یہ ان دنوں کی بات ہے جب تحریک انصاف کی حکومت کا سورج نصف النہار پر تھا۔روشن دن میںسب کچھ واضح تھا، حد نگاہ بھی بہترین تھی دور تک دکھائی دے رہا تھا اور دن کی روشنی میںدیکھا جا سکتا تھاکہ سب کچھ ویسے کا ویسا ہی ہے ،شطرنج کی بچھی بساط پر حریف آمنے سامنے تھے۔ وقت کی یاوری سے’’ کپتان ‘‘شہ مات کا نعرہ لگا کر تخت نشین ہوتو چکے تھے لیکن کھیل ختم نہیں ہوا تھا ۔کھیل ختم بھی نہیں ہونا ۔صبح قیامت تک بساط بچھی رہنی ہے ۔۔۔سازشوں اور خواہشوں کے شہر اسلام آباد میں بچھی بساط پر چالیں چلی جارہی تھیں ۔کہیںآہیں تھیں،کہیں کراہیں اور کہیں قہقے ۔اپوزیشن کی مشکیں کسی جارہی تھیں، چھاپے پڑ رہے تھے گرفتاریاں ہورہی تھیں،اپوزیشن چلا رہی تھی اور اقتدار کی پوزیشن میں آئے ہوئے کاندھے اچکا کر کہہ رہے تھے احتساب ہورہا ہے اور ہوگا۔ تب آج کل منظر عام سے غائب کپتان کے مشیر احتساب شہزاد اکبر صاحب کاغذوں کے پلندے لئے گھنٹہ گھنٹہ بھر کی نیوزکانفرنسیں کرتے اور حکومتی ترجمان فواد چوہدری صاحب مسکراتے ہوئے کہتے ’’نیب آزاد ادارہ ہے ہم کچھ نہیں کررہے۔انہی دنوں اسلام آباد کی ایک یونیورسٹی میں فواد چوہدری صاحب ایک پروگرام میں شرکت کے لئے جھنڈے والی کار میں تشریف لائے ۔انہوں نے اپنے مخصوص بے تکلف انداز میں لیکچر دیااور سیاسی حالات کا نقشہ کھینچ کر شرکاء کے سوالات کا جواب دینے لگے۔ زیادہ تر جواب حکومتی اقدامات اور پریوینشن آف الیکٹرونک کرائمز (پیکا) ایکٹ کے دفاع سے متعلق تھے، تب راقم بھی وہاں موجود تھا۔وہ سنتا رہااور مسکراتا رہا بقول ابن انشاء ہم ہنس دیئے ہم چپ رہے منظورتھا پردہ تیرا سوال جواب کے سیشن کے بعد چائے ناشتے کی نشست پر چوہدری صاحب جب چاہنے والوں کی سیلفیوں سے فارغ ہوئے توراقم موقع دیکھ کر ان کے پاس جا پہنچا۔ عرض کیا فواد صاحب !حکومت اپوزیشن سے بات کیوں نہیں کرتی ؟ اپوزیشن بھی اس جمہوری سسٹم کا حصہ ہے کم از کم ورکنگ ریلیشن شپ تو ہونی چاہئے لیکن یہاں تو دیکھتے ہیں کہ ہاتھ تک نہیں ملائے جاتے !ان دنوں حکومت کا اپوزیشن سے اغماض عروج پر تھا۔ میرے سوال پرفواد چوہدری صاحب نے چائے کی چسکی لی اور لگی لپٹی بغیر کہا بات یہ ہے کہ اگر ہم ان سے بات کریں گے تو ہمارے ووٹر ہمیں چیر پھاڑ دیںگے، انہوں نے ہمیں ووٹ ہی احتساب کے لئے دیا ہے۔۔۔ ان کی نظر میں اپوزیشن کے ساتھ روا رکھا گیا سلوک احتساب اورفاصلہ ضروری تھا۔مختصر اپوزیشن اسی سلوک کی مستحق تھی،فوادچوہدری صاحب کی بات سن کر میں سوچ میں پڑگیا کہ وقت ایک سا نہیں رہتا کل اگر پی ٹی آئی کے وزراء کی گاڑیوں سے جھنڈے اترے تو کیا ہوگا! میرا اس وقت کا خدشہ آج درست ثابت ہوا۔لاہور سے فواد چوہدری کی گرفتاری پر مجھے حیرت نہیں ہوئی ۔فواد چوہدری جیسے جارحانہ مزاج سیاست دانوں کو برداشت کرنا ہرکسی کے بس کی بات نہیں۔ ہاں مجھے اس بات پر ضرور حیرت ہوئی جب فواد چوہدری نے نیلسن منڈیلا کا نام لیااور کہا کہ مجھے فخر ہے، انہی الزامات کا سامنا نیلسن منڈیلا کو بھی تھا زباں پہ بارا خدا یہ کس کا نام آیا فواد چوہدری صاحب نے آنجہانی منڈیلا کی جدو جہدکو پڑھاہوگا ان کی نظر سے شہرہ آفاق کتابLong Walk to Freedom بھی گزری ہوگی ان کے اور منڈیلا کے خلاف مقدمات میں شائدکچھ مماثلت بھی ہو لیکن کیا ان کی اور منڈیلا کی سیاست میںکوئی مماثلت ہے !معذرت کے ساتھ یہ مماثلت ہبل ٹیلی اسکوپ بھی دکھانے سے قاصر ہے نیلسن منڈیلا بہت بڑا آدمی تھا۔ان کی جدوجہد میںستائیس برس جیل کی کال کوٹھڑی میں گزرے۔ طویل صبر آزما جدوجہد کے بعدبالآخروہ 1994 میں جنوبی افریقہ کے پہلے سیاہ فام صدر منتخب ہوئے تھے ۔نسل پرستی کو شکست دینے کے بعد بطور پہلے سیاہ فام صدر وہ جنوبی افریقہ کے سیاہ وسفید کے مالک تھے۔ ان کے لئے مشکل نہ تھا کہ وہ اپنے دشمنوں سے ان ستائیس برسوں کا حساب لیتے لیکن جانتے ہیں منڈیلا نے کیا کیا؟ منڈیلانے سب کو معاف کردیا،ا س شخص کو بھی جس نے منڈیلاکے لئے جیل کو صحرا بنا دیا تھا۔ وہ پیاس کی شدت سے پانی کا گلاس مانگتا اور وہ اسکی بے بسی پر ہنستا۔ صدر بننے کے بعد منڈیلا کی اک روز بازار میں اس شخص سے ملاقات ہوگئی۔ وہ کھانا کھانے اک ریستوران میں گئے۔ کھانے کا آرڈر دیا ۔اتفاق سے وہی شخص وہاں کھانے کے انتظارمیں بیٹھا دکھائی دیا۔نیلسن منڈیلا کی نظر پڑی تو اپنے سکیورٹی آفیسر سے کہا کہ اْس شخص کو یہاں بلا لاؤکہو کھانا ہمارے ساتھ کھائے۔ سکیورٹی آفیسر نے اس اجنبی کومنڈیلا کا پیغام دیا اوروہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا ہوا صدر مملکت کی میز پر آگیا اس کی نظریں جھکی ہوئی تھیں ۔وہ بمشکل بات کررہا تھا۔وہ تھوڑا ہی کھا سکا اور اجازت لے کر چلا گیا۔ سکیورٹی افسر نے دیکھا کہ اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے۔ سکیورٹی آفیسر نے نیلسن منڈیلا سے کہا :ہزایکسی لینسی ! یہ اجنبی بیمار معلوم ہورہا تھا، نیلسن منڈیلا مسکرا دیے۔ کہا یہ بیمار نہیں بلکہ ڈرا ہوا تھا۔جب میں جیل میں تھا تو یہ شخص وہاں گارڈ تھا۔ اس کا رویہ نہایت برا اور غیر انسانی تھا ۔یہ مجھے پینے کا پانی تک نہ دیتا تھا،یہ جان گیا تھا کہ میں نے اسے پہچان لیا ہے اوراسی ڈر سے اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے ۔تب اس بڑے آدمی نے ایک تاریخی اور بڑی بات کی کہ ’’کمزور لوگ معاف کرنے میں تاخیر کرتے ہیں اورمضبوط کردار کے لوگ دیر نہیں لگاتے‘‘۔ آج ہمیں فواد چوہدری کے ہیرو نیلسن منڈیلا کی اسی اسپرٹ کی ضرورت ہے۔ ہمیںمعاف کرنا اور سب کوساتھ لے کرچلناہوگا۔مل بیٹھنا ہوگاورنہ معاشی ،معاشرتی بحران ہمیں نگل جائے گا۔ اسی منتقم مزاجی نے ہمیں 71ء میں دولخت کرنے میں کردارادا کیا تھا۔آج صورتحال سقوط پاکستا ن سے بھی مشکل ہے۔ سیاسی ومعاشی بحران نے ہماری مشکیںکس دی ہیں۔نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ مٹی کے تیل کی قیمت بھی طے کرنے جوگے نہیں رہے۔ ہم 23کروڑ کی آبادی والے ،کھیت کھلیان ، دریاؤں ،نہروں ، میدانوں اور پہاڑوں والا ایٹمی ملک ہیں لیکن ہماری پہچان کیا ہے۔۔۔ کشکول !