درد کو اشک بنانے کی ضرورت کیا تھی تھا جو اس دل میں دکھانے کی ضرورت کیا تھی ایسے لگتا ہے کہ کمزور بہت ہے تو بھی جیت کر جشن منانے کی ضرورت کیا تھی کچھ باتیں ہوتی ہیں جو آپ کے اندر کے چور کی چغلی کھاتی ہیں۔ نفسیاتی کیفیت حقیقت کی غماضی کرنے لگتی ہے داستان سے زیادہ زیب داستاں ہے۔ رائی کا پہاڑ بنا دیا گیا ہے۔ یا آپ بات کا بتنگڑ کہہ لیں۔ کہا جا رہا ہے کہ مولانا فضل الرحمن کے پیچھے بیرونی قوتیں ہیں۔ پھر وزیر اعظم کا دفاعی بیان پر زور کہ ’’کسی قیمت پر استعفیٰ نہیں دوں گا یہ کہ فوج منتخب حکومت کے ساتھ کھڑی ہے’’منتخب‘‘ کا لفظ بھی کوئی اچھا تاثر نہیں دے رہا۔ مزید خان صاحب کا یہ کہنا کہ ملک کو اس طرح چھوڑ کر نہیں جائوں گا۔ انتہائی عجیب ردعمل ہے۔ حکومت کی ہیجانی کیفیت نے انہیں تماشا بنا دیا ہے۔ ہم موک ایپک Mock epicکی تعریف کرتے ہوئے کہا کرتے ہیں کہ ایک پر کو اٹھانے کے لئے کرین کو استعمال کرنا سب کے ایسے ہی سانس پھولے ہوئے ہیں۔ ظہور نظر کا ایک شعر ہے: رات بھر اک چاپ سی پھرتی رہی چاروں طرف جان لیوا خوف تھا لیکن ہوا کچھ بھی نہیں بہرحال حکومت نے آزادی مارچ کو تسلیم کر لیا ہے اور کچھ شرطیں عائد کر دی ہیں۔ پتہ نہیں حکومت کا رویہ ہر معاملہ میں غیر سنجیدہ اور بعض معاملات میں مزاحیہ کیوں ہے! اس پر میں بعد میں بات کرتا ہوں پہلے ایک انتہائی سنجیدہ معاملے کی طرف آپ کی توجہ دلانا چاہتا ہوں اس کا تعلق لوگوں کی زندگیوں سے ہے میں سنی سنائی بات نہیں لکھ رہا۔ ایک مریض کے لئے ہمیں ایک ٹیگرال Tagralکی ضرورت رہتی ہے۔ یہ ذہنی مرض کے لئے کارگر ہے اور اس کے بغیر مریض کو فٹس یعنی دورہ پڑنا شروع ہو جاتا ہے۔ پہلے بھی کئی بار یہ کم یاب ہوئی اور قیمت بڑھنے کے بعد دستیاب ہوئی۔ کچھ دنوں سے یہ بالکل غائب ہو گئی۔ ٹیگرال کا مریض اس کے بغیر دوروں کی شدت میں چلا گیا۔ یہ گولی کھانے والے یقینا ہزاروں کی تعداد میں ہیں۔ بتائیے اور فیصلہ کیجئے کہ وہ مریض کہاں جائیں کس کی جان کو روئیں۔ کیا حکومت سوئی ہوئی ہے کیا چیف جسٹس بھی وہ نہیں رہے جو انسانی ہمدردی میں سوموٹو لے لیا کرتے تھے۔ آپ یقین کیجئے آہستہ آہستہ مریضوں کے پاس مرنے کا آپشن ہی رہ جائے گا یا شاید وہ بھی نہ رہے۔ دوائیوں کی روز بروز بڑھتی ہوئی قیمتیں ایک الگ تشویش کا باعث ہیں بجلی وغیرہ کا تو ذکر ہی کیا ،کئی بار عوام کو جھٹکے لگائے جا چکے۔ آج کی تازہ خبر میں ٹماٹر‘ آلو‘ چاول ‘ گھی اور چکن کی قیمتیں بڑھنے کی خبر ہے۔ اب بتائیے کہ ان کے علاوہ اب کوئی کیا کھائے۔ غریب آدمی کا کیا ہے، جوتے کھاتا جائے غصہ پیتا جائے۔اب عمران خاں صاحب کہتے ہیں میں اس قوم کو ایسے تو چھوڑ کر نہیں جائوں گا۔ نہ جائیں مگر قوم کے صبر کی حد بھی نہ دیکھیں۔ اب آتے ہیں حکومت کی غیر سنجیدہ رویے کی طرف کہ آئے دن انہوں نے کوئی نہ کوئی گل کھلانا ہوتا ہے۔ تازہ بہ تازہ شاہکار وہ ٹک ٹاک سٹار حریم شاہ ہے جس نے وزارت خارجہ کے کمیٹی روم میں جا کر وزیر اعظم کے لئے مخصوص کرسی پر بیٹھ کر ویڈیو بنائی جو پورے ملک میں وائرل ہو گئی۔ ابھی تو مہوش حیات کا قصہ ختم نہیں ہوا کہ جس پر لوگ پھبتیاں کس رہے ہیں کہ پاکستان کا مسئلہ ایٹم بم نہیں بلکہ آئٹم سانگ بن گیا ہے اس حیات کا ڈانس بھی وائرل ہوا۔ یہ واہیات ہی ہے۔ اب حریم شاہ کادفتر خارجہ کے ہائی سکیورٹی زون میں پہنچ کر من مانیاں کرنا ہے۔ سانپ گزر جانے کے بعد لکیر پیٹی جا رہی ہے کہ اس ٹک ٹاک خاتون کے آنے کے مقاصد جانیں جائیں اور ذمہ دار لوگوں کا پتہ چلایا جائے جو اسے لے کر آئے۔ ایک شخص نے تو سوشل میڈیا پر لکھا تھا کہ وہ وزارت خارجہ میں شاہ محمود قریشی سے دم کروانے آئی تھی۔پتہ نہیں وہاںاور بھی کئی پہنچے ہوئے پیر ہونگے۔ بہرحال یہ تو Heard melodiesیعنی سنے گئے نغمے ہیں Unheard melodiesیعنی وہ نغمے جو سنے نہیں جا سکے اور ہیں پہلی مرتبہ پتہ چلا کہ وزارت خارجہ داخلہ کیا کچھ ہے۔ ہم تو ان لوگوں کو بڑے جنون سے لے کر آئے تھے اور ان سے بہت زیادہ امیدیں وابستہ کئے ہوئے تھے کہ یہ میرے ملک کے لئے کچھ کریں گے ۔ادارے درست کریں گے ۔لوٹی ہوئی دولت واپس لائیں گے اور یہ کہ عوام کے چہرے پر کوئی سرخی و رخی آئے گی۔ مگر عوام تو اسی طرح زرد ہیں۔ آئے دن انہیں کوئی نیا تماشا دکھا دیا جاتا ہے بری قسمت کہ مہنگائی اور مخدوش صورت حال کے اذیت ناک لمحوں میں مولانا بھی ٹپک پڑے۔ حکومت اس طرف یکسو ہو گئی اکھڑی ہوئی صورت حال سے مسیحا بھی کنٹرول سے باہر ہو گئے کسی کا کوئی بھی پرسان حال نہیں۔ باتیں کرنے والو! دیانتداری آپ سے سچ اورحق کہنے کی متقاضی ہے۔ حکمرانوں نے ہمارے ارمانوں کا خون کیا ہے۔ ڈاکوئوں اور چوروں سے پیسے نکلوانے کی بجائے یہ پیسے عوام کی جیبوں سے نکلوائے۔ جی بھر کر قرضے لیے اور امداد بھی اکٹھی کی مگر اس ساری کارروائی سے اکٹھے ہونے والے اتنے پیسے آخر کہاں گئے۔ سوا سال ہو چکا عوام کے حصے میں کیا آیا۔ آپ نے جنہیں جیلوں میں ڈالا ہوا ہے ان کا کھانا تک عوام کی جیبوں سے جاتا ہے کہ انہیں گھر سے کھانا منگوانے کی اجازت نہیں۔ سارے ڈاکٹر ان کے علاج معالجہ پر لگے ہوئے ہیں انہیں اپنا علاج کروانے دیں۔ اب ایک نیا خواب دکھایا جا رہا ہے کہ جنوری سے عوام میٹرو ٹرین پر سفر کر سکیں گے۔ لوگوں کسی بات پر اعتبار نہیں رہا۔ ابھی تو ویسے بھی کنٹینر لگا کر راستے بند کئے جا رہے ہیں۔ صرف اسلام آباد نہیں لاہور اور دوسرے کچھ شہروں میں بھی مولانا کے دھرنے یا مارچ کی اضافی کامیابی یہی ہے ہے جو حکومت اپنے ہاتھوں سے راستے مسدود کر رہی ہے: نہ کوئی چاند ہے باقی نہ ستارہ کوئی شب تیرہ کے گزرنے کا اشارہ کوئی ابھی وقت ہے خان صاحب کچھ کر کے دکھائیں۔ اور کام ہوتا ہوا نظر آئے۔ یہ دسترخوان وغیرہ کوئی ٹھوس کام نہیں معیشت کو کون ٹھیک کرے گا۔ ترجیحات میں عوام کی جان کو اولیت حاصل ہونی چاہیے۔ کچھ دوست نواز شریف کے پلیٹ لیٹس کے حوالے سے مزاقیہ پوسٹیں لگاتے ہیں تو یہ بنیادی اخلاقیات کے بھی منافی ہے اللہ سے ڈریں۔ بات پھر وہیں آتی ہے کہ عوام کو سکھ کا سانس آئے۔ کیا یہ زیادہ تکلیف دہ بات نہیں کہ لوگوں کو وہی ڈاکو اورچور اچھے لگنے لگیں۔ ایک نازک سا شعر آپ کے لئے: کتنا نازک ہے وہ پری پیکر جس کا جگنو سے ہاتھ جل جائے