بھارتی اور بین الاقوامی ذرائع ابلاغ پر نظر آنے والے یٰسین ملک اپنی حالیہ تصاویر اور ویڈیو فلمز میں بظاہر کمزور اور مضحمل دکھائی دے رہے ہیں مگر وہ صرف ایک شخص نہیں بلکہ آہن صفت کشمیری ہیں جن کو پوری دنیا کی بے حسی نے عمر بھر کے لئے بھارتی جیل میں قید کروا دیا۔اسلامی دنیا تو عرصہ دراز سے مسئلہ کشمیر سے منہ موڑے بیٹھی ہے اور انسانی حقوق کجا جانوروں کے حقوق کی علمبردار عالمی تنظیمیں بھی لاتعلق نظر آئیں۔پاکستان میں بھی جس انداز میں احتجاج ہونا چاہیے تھا نہیں ہوا۔وزیر اعظم ‘قائد حزب اختلاف اور عساکر پاکستان نے بھر پور مذمت ضرور کی لیکن عوامی ردعمل مایوس کن ہے ۔ کشمیر بنے گا پاکستان کی زور دار گونج میں کشمیر بنے گا خود مختار نظریہ پیش کرنے والے مقبول بٹ کی مزاحمتی جدوجہد سے متاثر یٰسین ملک بھارتی ذرائع ابلاغ اور مختلف ٹی وی پروگرامز میں برملا اپنے نظریہ جدوجہد کا اظہار بھی کر چکے ہیں ۔قطع نظر اس کے کہ ان کا نظریہ غالب اکثریت کشمیریوں اور پاکستانیوں کی خواہش کے برعکس ہے تاہم حق خود ارادیت سے متصادم نہیں۔ وہ اپنی قوم کی آزادی چاہتے ہیں اور اپنے عظیم مقصدپر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔بس یہی ان کا قصور ہے جس کی پاداش میں مقبوضہ کشمیر میں دہشت گرد کارروائیوں کیلئے مالی وسائل فراہم کرنے اور وطن سے بغاوت جیسے الزامات عائد کئے گئے۔انہیں آخری مرتبہ فروری 2019ء میں گرفتار کیا گیا۔اسی دوران ان کی صحت کے حوالے سے تشویش ناک خبریں سنائی دیتی رہیں ۔سزا سنائے جانے سے چند دن قبل بھارتی ٹی وی چینل پر نظر آنے والی ویڈیو فلم میں بظاہر تندرست اور اپنے پائوں پر چلتے نظر آئے مگر ان کے چہرے پر گزرے ماہ وسال کی داستان صاف پڑھی جا سکتی تھی۔بھارتی سرکاری میڈیا نے چند روز قبل پراپیگنڈہ شروع کیا کہ یٰسین ملک نے الزامات تسلیم کرتے ہوئے اپنے جرائم کا اعتراف کر لیا ہے حالانکہ انہوں نے عدالتی کارروائی پر عدم اعتماد کا اظہار کیا تھا۔من گھڑت اور مکروہ عزائم پر مبنی اس مقدمے میں امکانی سزا کا تصور کسی بھی انسانی جسم میںخون کی گردش منجمد کرنے کیلئے کافی ہوتا مگر بظاہر کمزور جسم رکھنے والے یٰسین ملک نے کسی وکیل کی خدمات حاصل کرنے کی بجائے گواہوں پر خود جرح کرنے کا فیصلہ سوچ سمجھ کر ہی کیا ہو گا۔ ماضی میں بھی ان پر اغوا اور قتل جیسے الزامات کے مقدمے قائم کئے گئے تھے اور گرفتار بھی کیا گیا۔ان کی حالیہ گرفتاری اور پلوامہ کے ایک ماہ بعد مارچ 2019میں ان کی جماعت جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کا کالعدم قرار دیکر اس پر پابندی عائد کر دی گئی۔ تب سے وہ عملاً غیر فعال اور انکے قریبی ساتھی خاموش یا روپوش ہیں۔ یٰسین ملک پر فرد جرم عائد ہونے کی دیر تھی بھارتی ذرائع ابلاغ میں ممکنہ سزا کے لئے فضا سازگار بنائی جانے لگی۔بتیس برس پرانے جعلی مقدموں کی تلوار الگ سے لٹکا رکھی ہے ،جس میں اغوا اور قتل جیسے بھیانک الزامات شامل ہیں۔حال ہی میں سزا سنائے جانے والے مقدمہ میں بھارتی تحقیقاتی اداروں نے عدالت سے سزائے موت دینے کی درخواست کی جس کے جواب میں یٰسین ملک نے عدالت کے روبرو کہا کہ میں یہاں کوئی بھیک نہیں مانگوں گا ،آپ نے جو سزا دینی ہے دے دیجیے لیکن میرے کچھ سوالات کا جواب بھی دیجیے۔اگر میں دہشت گرد تھا تو بھارت کے وزرائے اعظم مجھ سے ملنے کشمیر کیوں آتے رہے؟ اس کیس میں میرے خلاف چارج شیٹ کیوں نہیں فائنل کی گئی؟ مجھے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کے دور میں بھارتی پاسپورٹ کیوں جاری ہوا؟بھارت سمیت دیگر ممالک میں لیکچرز دینے کی اجازت کیوں دی گئی۔عدالت نے ان کے سوالات سے پہلو تہی کرتے ہوئے کہا کہ ان باتوں کا وقت گزر گیا ہے۔ اب یہ بتائیں کہ آپ کے لئے جو سزا تجویز کی گئی ہے اس پر کچھ کہنا چاہتے ہیں!یٰسین ملک نے بھری عدالت میں کہا کہ وہ بھیک نہیں مانگیں گے جو عدالت کو ٹھیک لگتا ہے وہ کرے۔ ایسا کون کہہ سکتا ہے !ماں باپ کا اکلوتا بیٹا جو گزشتہ تیرہ سال سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہے اور مختلف اوقات میں دو ماہ سے زیادہ اپنی اہلیہ کے ساتھ وقت نہیں گزار سکا۔ 90ء کی دہائی کے اواخر سے وقتاً فوقتاً بھارتی جیلوں اور بدنام زمانہ عقوبت خانوں میں رہنے کے علاوہ گزشتہ ساڑھے تین سال سے مسلسل پس زندان ہے۔ اس مقدمے میں سزائے موت یا عمر قید سے کم کی بھارتی نظام عدل سے توقع نہیں تھی۔کیا یٰسین ملک کی ذاتی زندگی نہیں! سوچنے کی بات ہے کہ انہیں اپنے لئے تجویز کردہ سزا نوشتہ دیوار نظر آ رہی تھی تاہم وہ پہاڑ کی طرح ڈٹ کر کھڑا ہے۔ حق پر مبنی تاریخ جب بھی لکھی جائے گی اس مرد قلندر کا نام جرات مند سپوت کشمیر کے طور پر لکھا جائے گا۔ دوہری عمر قید پانچ بار 10سال قید بامشقت اور 10لاکھ روپیہ بھارتی جمہوریت اور اس کے نظام کے لئے سیاہ ترین دن ہے۔ یٰسین ملک کے پایہ استقلال میں لغزش سزائے موت سن کر بھی نہیں آئی تھی۔انہیں جسمانی طور پر تادم آخر قید کر دیا گیا ہے!لیکن کیا بھارت آزادی کے تصور کو ہمیشہ کے لئے دفن کر سکتا ہے؟اس سے کشمیریوں کے حق خود ارادیت اور الحاق پاکستان کے عزم کو ایک نیا جنون ملنے والا ہے ۔ غیر منصفانہ سزائیں جدوجہد آزادی کو جلا بخشتی ہیں۔ یٰسین ملک کی اہلیہ مشعال ملک اور ان کی معصوم صاحبزادی رضیہ سلطانہ اس مقدمہ کے فیصلہ سے قبل سراپا احتجاج تھیں اور عالمی ذرائع ابلاغ کی توجہ مبذول کروانے کی حتی المقدور کوشش بھی کرتی رہیں۔مقام افسوس ہے بھارتی عدالت نے کس ڈھٹائی سے انصاف کا قتل کیا اور یہ پہلی بار بھی نہیں ہوا اس یکطرفہ فیصلے کے خلاف عالمی عدالت میں ان کی اپیل موثر ہوتی ہے یا اسے بھارت کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی سے تعبیر کیا جائے گا اس کا فیصلہ تو وقت آنے پر ہی ہو گا۔ بھارتی ذرائع ابلاغ میں دبی دبی آوازیں سنائی دے رہی ہیں کہ یٰسین ملک کشمیر کی آزادی کی علامت ہیں مگر انہیں دہشت گرد بنا دیا گیا : مِرا شہر مجھ پہ گواہ ہے کہ ہر ایک عہدِ سیاہ میں وہ چراغ راہِ وفا ہوں میں کہ جلا تو جل کے بجھا نہیں