریکہ نے آسٹریلیا کو ایٹمی مواد سے چلنے والی آبدوزیں بیچنے کا معاہدہ کیا ہے۔امریکی گھبراہٹ کا یہ عالم ہے کہ اس سودے کی خاطر واشنگٹن کو آسٹریلیا کا فرانس سے کیا گیا معاہدہ ختم کروانا پڑا۔ انکل سام کے پاس اتنے مالی وسائل نہیں کہ وہ چین کوپیچھے چھوڑ سکے۔ واشنگٹن حکومت کا مجموعی قرض اسکی کُل داخلی پیداوار(جی ڈی پی) کے ایک سو دس فیصد کے برابر ہوچکا ہے اور گراف مزید اُوپر جارہا ہے۔ صدر جو بائیڈن کافوکس ملک کے اندرٹوٹ پھوٹ کے شکارانفراسٹرکچر کو بہتر بنانے پر ہے۔ انہوں نے کانگریس سے انفراسٹرکچر پلان کے لیے کھربوں ڈالرکا بجٹ منطور کروایا ہے۔ اگر مختصر مدت میں امریکہ اپنے پرانے جنگی بحری جہازوں کو جدیدبنائے تو اسے ان جہازوں کے پاور پلانٹ تبدیل کرنا پڑیں گے اور ان میں نئی حربی صلاحیت اور سینسر لگانے پڑیں گے۔اندازہ ہے کہ ایک کروزر یا ڈسٹرائر جہاز کی مرمت اور جدید بنانے کے کام پرتقریبا ً پچاس کروڑ ڈالر خرچ آئے گا۔ جبکہ ایک نیا جدید بحری جہازساڑھے تین ارب ڈالر میں اور ڈسٹرائر جہاز تقریباًدو ارب ڈالر میں تیار ہوگا۔ امریکی معیشت کے لیے مختصر مدت میں یہ بوجھ اٹھانا دشوار ہے۔ اسی لیے واشنگٹن آسٹریلیا‘ انڈیا اور جاپان کے ساتھ اتحادی معاہدے کررہا ہے تاکہ انکے اشتراک سے بحرالکاہل اور بحر ہند میں چین کا مقابلہ کرسکے۔