مِس سنتھیار ڈی رچی! یا جو بھی تم ہو سن لو! ہم کئی دن تمھارے مشکل نام کی وجہ سے چپ رہے اور کئی دن مشکل کام کی وجہ سے، لیکن آخر کب تک ! میڈیا پہ تمھارے روز روز کے بیانات اور الزامات سن سن کے اب تو ہمارے کان پک چکے ہیں۔ تم نے ہمارے ملک کے عظیم سپوتوں کے کردار اور کاکردگی کے حوالے سے جو تماشا لگایا ہوا ہے، وہ اب ہم سے مزید برداشت نہیں ہو رہا۔ تم یہ مت سمجھو کہ ہمارے اخبارات اور چینلز تمھاری مزے مزے کی تصاویر لوگوں کو دکھا کے تمھارا ساتھ دے رہے ہیں، انھیں تو اپنی اپنی ہنڈیا کراری کرنے لیے کے لیے چٹپٹے مسالے درکار ہوتے ہیں، جو تم انھیں مسلسل فراہم کیے جا رہی ہو۔ امریکن خاتون! تمھاری نادانیوں سے لگتا ہے کہ تمھیں ہماری سیاسی ہسٹری کا بھی کچھ پتہ نہیں۔ زیادہ دور کی بات نہیں کہ یہاں ایک تم سے بھی زیادہ خوبرو ، پڑھی لکھی اور نہایت با اثر خاندان سے تعلق رکھنے والی خاتون ہوا کرتی تھی، جسے اس ملک کی پہلی زنانہ وزیرِ اعظم ہونے کا بھی اعزاز حاصل تھا، وہ بھی ایک نہیں دو بار… وہ بھی بہت بڑھ چڑھ کے باتیں کرنے لگ گئی تھی۔ چوکوں بازاروں میں جلسے کرتی، مردوں سے بھری گاڑی میں اس کی کھوپڑی اڑا دی گئی، کسی کو گواہ بننے کی توفیق نہ ہو سکی۔ اس دور کا حکمران ایک عظیم جرنیل اور کمانڈو صدر تھا، اتنا مؤثر کہ اغوا شدہ جہاز میں بیٹھے بیٹھے ملک میں انقلاب برپا کر دیا۔ پھر اس خاتون کا اپنا بینڈ باجوں والا شوہر کہ جس کی ایک ایک چیز پر عقابی نظر ہوتی ہے، پانچ سال تک اسی ملک کا صدر رہا، اور تو اوراس متوفیہ کا سگا بیٹا، جو فیڈر چھوڑنے سے پہلے ہی ایک بڑی پارٹی کا چیئرمین بن گیا ۔ اتنا قابل کہ مخالف حکومت کی ہر بری حرکت کا اسے علم ہے لیکن ان میں سے کوئی بھی اس معمے کو حل نہ کر سکا، تم آخر کس باغ کی مولی ہو؟ ابھی تک خوف زدہ نہیں ہوئی تو پھر ذرا اور سنو! کہ یہاں اس ملک کے سب سے بڑے محسن کہ پوری قوم جس کا نام رحمۃاللہ کے بغیر لینا برداشت نہیں کرتی، اس کی سگی بہن جسے ہم سب نے ’مادرِ ملت‘ کا خطاب دے رکھا تھا۔ اس نے فقط اپنے بھائی کی کوششوں سے حاصل کردہ اس ملک میں صرف الیکشن میں حصہ لینے کی خواہش کی تھی، تو ہم نے اسے دن دہاڑے امریکا کی ایجنٹ ثابت کر کے چھوڑا تھا۔ تم تو پہلے ہی امریکی ہو تمھیں کافر، جاسوس، ایجنٹ اور حکمرانوں کی چمچی وغیرہ قرار دینا تو ہمارے بائیں ہاتھ کا کام ہے۔ بڑی آئی انصاف لینے والی، ہم نے بہت دیکھی ہیں تمھارے جیسی شوخیاں! تم یہ ساری چٹر پٹر محض اس لیے کر رہی ہو کہ تمھیں یہاں مردوں کے اختیارات کا اندازہ نہیں ہے۔یہاں تو ہماری اپنی خواتین مذہب یا قانون کے زعم میں ذاتی یا آبائی جاگیر کی طرف اشارہ بھی کر دیں یا پسند کی شادی کا سوچ بھی لیں تو ہمارے گھر میں پڑی بندوق پہ اچانک گولی چل جاتی ہے، ہسپتالوں میں فوڈ پوائزننگ کے مریضوں میں اضافہ ہونے لگتا ہے۔ بہت رعایت سے کام لیں تو ان کا کسی انسان کی بجائے قرآن سے نکاح ہو جاتا ہے، یا ایسا ’حسنِ سلوک‘ کرتے ہیں کہ وہ تمام عمر معافی مانگ کے بھی خود کو بے گناہی کے درجے پہ فائز نہیں کر سکتیں۔ میری اچھی سنتھیارچی سنو! اگر تو تمھارے ساتھ اس طرح کی حرکت کسی ماجھے گامے نے کی ہوتی تو اب تک ہم اسے نشانِ عبرت بنا چکے ہوتے۔ ہم اور ہماری عدالتیں، ہماری پولیس، ہمارے جِرگے، ہماری پنچایتیں،ہماری پبلک، سب مل کر اس کا وہ حال کرتے کہ دنیا دیکھتی۔ اور اگر شاہی بھول بھلیوں میں تمھارے ساتھ کچھ ہو گیا ہے تو اول تو یہ تمھاری اپنی غلطی ہے۔ اور اگر کسی اور نے بھی تمھیں نوازنے کی خاطرپہل کر لی ہے تو تم اسے اپنے لیے باعثِ اعزاز سمجھو! تھوڑا بہت دل پشوری کرنا ان بڑے لوگوں کا حق ہوتا ہے۔ تم یہ سارا واویلاصرف اس لیے کر رہی ہو کہ تم ہماری ہندوستانی روایات سے بھی بے بہرہ ہو۔ آج انٹرنیٹ کا زمانہ ہے، ذرا گوپیوں اور کنیزوں کے الفاظ گوگل کر کے دیکھو، تمھارے جیسی سینکڑوں خادمائیںتو ہمارے اجداد کا رانجھا راضی کرنے کی خاطر ایک ہی وقت میں ان کے آگے پیچھے پھرا کرتی تھیں، قدم قدم پہ مُجرا بجا لاتی تھیں، قطار اندر قطار سیڑھیوں پہ ایستادہ رہتی تھیں۔ صرف ایک انارکلی نے کسی حد تک اپنی اوقات سے زیادہ جسارت دکھانے کی کوشش کی تھی، اس کا حشر جاننا ہے تو اسلام آباد میںہمارے دوست ڈاکٹر روش ندیم، سلمان باسط یا حمید شاہد سے کہو کہ تمہیں امتیاز علی تاج کا ڈراما پڑھ کے سنائیں اور اگر اسے سنتے سنتے تمھیں ہماری ثقافت سے کچھ دلچسپی پیدا ہو جائے تو لگے ہاتھوں سوہنی، سسی، ہیر اور صاحباں کہ جنھیں ہم بظاہر اپنے وسیب کی ہیروئنز کے طور پر پیش کرتے ہیں، کا انجام بھی جان لینا۔ چاروں طرف سے ایک ہی آواز آئے گی: ’’دس مَیں کیہہ پیار وچوں کھٹیا‘‘ اس کے بعد امید ہے تمھیں بھی جلد آرام آ جائے گا۔اگر پھر بھی سمجھ نہ آئے تو ہمارے ایک کامیڈی ماسٹر امان اللہ خاں کا وہ ڈراما دیکھ لینا، جس میں وہ ایک سرِ راہ کھڑی حسینہ کے ساتھ سرِ راہ کھڑا ہوتا ہے کہ اتنے میں ایک مونچھوں والا ہٹا کٹا شخص اس لڑکی کو سیٹی مار کے گزرتا ہے تو وہ خاموش رہتی ہے، اس کی دیکھا دیکھی ایک ’ماتڑ‘ بھی یہی حرکت کر گزرتا ہے، تو امان اللہ اسے گریبان سے پکڑ کے مارنے لگتا ہے تو وہ مسکین منمناتے ہوئے کہتا ہے کہ مجھ سے پہلے ایک آدمی اسے چھیڑ کے گیا، تم نے کچھ نہیں کہا، میری باری تو تمھاری غیرت جاگ گئی ہے! اس پر ہمارے اس ہنسوڑ نے ایک تاریخی جملہ کہا تھا : ’’وہ بدمعاش ہے، وہ چھیڑے گا، اس کا حق بنتا ہے!!‘‘ مس ڈی رچی! تم اگر ابھی تک حواس باختہ نہیں ہوئی تو ہماری ادبی تاریخ ہی سے کچھ سیکھ لو۔ ہماری پوری شاعری مردانہ من مانیوں سے بھری پڑی ہے۔ ہم اپنی محبوباؤں کو ورغلانے کے لیے آسمان سے ستارے توڑ لانے کے وعدے کرتے ہیں ، ہم ان کی زلفوں کو گھٹاؤں اور چہرے کو بہاروں سے تشبیہ دیتے ہیں لیکن جیسے ہی وہ ہماری خواہشات پر لبیک کہنے سے انکاری ہوتی ہیں، ہم ان کے لیے بت، کافر، ستم گر، ظالم اور بے وفا کی پھبتیاں کسنے لگتے ہیں۔ مَیں خود بھی ایک ٹُٹا بھجا شاعر ہوں، تم پاس ہوتیں تو چند منٹوں میں ثابت کر دیتا کہ تمھارے نَین نشیلے، ہونٹ رسیلے، بال لچکیلے اور کام رنگیلے ہیں لیکن تم چونکہ دور ہو تو زیادہ سے زیادہ یہی کہہ سکتا ہوں کہ سنتھیارچی باز آ جاؤ !!! شاعری کی بات چلی ہے تو چلتے چلتے ایک خاتون شاعرہ کا حال بھی سن لو۔زیادہ پرانی بات نہیں کہ ہماری ادبی دنیا میں تمھاری ہی طرح کی ایک دیوانی، حسین و شوخ و چنچل شاعرہ ہوا کرتی تھی، اپنی دانست میںبڑی بولڈ شاعری کرتی تھی، بالی عمریا ہی میں کتاب بھی چھپوا ڈالی۔ وہ بھی اس مردانہ معاشرے میں لڑکیوں کے جذبات کو زبان دینے کے دعوے کرتی تھی۔ دل کھول کھول کے شعر کہتی، بال کھول کھول کے مشاعرے پڑھتی تھی۔ پڑھ لکھ کے بڑی افسر بھی بن گئی لیکن ہم کیا سمجھتے ہیں ایسی خود سر زنانیوں کو! شوہر سے زیادہ مشہور ہوئی تو طلاق دلوا دی۔ … تم اگر اب تک اسلام آباد ہی میں ہو تو ذرا اس نسائیت کی علم بردار کی قبر پہ جا کے پوچھو کہ اس کی زندگی میں اس کے آگے بچھ بچھ جانے والوں میں سے کسی ایک نے بھی اس کی موت کے بعد اس حادثے کا سراغ بھی لگانے کی کوشش کی؟ تم کیا جانو، اس نے تو اپنی زندگی ہی میں ہم مردوں کی اس عظمت کا اعتراف کر لیا تھا کہ: مَیں سچ کہوں گی مگر پھر بھی ہار جاؤں گی وہ جھوٹ بولے گا اور لاجواب کر دے گا