’’فرام کارگل ٹو دے کُو‘‘نسیم زہرہ کی اس ہنگامہ خیز تحقیق میں بہت سی ناگوار حقیقتیں بھی سامنے آتی ہیں جن کے بارے میں ہم آج تک لاعلم تھے؟ مشرقی پاکستان میں جو ہوا وہ ہم سے چھپایا گیا۔ فوج میں وہ کون ساگروہ تھا جس نے کسی کو کانوں کان خبر نہ ہونے دی اور کارگل پر یلغار کرنے کا منصوبہ تیار کرلیا۔ یہاں تک کہ نوازشریف بھی بے خبر رہے۔ سری پائے نوش کرتے رہے یا مری کے محل میں بھیگے ہوئے موسموں سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ اس کتاب میں بہت سے سوالوں کے واضح نہیں مبہم جواب ہیں۔ کیا کارگل مہم جوئی سے پیشتر وزیراعظم کو اعتماد میں لیا گیا؟ ہماری حکومت مسلسل اصرار کرتی رہی کہ کارگل کی چوٹیوں پر مجاہدین کا قبضہ ہے۔ ہندوستان جب سینکڑوں بھاری توپوں کے ساتھ چوٹیوںپر براجمان ہمارے مجاہدین نہیں فوجیوں پر گولے برسا رہے تھے اور ہندوستانی فضائیہ ان پر بمباری کر رہی تھی۔ تب بھی ہم انکاری ہو گئے، کہیں اوپر سے ایک حکم آیا کارگل کے سانحے کے بعد کہ ایک گرینڈ شو کا اہتمام کیا جائے جس میں شہیدوں کی بیوائوں کو خراج تحسین پیش کیا جائے۔ مجھے قطعی طور پر اس شو کی میزبانی کی حسرت نہ تھی۔ کراچی سے معین اختر بلایا گیا اور اس نے کم از کم دوبار اعلان کیا کہ ’’خواتین و حضرات۔ شہید کی بیوہ تشریف لا رہی ہیں، ان کے لیے بہت سی تالیاں۔‘‘ کیسے نوازشریف بن بلائے کلنٹن کو ملنے کے لیے اپنے بال بچوں سمیت واشنگٹن پہنچ گئے۔ کارگل سے پسپائی کا وعدہ کیا اور پھر شاپنگ میں مشغول ہو گئے۔ کیا ’’فرام کارگل ٹودے کُو‘‘ پاکستانی اداروں کی چھپر چھائوں تلے لکھی گئی ہے جیسے کہا جاتا ہے کہ جابر سلطان کے سامنے اگر کلمہ حق کہا جائے تو بہتر ہے کہ پوچھ کر کہا جائے۔ بہرطور… اپنی کچھ خامیوں کے باوجود کہ بہت سی عبارتیں شاید پروف ریڈنگ کی شکار ہو کر دو دوبار نازل ہوتی چلی جاتی ہیں یہ ایک تاریخی دستاویز ہے۔ کارگل اے کارگل! ابھی پچھلے دنوں میرے ایک عزیز دوست انگلستان سے میرے لیے دو بہت نایاب تصویری کتابیں لے کر آئے۔ میرے دیگر عزیز دوست جو دوسرے ملکوں میں رہائش پذیر ہیں اور جب کبھی پاکستان آتے ہیں میرے لیے کاٹھ کباڑ یعنی پرفیوم۔ شرٹس اور سویٹر وغیرہ لے آتے ہیں انہیں بھی اللہ توفیق دے تو میرے لیے صرف کتابیں تحفے کے طور پر لایا کریں۔ میں وعدہ کرتا ہوں کہ کبھی انکار نہیں کروں گا۔ بہرحال ان دو کتابوں کے نام ہیں۔ ’’امپریل امیج‘‘ مغل دربار کی تصویریں اور ’’جان لاک وڈ کپلنگ‘‘ آرٹس اینڈ کرافٹس آف پنجاب اینڈ کنڈن۔ یاد رہے کہ یہ والے کپلنگ ’’جنگل بک’’ والے مشہور مصنف رڈیارڈ کپلنگ کے اباجی تھے اور آج کے نیشنل کالج آف آرٹس تب کے میو سکول آف آرٹس کے پہلے پرنسپل تھے اور لاہور کے شیدائی تھے۔ میں ان دو اہم دستاویزات کو آسانی سے بھگتا نہیں سکتا۔ یہ الگ کالم کی متقاضی ہیں جو لکھا جائے گا۔ بہ شرط زندگی۔ اب تھوڑا سا تذکرہ ان اردو کتابوں اور پرچوں کا بھی ہو جائے جو حال ہی میں منظر عام پر آئے ہیں لیکن اس سے پیشتر ایک گزارش کرنا چاہتا ہوں۔ میں کتابوں کے ریویو نہیں لکھتا کہ یہ بیکار بیٹھے نقادوں کا کام ہے اور مجھے بہت کام ہیں۔ مثلاً ان دنوں میرے پسندیدہ پھولوں ہار سنگھار کی بہار ہے اور میں اس کے درخت تلے کھڑا ہوتا ہوں تو یار فرید اس کی ٹہنیوں کو جھٹکے دیتا ہے تو سینکڑوں پھول ٹپ ٹپ ایک مہک آور بارش کی بوندوں کی مانند مجھ پر گرنے لگتے ہیں۔ چنانچہ براہ کرم مجھے اپنی کتابیں ریویو کے لیے مت روانہ کیجئے اور پھر بار بار فون مت کیجئے کہ تارڑ صاحب ایک ماہ ہو گیا ہے کتاب بھیجے ہوئے ابھی تک آپ نے کالم میں ذکر نہیں کیا۔ فون بار بار کریں گے تو میں کبھی آپ کی کتاب کا ذکر نہیں کروں گا۔ بہرحال اردو کتابیں جو میری نظر سے گزریں ان میں سب سے اہم اور تخلیقی کتاب بہت باکمال نثر لکھنے والے سمیع آہو جا کے افسانوں کا مجموعہ ’’ناردرن کمانڈ‘‘ ہے۔ سمیع ادیبوں کا ادیب ہے۔ وہ بہت گنجلک نثر لکھتا ہے۔ سب میں روایات، تاریخ، شاعری، سیاست اور فلسفے کی حیرت ناک آمیزش ہوتی ہے۔ وہ مکمل طور پر آپ کی فہم میں نہیں آتا۔ کچھ نہ کچھ ان کہا رہ جاتا ہے اور یہی بڑے ادب کی نشانی ہے۔ سمیع آہو جہ کچھ عرصے سے فالج کے حملے کا شکار ہو کر نیم اپاہج ہوگیا ہے۔ وہ جو ادبی محفلوں میں اپنی فلسفیانہ گفتگو سے سب کو گنگ کردیتا تھا اب خود گنگ ہو گیا ہے، بول نہیں سکتا۔ اب صرف اس کا ادب بولتا ہے۔ دوسری اہم ترین کتاب عرفان جاوید کے خاکوں کا ایک مجموعہ ہے اور اس میں حیرت بہت ہے کہ عرفان نے اپنے عرفان کے کرشمے سے ایسے لوگوں کے خاکے بھی تحریر کئے ہیں جن سے وہ کبھی ملا ہی نہیں جو لوگ عدم کی ساخت اختیار کر چکے ہیں۔ خاکہ نویسی میں یہ ایک نئی جہت کی پیدائش ہے اور ہم عرفان کو مبارک دے سکتے ہیں کہ اس نے ان دیکھے بچے بھی اپنے تصور کے زور سے پیدا کردیئے ہیں۔ البتہ اس کتاب میں سب کے سب سرخاب نہیں ہیں۔ کچھ کوے بھی کائیں کائیں کرتے ہیں۔ آسٹریلیا میں مقیم اشرف شاد کا نیا ناول ’’بی اے رستم، ٹی وی اینکر‘‘ مجھ تک چلا آیا ہے۔ میں شاد کے اولین ناول ’’بے وطن‘‘ سے ہی اس کا معترف اور مداح ہو گیا تھا۔ ازاں بعد اس نے پے در پے ایسے ناول لکھے جو بس وہی لکھ سکتا تھا۔ ’’وزیراعظم، جج صاحب، صدر محترم وغیرہ۔ ناول لکھ لکھ کر نہ صرف اس کی مونچھیں سفید ہو گئی ہیں بلکہ ایک بوڑھے سمندری شیر کی مانند ڈھلک بھی گئی ہیں اور وہ شکل سے ایک ایسا راجپوت بوڑھا لگنے لگا ہے جو ناول کی سلطنت کے دفاع میں ابھی تک شمشیر بہ کف ہے۔ اشرف شاد کی مانند آمنہ مفتی کے بھی پہلے ناول ’’جرأت رندانہ‘‘ نے مجھے متاثر کیا تھا۔ اس دوران اس نے مختلف ٹیلی ویژن چینلز کے لیے نہایت ہی دردناک اور رلا دینے والے پاپولر ڈرامے لکھے جن کی سکرپٹ آنسوئوں سے بھیگی ہوئی تھی۔ اب اس کا نیا ناول ’’پانی مر رہا ہے‘‘ شائع ہوا ہے جو ایک آمنائی مفتیائی تحریر ہے۔ ’’لاہور کے نئے پرانے رنگ‘‘ محمد ممتاز راشد کی تحریر ہے۔ وہ جو لاہور سے محبت کرتے ہیں وہ اس پریشان اور بے ترتیب مجموعے میں سے اپنی پسند کا لاہور شاید تلاش کرسکتے ہیں۔ فخر زمان بہت زمانوں سے میرا دوست ہے۔ ہم ایک دوسرے کے بھیدی ہیں۔ اس کی منتخب اردو اور پنجابی شاعری کے دو مجموعے شائع ہوئے ہیں۔ ’’وقت کو تھام لو‘‘ اور ’’زوال دی گھڑی۔‘‘ ظفر اقبال نے دیباچہ تحریر کیا ہے اور اس میں میرا ایک پسندیدہ شعر شامل ہے۔ تم سے ملتا ہوں تو اس سوچ میں پڑ جاتا ہوں وقت کے پائوں میں زنجیریں ڈالوں کیسے ’’لوح‘‘ اور ’’تسطیر‘‘ کے ضیخم شمارے گواہی دیتے ہیں کہ ان دنوں بھی ہمارے ہاں کیسے کیسے شاندار ادیب اور شاعر نہایت بلند پایہ ادب تخلیق کر رہے ہیں۔ ’’ادبیات‘‘ کے عبداللہ حسین نمبر نے مجھے اداس کردیا۔ وہ کہا کرتا تھا کہ مستنصر جب تم ڈیفنس میں منتقل ہو گئے تو ہم دونوں اکٹھے سیر کیا کریں گے اور میں ڈیفنس میں منتقل ہوا تو وہ کہیں اور منتقل ہوگیا۔ ’’ادبیات‘‘ کا یہ نمبر عبداللہ حسین کے بارے میں اب تک جتنے بھی یادگاری نمبر شائع ہوئے ہیں۔ ان سب پر فضیلت رکھتا ہے۔ اور آخر میں ظفراقبال… او و آخر ظفر اقبال… ’’تاخیر‘‘ اور ’’توفیق‘‘ سرور اعوان نے مجھے ظفر کا ایک شعر بھیجا۔ آسماں پر کوئی تصویر بناتا ہوں ظفر کہ رہے ایک طرف اور لگے چاروں طرف میں اکثر کہتا کرتا ہوں کہ ہمارے عہد کے بہت سے ’’مشہور زمانہ شاعر‘‘ کسی ایک بڑے شعر کے لیے ترستے ہی رہے اور ظفراقبال نے ایسے شعروں کے انبار لگادیئے : صورت رشک بتاں ہوتی ہوئی نعت آنکھوں سے رواں ہوتی ہوئی کیا مدینے کے گلی کوچوں میں عقل پھرتی ہے گماں ہوتی ہوئی آرزو ان کے بلاوے کی ظفر اس بڑھاپے میں جواں ہوتی ہوئی