چیئرمین واٹر اینڈ انوائرمینٹل کمیشن جسٹس(ر) علی اکبر قریشی نے کہا ہے کہ سموگ کی روک تھام کے لئے 7نومبر سے 31دسمبر تک بھٹوں کو رضاکارانہ طور پر بند رکھا جائے گا۔ ایک رپورٹ کے مطابق ہر سال دنیا بھر میں فضائی آلودگی 70لاکھ افراد اموات کی وجہ بنتی ہے۔ ان میں 6لاکھ 15سال سے کم عمر کے بچے ہوتے ہیں ۔چند برس سے پاکستان بالخصوص صوبائی دارالحکومت لاہور سموگ سے شدید متاثر ہو رہا ہے گزشتہ برس لاہور میں ماحول کے حوالے سے آگاہی فراہم کرنے والی تنظیم کلائمیٹ ایکشن نائو کے مطابق لاہور میں پی ایم 2.5عام سطح سے دس گنا زیادہ تھی۔ماہرین سموگ کی وجہ کوئلے کے بھٹوں اور سردیوں میں کسانوں کی طرف سے چاول کی فصل کی مڈیاں جلایا جانا بتاتے ہیں۔ لاہور میں سموگ مشرقی پنجاب میں فصلوں کو آگ لگانے کی وجہ سے دھواں بتایا جاتا ہے۔ حکومت نے فصلوں کے جلانے پر پابندی عائد کر رکھی مگر اس کے باوجود پابندی پر عملدرآمد نہیں ہوتا، اسی طرح بھٹوں کو زگ زیگ ٹیکنالوجی پر منتقل کرنے سے فضائی آلودگی سے بچا جا سکتا ہے ۔حکومت اعلانات کے باوجود فصلوں کو جلانے اور بھٹوں کو جدید ٹیکنالوجی پر منتقل کرنے میں ناکام رہی ہے ۔ بھٹے کی بندش سے اینٹیں مہنگی ہونے سے تعمیراتی شعبہ شدید متاثر اور لاکھوں افراد کے بے روزگار ہونے کا اندیشہ ہے۔ بہتر ہو گا حکومت بھٹوں کی بندش کے بجائے فصلیں جلانے اور بھٹوں کو جدید ٹیکنالوجی پر منتقل کرنے کے لئے اقدامات کرے تاکہ تعمیراتی شعبہ کو متاثر ہونے سے بچایا جا سکے۔