قرآن مجید نے صحابہ کرام کی شان اعلیٰ و مرتبہ رفیعہ کو جن پیارے پیارے لفظوں اور حسین حسین جملوں میں بیان کیاہے ان سے روح میں تازگی ،ایمان میں شگفتگی ،دل میں نور، آنکھوں میں سرور آتا ہے قرآن مجید اللہ تعالیٰ کا ابدی فیصلہ اور ازلی فرمان ہے ۔اس میں اگر اس پاک طینت گروہ اور روحانی جماعت کی صحیح تصویر نہ ہو تو پھر کس چیز میں ہو گی۔دوست و دشمن ،مسلم و کافر سب اس بات پر متفق ہیں کہ سیرت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں سب سے صحیح اور غیر مشکوک اور یقینی کتاب ’قرآن مجید‘ ہے اس کا نقطہ نقطہ‘ کلمہ کلمہ‘ تحریف و تبدیلی سے مبرا اور منزہ ہے ۔ قرآن پاک جس طرح امام الانبیاء ختم المرسلین آخرالنبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ فیض رساں میں تھا‘ بالکل اسی طرح اب بھی موجود ہے اور قیامت تک باقی رہے گا‘کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’یقینا ہم نے اس(یعنی قرآن کریم کو) ذکر کونازل فرمایا اور یقینا ہم ہی اس کے محافظ ہیں۔‘‘ اسی لئے اس صحیفۂ الہٰیہ میں اس گروہ کے خصائص و مناقب ، خوب واضح اور غیر مبہم الفاظ میں تحریر کئے گئے ہیں اور اس گروہ کے سردار حضرت سیدناصدیق اکبر رضی اللہ عنہ ان تمام اوصاف جلیلہ میں واسطۃ العقد ہیں۔ خلیفہ اوّل سیدنا صدیق اکبررضی اللہ عنہ کی اسلام کے لئے قربانیوں اورنبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ دائمی وفا مُسَلّم ہے ۔ آپ کا اپنا تن، من،دھن حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پرنچھاورکرنے کے پیچھے جو جذبہ کارفرمارہاوہ جذبۂ عشقِ رسول ہی تھا۔آپ نے عملی طورپراپنا سب کچھ امام الانبیاصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر قربان کر کے آنے والی نسلوں کو عشقِ رسول کا درس دیا ہے ۔آپ کی کیفیات ووارداتِ عشقِ رسول کے حوالے سے کتب ِاحادیث میں متعدد روایات ملتی ہیں۔ایک مرتبہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی مجلس میں امام الانبیا صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا: ’’مجھے تمہاری دنیا میں تین چیزیں پسند ہیں:خوشبو، نیک خاتون اور نماز‘‘،توسیّدنا صدیق اکبررضی اللہ عنہ نے عرض کیا: ’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم! مجھے بھی تین چیزیں ہی پسند ہیں:آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )کے چہرۂ اقدس کو تکتے رہنا، اللہ کا عطا کردہ مال آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے قدموں میں نچھاور کرنا اور میری بیٹی کا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے نکاح میں آنا۔‘‘ (منبہات ِ ابن حجر)آپ کی تینوں خواہشات اس طرح پوری ہوئیں کہ دورانِ ہجرت غارِ ثور میں آپ نے چہرۂ والضحیٰ کا دیدار بلا شرکت ِغیرکیا،ہر موقعے پراپنامال حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رضا کے لیے دل کھول کر خرچ کیا یہاں تک کہ غزوۂ تبوک کے لیے اپناسارا مال پیش کردیااوراپنی پیاری بیٹی سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کوحضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نکاح میں دے دیا۔سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں: ’’میرے والد گرامی سارا دن حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر رہتے جب عشاء کی نماز سے فارغ ہو کر گھر آتے توساری رات عشق کی تپش سے یوں لگتاجیسے سینے میں کوئی چیز جل رہی ہے اور جب تک حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وآلہ وسلم کے چہرہ اقدس کو دیکھ نہ لیتے یہی کیفیت رہتی۔‘‘(تاریخ الخلفا) ۔آپ کی حیات ِ مبارک میں کوئی ایسا لمحہ نظر نہیں آتا جو عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جذباتِ عالیہ کاملہ سے لبریز نہ ہو ۔خوشی ہو یا غمی ،سفر ہو یا حضر، عبادت ہو یا ریاضت ،زہد ہو یا تقویٰ ،مالی قربانی ہو جانی سامنے پہاڑ ہو یا غار یا جہاد ہر حال میں عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تقاضوں کو بڑی جاں فشانی سے اور خندہ پیشانی سے پروان چڑھاتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔مردوں میں سب سے پہلے حلقہ بگوش اسلام ہوئے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ پہلی نماز پڑھنے کا شرف حاصل کیا ۔جونہی عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چراغ ایمان حقیقی و تحقیقی دل میں روشن ہوا تو ابتداء ہی سے عشق کی بے خودی نے آپ کو دنیاو مافیہاسے بے نیاز اور بے پرواہ کر دیا ۔بس ہر لمحہ عبادت تھی تو خدا تعالیٰ کی ‘زیارت تھی تو جمال مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی‘ خدمت دین اسلام اور خوشنودی رحمان آپ کا مقصد بن کے رہ گیا تھا ۔تمام عمر مستعار حضور پُر نور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رفاقت ،دین متین کی اشاعت میں صرف فرمادی ۔ قریش مکہ کے مظالم اور ان کی ایذاء رسانیوں کے مقابلے میں سینہ سپر ہونا ہر حال حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تحفظ کرنا آپ کے عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا طرۂ امتیاز تھا ۔صدیق اکبر ہی تو تھے جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ڈھال بن جاتے اور دشمنان دین متین کے مجروح ہو کر باہمت مردانہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حفاظت فرماتے ۔یہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھا کہ آپ نے ناموس رسالت اور آقا کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان ِ ختم نبوت کا کس شدت اور جانفشانی سے تحفظ فرمایا ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی آپ رضی اللہ عنہ جیساجذبۂ عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عطافرمائے ! مآخذ:(منبہات ابن حجر،تاریخ الخلفاء ،النجابہ فی مناقبِ صحابہ )