لاہور تو سموگ کا شکار ہے ہی لیکن یہاں ہر منظر دھندلا رہا ہے،ہر طرف سموگ ہی سموگ ہے۔ ایک ایسے مرحلے پر جب ملک کی معاشی حالت کے بارے میں بین الاقوامی ادارے خیر کی خبر دے رہے ہیں۔ دنیا بھر کے سرمایہ کار اور حکومتیں پاکستان کے اندر سرمایہ کے لئے امڈے چلے آ رہے ہیں۔ گزشتہ چار روز سے روس کا ایک اعلیٰ سطحی وفد موجود ہے جو دس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے معاہدے کر رہا ہے۔ سیاحت کے حوالے سے پاکستان دنیا کے پسندیدہ ترین ملکوں میں سے ایک بن چکا ہے۔ سفارتکاری کے محاذ پر فتوحات مل رہی ہیں۔اس صورتحال میں اچانک ایک کے بعد ایک،عجیب و غریب احتجاج ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ اس میں سپریم کورٹ میں آرمی چیف کی تقرری کے حوالے سے ہونے والی سماعت میں مشاہدات و دلائل کو بھی مدّنظر رکھیں۔ کچھ پرانے کالموں سے اقتباسات پیش ہیں جن سے کڑی سے کڑی ملانے میں مدد ملے گی۔ اکتوبر کے تیسرے ہفتے کے کالم کا ایک اقتباس پیش ہے : ’’اسلام آباد میں سرگوشیوں میں بہت سی باتیں ہو رہی ہیں بہت سی افواہیں پھیلائی جا رہی ہیں۔ کچھ لوگ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان گڑ بڑ کی دبی دبی سی خواہش کو خبر بنا کر پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔اس ساری تھیوری کی تان ملک میں جلد پیدا ہونے والے سیاسی عدم استحکام پر ٹوٹ رہی ہے۔اس کی آڑ میں وزیر اعظم عمران خان کو قائل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ اپوزیشن متحد ہو رہی ہے اور کسی بڑی تحریک کے امکانات بڑھ رہے ہیں ایسی صورتحال میں بہتر ہے کہ جیل میں موجود راہنمائوں کو کچھ نہ کچھ ریلیف دے دیں بھلے وہ ملک سے باہر جانا چاہتے ہیں تو کوئی حرج نہیں۔ کم از کم ملک کے اندر سیاسی افراتفری نہیں ہو گی۔ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اگر اس ملک میں کوئی سیاسی عدم استحکام اس وقت پیدا کیا جاتا ہے تو اسکا مقصدیہ تو ہو سکتا ہے کہ ان با اثر سابق حکمرانوں کو ملک سے بحفاظت باہر بھیجا جائے لیکن کسی حقیقی تحریک یا حکومت کی اتھل پتھل کا کوئی امکان نہیں۔ اگر کوئی چھوٹی موٹی سیاسی ہلچل دیکھیں تو بہت پریشان نہیں ہونا بس اتنا سمجھ لیجئے گا کہ قومی مفاہمت ہو چکی ہے اور بہت جلد کچھ چہرے بصورت خورشید ادھر ڈوبیں گے اور لندن ، ابو ظہبی ، امریکہ وغیرہ میں طلوع ہوجائیں گے۔‘‘ نومبر کے پہلے ہفتے لکھا تھا کہ: ’’ نواز شریف جا رہے ہیں اورپتہ نہیں مجھے کیوں لگ رہا ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن بھی اسی ہفتے چلے جائیں گے اور شاید دسمبر تک آصف زرداری بھی خود ساختہ جلا وطنی اختیار کر لیں۔ کیا مولانا فضل الرحمٰن کا اس ساری سیاسی ہجرت کے اہتمام سے کوئی تعلق ہے، شاید ابھی یہ ثابت کرنا مشکل ہو۔ـاس ڈیل کے مکمل ہوتے ہی آصف زرداری کی قسمت جاگنے کے امکانات پائے جاتے ہیںاور شاید دسمبر تک جب سردیاں عروج پر ہونگی وہ بھی علاج کے لئے بیرون ملک سدھار جائیں۔ملک میں اگلے ایک دو ماہ میں سیاسی افراتفری ختم ہوتی نظر آرہی ہے اور اگر جون 2020 ء تک ملکی معاشی لحاظ سے اپنے پائوں پر کھڑا ہو گیا اور کاروبار و صنعت کے معاملات جیسے بہتر ہوتے نظر آ رہے ہیں تو پھر عمران خان کی حکومت ایک ایسا بجٹ بھی لا سکتی ہے جسکے بعد وہ نئے عوامی مینڈیٹ کے لئے انتخابات کا اعلان کر دے۔‘‘ نومبر کے دوسرے ہفتے کا ایک اقتباس ملاحظہ ہو: ـ’’اگر آپ (عمران خان)یہ سمجھتے ہیں کہ میاں نواز شریف کی عدم موجودگی میںآپ سیاسی میدان میں کھل کھیلیں گے تو یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہئے۔ مولانا فضل الرحمٰن کی صورت میں ایک نئی اپوزیشن قوت آپکے سامنے ہو گی اور مولانا کی مدد کے لئے ملک کے اندر اور باہر تمام سیاسی قوتیں متحد ہونگی۔اور میری یہ بات بھی وزیر اعظم صاحب لکھ کر رکھ لیں مریم صفدر بھی چلی جائیں گی۔ آصف زرداری بھی بیرون ملک جانے والے ہیں۔کیونکہ انکا کام اب ملک کے اندر نہیں ہے وہ باہر بیٹھ کر اپنی سیاست کریں گے اور آپکو گرانے کے نت نئے نسخے تیار کر کے بھیجتے رہیں گے جن پر عملدرآمد کے لئے یہاں پر ایک موئثر تعداد موجود ہے۔ ملک کے اندرسیاسی ہنگامہ آرائی سے کچھ نہیں ہوتا۔ یہ ہنگامہ اگر باہر بیٹھ کر کیا جائے تو زیادہ خطرناک ہو جاتا ہے۔یہ سب چلے جائیں گے اوروزیر اعظم کے لئے سیاسی میدان میں اصل مشکل وقت کا آغاز ہو جائے گا۔مولانا کا پلان ’’بی‘‘ شروع ہو چکا ہے جس سے سڑکوں پر ہنگامہ آرائی کا خدشہ ہے۔ پلان ’’سی‘‘ سب کے باہر جانے کے بعد شروع ہو گا۔‘‘ یہ تمام تجزیے اور اندازے اگر مدّ نظر رکھیں تو کچھ دن پہلے ہونے والے سٹوڈنٹ یونین بحالی کے احتجاج اور اب لاہور میں وکلاء کاایک ایسے مسئلہ پر پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی پر حملہ جس کے بارے میں وکلاء کے نمائندے خود کہہ رہے ہیں کہ معاملات طے پا گئے تھے اور فریقین کے مابین صلح ہو چکی تھی۔ایک ایسا منظر پورا دن لاہور میں تھا۔ دشمن ملکوں کے درمیان جنگوں کے دوران بھی ہسپتالوں کو مکمل تحفظ حاصل ہوتا ہے لیکن وکلاء نے جس انداز میں حملہ کیا اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ کوئی عام معاملہ نہیں ہے۔ اسکے پیچھے وہ قوتیں بہر حال موجود ہیں جن کو یہ خدشہ ہے کہ اگر موجودہ حکومت اسی طرح آگے بڑھتی رہی اور اسے اسی طرح بین الاقوامی مالیاتی اداروں اور چین، روس، یورپ، برطانیہ اور مشرق وسطیٰ کے ممالک کا تعاون حاصل رہا تو انکی سیاست ہمیشہ کے لئے فارغ ہے۔ اپنے شہزادے شہزادیوں کے لئے تخت و تاج کے خواب دیکھنے والے اس تبدیلی کو روکنے کے لئے ہر حد تک جائیں گے۔ابھی بھی وقت ہے کہ جن طوطوں میں ان سیاسی تگڑوں کی جان ہے ان پر توجہ دی جائے۔ سموگ ہی سموگ ہے جس قدر جلد یہ دھند چھٹ جائے بہتر ہے، ورنہ یہ دھندلاتا ہوا منظر نامہ کسی کے لئے خیر کی خبر نہیں لائے گا۔ اس سموگ کو ختم کرنے کے لئے کچھ تگڑوں سے چھٹکارا حاصل کرنا بہت ضروری ہے۔