کوئٹہ سے قندھار کے راستے کے ٹھیک درمیان میں چمن کا شہر آتا ہے، جو ساڑھے سات ہزار فٹ بلند خوجک پہاڑ کے دامن میں واقع ہے۔ اسی پہاڑ کو کاٹ کر انگریز نے 1891ء میں ریلوے لائن کیلئے چار کلو میٹر طویل سُرنگ تعمیر کی۔ مشہور ناول ’’امرائو جان ادا‘‘ کے مصنّف مرزا ہادی رسوا اسی ریلوے لائن کی تعمیر پر ملازم تھے۔ خوجک کا پہاڑ دراصل ایک فصیل ہے جس پر انگریز نے اپنے زمانے میں پختہ مورچے تعمیر کئے تھے جو آج بھی موجود ہیں۔ خوجک کی چوٹی پر کھڑے ہو کر دیکھیں تو پاکستان کے چند کلو میٹر علاقے کے فوراً بعد میلوں تک افغانستان ہی نظر آتا ہے۔ دونوں جانب اچکزئی قبیلے کے لوگ آباد ہیں۔ یہ ایک بہت بڑی سطح مرتفع ہے، جسے ’’توبہ‘‘ کہتے ہیں۔ جو اپنے قبائل کی وجہ سے ’’توبہ کاکڑی‘‘ اور ’’توبہ اچکزئی‘‘ میں تقسیم ہے۔ کوہِ سلیمان کے دامن میں موجود اس خطے نے تاریخ کے بہت اُتار چڑھائو دیکھے ہیں۔ ’’سپین بولدک‘‘ دراصل وہ مقام ہے جہاں انگریز دَور میں افغانستان اور برطانوی ہندوستان کے درمیان ایک چیک پوسٹ قائم ہوئی اور اسے دیگر ملکوں کی طرح ایک سرحدی دروازہ قرار دیا گیا۔ پورا علاقہ اپنی مخصوص ریت کی وجہ سے چمکتا رہتا ہے۔ اس لئے اسے سپین یعنی ’’سفید‘‘ اور بولدک یعنی ’’صحرا‘‘ کہتے ہیں۔ سپین بولدک کم از کم گزشتہ ایک صدی سے ایک ایسا علاقہ رہا ہے جہاں مختلف علاقوں کے پشتون کاروبار کیا کرتے تھے۔ اس کاروباری مرکز کو ’’ویش‘‘ منڈی یا ’’رنگین‘‘ منڈی کہا جاتا ہے۔ یہ جنوب مشرقی افغانستان تک خوراک اور اشیائے صرف پہنچانے کا واحد قانونی اور بظاہردکھائی دینے والا دروازہ جس پر کبھی کوئی پہرے دار نہیں ہوتا تھا۔ لوگ مدتوں یہاں سے ایسے گزرتے تھے جیسے وہ کسی بہت بڑے پارک میں داخل یا نکل رہے ہوں اور انہیں کوئی پوچھنے والا نہ ہو۔ پوچھنے کی ضرورت اس لئے بھی نہیں پڑتی تھی کیونکہ کئی سو کلو میٹر پر پھیلی ہوئی ڈیورنڈ لائن جسے 26 مئی 1879ء کو دوسری افغان برطانیہ جنگ کے بعد گندمک معاہدے کی صورت میں ایک سرحد تسلیم کیا گیا،وہ یوں تو کاغذوں پر ایک عالمی سرحد بن گئی لیکن تقریباً ایک سو بیس سال تک اس کا زمین پر کوئی وجود تک نہیں تھا۔ اگر کسی قبیلے کا سربراہ ایک جانب رہتا تھا تو قبیلے کی اکثریت سرحد کی دوسری جانب، لوگ زیادہ تر ایک سمت آباد تھے، مگر پانی کے کنویں دوسری سمت، دالبندین سے نوشکی تک کی سرحد تو ریت کے ٹیلوں پر مشتمل ہے جو راتوں رات بگولوں کی صورت ایک سے دوسری سمت منتقل ہو جاتے ہیں۔ خیبر پختونخواہ کے ساتھ ملحقہ چھ قبائلی ایجنسیوں میں آباد یہی قبائلی پشتون ہی تو تھے جنہوں نے قائد اعظم محمد علی جناحؒ سے کہا تھا کہ ’’جب تک ہم یہاں موجود ہیں آپ کو انگریز کی طرح یہاں فوج رکھنے کی ضرورت نہیں۔ ہم ہی پاکستان کے بانکے پہریدار ہیں‘‘۔ ان پہریداروں نے ساٹھ سال تک پہریداری کا حق ادا کیا۔ قبائلی علاقہ جات کے برعکس سپین بولدک کے گردونواح میں آباد قبائل چونکہ پاکستان کی تحریک سے وابستگی اور عدم وابستگی میں بٹے ہوئے تھے، اس لئے ان ساٹھ سالوں میں جو بھی معرکہ برپا ہوا، اسی علاقے میں ہوا۔ خان آف قلات کا بھائی پرنس عبدالکریم الحاق پاکستان کے خلاف اعلانِ جنگ کرتے ہوئے یہیں سے افغانستان گیا۔ 1974ء کے ذوالفقار علی بھٹو کے آرمی ایکشن میں تمام بلوچ اور پشتون مزاحمت کار اسی علاقے سے گئے، اور وہیں سے آ کر پاکستان میں تخریب کاری کرتے رہے۔ سوویت یونین افغانستان میں داخل ہوا تو دس سال یہی علاقہ آمدورفت کا رستہ بھی رہا اور میدانِ جنگ بھی۔ ان ساٹھ سالوں میں سپین بولدک کی چیک پوسٹ جس پر ایک بہت بڑا ایف آئی اے کا تھانہ اور کسٹم کا ویئر ہائوس بھی واقع ہے کبھی بھی ایک ویزہ والے داخلی دروازے کے طور پر کام نہیں کیا کرتی تھی، سوائے ان چند غیر ملکیوں کیلئے جنہیں افغانستان سے گزر کر آگے جانا ہوتا۔ کمال کی بات یہ ہے کہ ان ساٹھ سالوں میں نہ تو علاقے کا امن و امان برباد ہوا اور نہ ہی کبھی سرحدی جھگڑے ایسے ہوئے کہ ایک دوسرے کی افواج پر حملہ کیا جاتا۔ صدیوں سے پُر امن یہ سرحد اس وقت آگ کی لکیر میں بدلی جب افغانستان میں پاکستان کا سرپرست اعلیٰ، جس کے ہم نان نیٹو اتحادی تھے، اور جس کیلئے ہم نے اپنے ملک کی غیرت و حمیت اور عزت و آبرو سب پر سمجھوتہ کر لیا تھا، وہ امریکہ اپنے اڑتالیس ممالک کی افواج کے ساتھ وہاں داخل ہوا۔ پاکستان کے اقتدار پر مشرف مسلّط تھا، جس کی سیاسی بصیرت کا یہ عالم تھا کہ وہ کہتا تھا کہ جب طالبان کی حکومت کو امریکی افواج شکست دے دیں گی تو وہاں پاکستان کی مرضی کی حکومت قائم ہو گی حالانکہ دونوں جانب معمولی سمجھ بوجھ رکھنے والے کو بھی علم تھا کہ وہاں پاکستان مخالف، بھارتی پروردہ شمالی اتحاد کی حکومت قائم ہونے جا رہی ہے اور آئندہ جتنے سال بھی امریکی افواج اور شمالی اتحاد وغیرہ افغانستان پر حکمران رہیں گی پاکستان کے ’’دیار‘‘ کی خیر نہیں۔ ہم بیس سال یہی سمجھ کر اکڑتے رہے کہ ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کے اتحادی ہیں، جبکہ حقیقت یہ تھی امریکی ان بیس سالوں میں ہمیں دہشت گردی کے سہولت کار والی ریاست تصور کرتے ہوئے، ہمیں بدنام بھی کرتے رہے اور بھارتی کونسل خانوں سے لے کر افغان خفیہ ایجنسی کی مدد سے ہمارے شہروں کو خون سے بھی نہلاتے رہے۔ ہم نے امریکیوں کو اڈے افغانستان کیلئے دیئے تھے مگر انہوں نے پانچ سو سے زیادہ ڈرون حملے پاکستانیوں پر کئے۔ وہ قبائلی جو ساٹھ سال پاکستان کی سرحد کے بلا معاوضہ پہریدار تھے ان کو پاکستان سے لڑوانے اور متنفر کرنے کیلئے سب سے پہلے نیک محمد پر ڈرون حملہ کیا گیا جو پاکستانی فوج سے معاہدہ کر کے خوش و خرم گھر لوٹ رہا تھا کہ اب امن آئے گا۔ بیس سال آگ اور خون کی ہولی کھیلی گئی، اس آگ اور خون کے موسم میں کچھ ایسے نابغے بھی تھے، جو اُمتِ مسلمہ کو متحد نہیں دیکھنا چاہتے تھے۔ ایسے افراد سرحد کی دونوں جانب تھے، جو امریکی تھنک ٹینکوں اور پاکستانی سیکولر سیاسی عسکری قیادت میں چھپے بیٹھے تھے، انہوں نے دفاعی طور پر یہ تاثر قائم کروایا کہ اب افغانستان پاکستان کا کبھی دوست نہیں ہو سکتے، اس لئے پاکستان اور افغانستان کی 2,640 کلو میٹر سرحد پر خاردار تار لگا دی جائے۔ یہ خاردار تاریں دُنیا کے کتنے ممالک میں ہیں اور کیوں ہیں ان میں سے کوئی ایک وجہ بھی ایسی نہ تھی جو افغانستان اور ہمارے درمیان پائی جاتی تھی۔ ہم ساٹھ سال سے ایسے ہی رہ رہے تھے اور امن سے تھے۔ جس دہشت گردی کا بہانہ بنا کر یہ خاردار تار لگائی گئی، آج بیس سال بعد عالم یہ ہے کہ دُنیا کے کسی سیاسی، عالمی یا علاقائی فورم پر دہشت گردی کے خلاف جنگ کا کوئی تذکرہ ہی نہیں۔ یوں لگتا ہے طوفان آیا اور گزر گیا۔ امریکہ وہاں سے بدنام ہو کر نکلا تو ڈھٹائی کے ساتھ اپنی 2لاکھ 60ہزار افواجِ ہند چینی محاذ پر لے گیا۔ لیکن اس بدلتے ہوئے موسم میں ایک اور عظیم تبدیلی آئی ہے کہ وہ ٹوڈی حکومت جو امریکہ نے قائم کی تھی، آج افغانستان کی کسی سرحد پر اس کا کوئی کنٹرول باقی نہیں رہا۔ سپین بولدک ان میں سے ایک ہے۔ آج سے چند دن پہلے وہاں پاکستان سے بغض و عناد اور نفرت رکھنے والی حکومت کا پرچم لہرایا کرتا تھا مگر آج وہاں طالبان کا سفید جھنڈا ہے جو پاکستان کو اپنا ساتھی اور برادر مسلم خطہ سمجھتے ہیں۔ سرحدیں زمین کی لکیریں نہیں ہوتیں، دلوں میں آباد ہوا کرتی ہیں۔ زمین کی لکیریں ٹینکوں اور بکتر بند گاڑیوں کے پہیے روند دیا کرتے ہیں مگر دلوں کی لکیریں قائم رہا کرتی ہیں۔ سپین بولدک پر طالبان ایک ایسا ہی ماحول چاہتے ہیں جیسا ان کے پہلے دَور یعنی 1995ء سے 2001ء تک تھا۔ وہاں آنے جانے والے ایک دوسرے کو خوب جانتے ہیں اور طالبان کی گزشتہ حکومت کے چھ سالوں میں یہاں امن بھی تھا اور اربوں روپے کاروبار بھی ہوتا تھا۔ آپ ویزہ اور پاسپورٹ کے چکر میں پڑے ہیں لیکن کسی کو اندازہ تک نہیں کہ افغانستان بدل چکا، دہشت گردی کے خلاف جنگ اب ختم ہو چکی ہے۔ لیکن وہ جو چاہتے ہیں کہ دو مسلمان ملکوں کے درمیان ایک دیوار کھڑی رہے، وہ اسے گرنے نہیں دیں گے، لیکن تقدیر نے ہم سب کی قسمت میں کچھ اور ہی لکھا ہے۔