پروفیسر محمد منور مرزا مرحوم ماہر اقبالیات کے طور پر عشروں تک عاشقان اقبالؒ کے دلوں کو گرماتے‘روحوں کو تڑپاتے رہے‘اقبالؒ کی طرح اسلام ان کا دیس تھا اور وہ صحیح معنوں میں مصطفویؐ تھے‘ علامہ عبدالستار عاصم کا اللہ تعالیٰ بھلا کرے ‘انہوں نے قلم فائونڈیشن کے نام سے طباعتی ادارہ قائم کر کے نامور اہل قلم کی تحریروں کی اشاعت کا بیڑا اٹھایا ‘ پروفیسر محمد منور مرزا کو بھی نہیں بھولے‘گزشتہ دنوں ’’مشاہدہ حق کی گفتگو‘‘ کے عنوان سے انہوں نے مرزا صاحب کے جنرل ضیاء الحق شہید کے حوالے سے شائع شدہ مضامین کو کتابی شکل دے کر قارئین کے ذوق مطالعہ کی نذر کیا۔کتاب بنیادی طور پر جنرل ضیاء الحق کے بارے میں مرزا صاحب کے تاثرات کا مجموعہ ہے مگر ضمناً کئی دوسرے موضوعات بھی زیر لب آئے‘ جن میں اسلامی بنیاد پرستی بھی شامل ہے جسے بعدازاں دہشت گردی کا نام دے کر اسلام اور مسلمانوں پر ہنر مندی سے چسپاں کیا گیا‘’’مشاہدہ حق کی گفتگو‘‘ میں مرزا صاحب ’’اسلامی بنیادی پرستی‘‘ کا پول یوں کھولتے ہیں پڑھیے اور داد دیجیے۔ ’’جہاں تک مغرب کا تعلق ہے‘سیدھی سی بات ہے وہ مغرب عیسائی مغرب ہے بظاہر وہ اپنے آپ کو روشن خیال کہتا ہے‘مگر حقیقت یہ ہے کہ جہاں تک عیسائیت کا تعلق ہے‘اس کے ساتھ ان کا تعصباتی رابطہ ہے۔اہل مغرب جہاں صلیبی جنگوں کے زمانہ میں کھڑے تھے‘آج بھی وہیں کھڑے ہیں۔اسلام ان کے لئے آج بھی وہی دشمن مذہب ہے جو صلیبی جنگوں کے زمانہ میں تھا خواہ بظاہر اہل مغرب بڑے سائنس دان بن جائیں‘بڑے فلاسفر بن جائیں‘بڑے مدبر اور مہذب بن جائیں‘اسلام کے بارے میں ان کا رویہ وہی ہے۔اسلام کو بدنام کرنے کے لئے انہوں نے اسلام کو ہمیشہ جنگجو کہا۔اسلام کے خلاف تعصب ہمیشہ ان کے دماغوں پر مسلط رہا۔جوں جوں جنگ عظیم دوم کے بعد مسلمان ممالک نے آزادی حاصل کرنا شروع کی‘توں توں انہیں اسلام کی طرف سے خدشہ اور خوف لاحق ہونے لگا۔ مجاہدین افغانستان نے ایک لمبی جنگ لڑی۔اس لمبی جنگ نے روسیوں کو خوف زدہ کر دیا۔روسی بنیادی طور پر عیسائی ہیں۔ستر فیصد سے زیادہ روسی آبادی عیسائی ہے۔ مسلمانوں کا فتح یاب ہونا دراصل کمیونزم کی شکست نہ تھی‘کیونکہ کمیونزم نہ دین تھا نہ مذہب نہ کوئی آئیڈیالوجی۔یہ تو یہودیوں نے ایک ہتھیار بنایا تھا جو عیسائیوں کو دے دیا تاکہ عیسائی‘عیسائیوں کو قتل کریں‘مسلمانوں کو دے دیا تاکہ مسلمان‘ مسلمان کو خود قتل کریں۔یہ طبقاتی کشمکش پیدا کرنے والا ہتھیار تھا اور خود یہودی فتنہ گر ایک طرف بیٹھ کر یہ سب کچھ دیکھ کر مزے لوٹتے رہے۔کمیونزم محض یہودی سازش تھی ہر دین کے خلاف‘ہر غیر یہودی مذہب کے خلاف اور جب سچ مچ کمیونزم کا دین سے تصادم ہوا تو پتا چلا کہ وہ بالکل ایک سطحی رنگ تھا جو بڑی جلدی سے جھڑ گیا۔گوربا چوف پر جو خوف نازل ہوا وہ یہ تھا کہ اب اگر وسط ایشیا میں افغانستان والے حاوی ہو جاتے ہیں اور روسی فوجوں کو شکست دے دیتے ہیں اور روسی پسپا ہو کر واپس آ جاتے ہیں اور ان پسپا ہونے والوں میں اچھی خاصی تعداد مسلمان فوجیوں کی ہے‘جو اصلاً نسلاً ترک ہیں‘تاتار ہیں‘ترکمان‘ازبک ہیں مراد ہے جب یہ شکست کھا کے وہاں سے نکلیں گے یا نکل رہے ہیں تو ان کے دلوں سے روسی خوف زائل ہو جائے گا اور نتیجتاً یہاں بھی بغاوتیں سر اٹھائیں گی۔پھر ان بغاوتوں کا تدارک کیسے ہو گا‘کمیونزم کے سہارے تو ان بغاوتوں کو دبایا نہیں جا سکتا‘وہ تو ایک سطحی رنگ تھا‘اتر گیا اب مذہبی یلغار کی پیدا کردہ بیداری کا قلع قمع کرنے کے لئے لازم ہے کہ مذہب ہی کو استعمال کیا جائے‘لہذا عیسائیت کا احیاء لازم ٹھہرا۔تاکہ ایک مذہبی تعصب(عیسائیت) دوسرے مذہبی جہاں (اسلام) کے خلاف لڑے۔ مجھ سے برسلز میں ولندیزی اخبار کی چیف رپورٹر نے پوچھا آیا یہ جو کچھ ہو رہا ہے‘اس کے نتیجہ میں مسلمانوں کا فنڈامینٹلزم (Fundamentalism)مسلط نہیں ہو جائے گا اور اس سے تنگ نظری نہیں بڑھے گی‘‘ میں نے کہا کہ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ بنیاد پرستی آپ کسے کہتے ہیں۔میں نے اس سے سوال کیا’’کیا آپ کسی مذہب پر یقین رکھتی ہیں‘‘ اس نے جواب دیا’’ہاں‘میں عیسائی ہوں‘رومن کیتھولک‘‘ میں نے کہا‘ ’’اس کامطلب ہے کہ تم عیسائیت کے بنیادی اصولوں کی سچائی پر یقین رکھتی ہو‘‘۔ محترمہ نے سر ہلایا اور کہا ’’ہاں میں یقین رکھتی ہوں‘‘۔ اس پر میں نے کہا کہ اس کا مطلب ہے کہ تم بنیاد پرست عیسائی ہو۔اس پر اس نے اپنے کندھے اچکائے۔میں نے کہا کہ دیکھیں اگر آپ مسیحی ہیں اور سچی مسیحی ہیں تو لازم ہے کہ مسیحیت کے بنیادی اصولوں کو مانیں۔کون مسیحی ہے جو اپنے آپ کو سچا مسیحی کہے اور وہ بنیاد پرست مسیحی نہ ہو اسی طرح اگر میں مسلمان ہوں تو میں جبھی مسلمان ہوں جب اسلام کے بنیادی عقاید پر میرا یقین کامل ہو۔ہر وہ شخص جو مسلمان کہلاتا ہے بنیاد پرست ہے۔آپ لوگ بنیاد پرستی گالی بنا دیتے ہیں ہم کو اس پر فخر ہے۔میں نے جب محترمہ سے پوچھا ’’آپ کے نزدیک بنیاد پرستی کا لب لباب کیا ہے؟‘‘ تو اس نے بتایا کہ ایسا نظام جس میں دوسروں کو برداشت نہیں کیا جاتا۔ میں نے کہا دیکھیں یورپ کے بہت سے علاقے ایسے ہیں جہاں مسلمانوں کی حکومتیں رہیں اور بعض علاقے ایسے بھی ہیں جہاں مسلمانوں کی حکومتیں اسی نوے سال پہلے تک باقی تھیں۔وہاں آٹھ آٹھ نو نو سو سال پہلے کے بنے ہوئے گرجے موجود تھے جو آج بھی موجود ہیں۔میں یہ پوچھتا ہوں کہ یورپ کے بہت سے ممالک میں مسلمانوں کی تین سو سے پانچ سو سال تک حکومت رہی‘مسلمانوں نے اس دوران میں جو مساجد بنائی تھیں وہ آج کہاں ہیں؟اگر بنیاد پرستی کا مطلب دوسروں کو برداشت نہ کرنا ہے‘دوسروں کی روایات کا احترام نہ کرنا ہے‘دوسروں کے دین یا دینی نشانیوں کو باقی نہ رہنے دینا ہے تو اس سارے علاقے میں مسلمانوں کی جو ہزارہا مساجد تھیں وہ کہاں ہیں‘آپ کے گرجے تو اب بھی کھڑے ہیں‘کیا یہ ایک بات دلیل کے طور پر کافی نہیں ہے کہ آپ لوگ تنگ نظر ہیں۔میں پوچھتا ہوں سپین میں مسلمانوں نے آٹھ نو سو سال حکومت کی‘مسلمانوں کی مساجد وہاں کہاں ہیں۔ان آٹھ نو سو سالوں میں آپ کے گرجے اور کلیسا تو موجود رہے۔ میں نے محترمہ سے پوچھا کہ کیا آپ دلی میں کبھی گئیں۔’’ہاں میں جاتی رہتی ہوں‘‘ اس نے جواب دیا۔میں نے بتایا کہ دلی شہر میں صدہا سال حکومت کرنے کے باوجود مسلمان اقلیت میں رہے۔پورے بھارت میں کسی علاقے میں بارہ سو سال‘کسی میں ہزار‘کسی میں پانچ سو سال حکومت کی۔اس کے باوجود ہندوئوں کے قدیم بڑے مندروں میں سے ایک ایک باقی ہے۔مسلمان برصغیر میں اسی طرح اقلیت میں رہے جس طرح سپین میں تھے‘اگر وہ دوسروں کا وجود برداشت نہیں کر سکتے تھے تو انہوں نے دوسروں کو زبردستی مسلمان کیوں نہ بنایا یا فنا کیوں نہ کر دیا۔مسلمان تو اللہ کے حکم کے مطابق اسلام کی دعوت دیتے ہیں۔کوئی قبول کرے یا نہ کرے جبر نہیں کرتے۔اسلام تو عالی حوصلہ اور دوسروں کے واسطے ہر وقت جگہ پیدا کرنے والا مذہب ہے‘اسے تو آپ بنیاد پرست تنگ ‘نظر‘خونخوار اور وحشی بتاتی ہیں اور عملاً جو تاریخ بتاتی ہے وہ یہ ہے کہ اسلام کے مقابل جس جس مذہب کو جہاں بھی حاکم ہونے کا موقع ملا‘اس نے اسلام کو اس علاقے کے بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکا۔تاریخ یہ بتاتی ہے کہ ہر مذہب اسلام کے خلاف تھا‘مخالف اسلام مذہب کو جب موقع ملا اس نے اسلام کو برباد کیا۔اسلام نے ہندوئوں کو بھی براداشت کیا‘ہندو اسلام کو برداشت نہیں کر پا رہے۔عیسائی برداشت نہیں کرتے‘ہم نے عیسائیوں کو بطور رعایا برداشت کیا۔یہودی ہماری رعایا تھے‘ہم نے برداشت کیا مگر یہودی جہاں حاوی ہوا اس نے مسلمانوں کو برباد کیا‘کاٹ کر رکھ دیا۔‘‘ ’آپ بتائیں کیا مسلمانوں نے یہودیوں کے گھر لوٹے یا ان کی نسل کشی پر کمربستہ ہوئے‘یہودی مسلمان حکومتوں میں تاجر بھی تھے‘مشیر بھی تھے‘وزیر بھی تھے۔کیا ہم نے محض انہیں یہودی ہونے کی حیثیت سے نقصان پہنچایا۔سلطنت عثمانیہ میں ہمارے تو کرسچین بھی وزیر تھے۔بھارت میں ہندو لوگ مسلمان فوج میں بڑے بڑے جرنیل‘گورنر اور وزیر تھے‘مگر اس کے برعکس مسلمانوں کے ساتھ سپین اور یونان میں کیا ہوا؟ بلغاریہ میں کیا ہو رہا ہے؟ہماری سمجھ میں آپ کی یہ بات نہیں آتی کہ بنیاد پرستی کی گالی آپ عیسائی لوگ مسلمانوں کو کیوں دیتے ہیں۔آپ کیوں نہیں سمجھتے کہ ہر وہ آدمی جو اپنے مذہب کو مانتا ہے‘وہ بنیاد پرست ہے اور اسے اپنے مذہب پر کاربند رہنے کی پورری پوری آزادی ہونی چاہیے۔‘‘ اسلامی بنیاد پرستی/طلوع