رواداری اور محبت کی سرزمین سندھ سے دوستوں پر نچھاور ہونے والے پنجاب پر الزام لگایا ہے کہ وہ سندھ کے حصے کا پانی پی جاتا ہے‘ سندھ میں پانی کے معاملے پر احتجاج اور ریلیوں سے دباو بڑھانے کی بات کی جارہی ہے۔ارسا نے سندھ کے مقررہ حصے سے زیادہ پانی فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے لیکن مراد علی شاہ اس احتجاج کو پھیلانے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ مدت سے سندھ کے سادہ لوح لوگوں کو یہ بتایا جاتا رہا ہے کہ پنجاب دریائے سندھ کے پانی میں سے بجلی نکال کر اسے کمزور کر دیتا ہے‘اس بار بھی دونوں طرف سے ایک دوسرے پر الزامات کا سلسلہ شروع ہوا‘معاملہ وزیر اعظم کے نوٹس میں لایا گیا۔ پہلے اس معاملے کی تاریخی حیثیت دیکھتے ہیں‘ آزادی سے پہلے ستلج کی وادی کو سیراب کرنے کے معاملے میں حکومت انڈیا‘پنجاب‘ سندھ اور بہاولپور و بیکا نیر کی ریاستیں فریق تھیں۔ قوم پرست تحریکوں نے پانی کے وسائل پر چنداں توجہ نہ دی۔ آزادی کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان 1960ء میں سندھ طاس کا مطالبہ ہوا۔ جن تین مشرقی دریائوں کے پانی پر بھارت کو اختیار دیا گیا ان بیگانے ہوئے دریائوں کے علاقے مغربی دریائوں سندھ‘ جہلم اور چناب کے پانیوں سے سیراب کئے جانے لگے۔ 2010ء میں آنے والے سیلاب نے پانی کو ذخیرہ کرنے‘ اس کی پیداواری قدر‘ ماحولیات‘ معیار اور پھر بین الریاستی تعاون و ٹیکنالوجی کے سلسلے میں نئی سوچ پیدا کی۔ ماحولیاتی تبدیلیاں ہو رہی ہیں ،سندھ اور بلوچستان نے ان تبدیلیوں پر اب تک کوئی ایک قابل ذکر منصوبہ شروع نہیں کیا۔کوئی شجر کاری ،نیا ڈیم، ساحل سمندر اور دریاوں کی صفائی، آبی حیات کا تحفظ۔کسی طرف بھی تو دھیان نہیں۔ ایک رپورٹ بتاتی ہے کہ اس سال ارسا نے ملک میں 10 فی صد تک پانی کم ہونے کی پیش گوئی کی تھی لیکن دریاوں کے بہاو میں مزید غیر متوقع کمی رہی اور ملک میں مجموعی طور پر یہ کمی 25 فیصد تک پہنچ گئی۔ پانی کی کمی کو صوبوں کے مابین 1991 کے واٹر اکارڈ کے تحت طے شدہ فارمولے کے مطابق تقسیم کیا جاتا ہے لیکن رواں خریف میں پنجاب کو اپنے 2 کروڑ 10 لاکھ 71 ہزار ایکڑ پر محیط کمانڈ ایریا کے لئے مجموعی طور پر 22فیصد کمی کا سامنا کرنا پڑا جبکہ سندھ کواپنے ایک کروڑ 20 لاکھ 78 ہزار ایکڑ کمانڈ ایریا کے لئے محض 17 فی صد کمی کا سامنا کرنا پڑا۔ سندھ میں اِس وقت 39% پانی کا ضیاع رپورٹ کیا جا رہا ہے۔ جبکہ پنجاب کے انڈس زون میں ضیاع کی بجائے 2% اضافی پانی دریاؤں میں رپورٹ ہو رہا ہے۔سند ھ کے اس غیر معمولی پانی کے ضیاع کی وجہ سے صوبوں کو پانی کی مزید کمی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ارسا کی ٹیم کی جانب سے متعدد بار سند ھ کے بیراجوں کی انسپیکشن کی گئی، ڈیٹا میں واضح فرق پایا گیا۔ مثلاً 2019 کی رپورٹ کے مطابق گدو بیراج پہ 27589 کیوسک (14.25%)پانی کم رپورٹ کیا گیا۔جبکہ نارا کینال میں 21486کیوسک پانی لیا جا رہا تھااور صرف 15100 کیوسک رپورٹ کیا جا رہا تھا۔جو کہ 29.7%کم تھا۔ اس وقت منگلا ڈیم پانی کے طے شدہ حجم کے اعتبار سے 83فیصدکمی کا شکار ہے۔18 مئی کو ارسا نے فیصلہ کیا تھا کہ سندھ کے مطالبات کو پورا کرنے کے لئے منگلا ڈیم سے 8000کیوسک اضافی پانی چھوڑا جائے جوکہ ارسا کی منصوبہ بندی اورآئندہ فصل کے لئے منگلا ڈیم کی بھرائی کے طے شدہ طریقہ کار کے سراسر منافی تھا ۔ منگلا ڈیم کی جھیل کی صورت حال روزبروز خراب ہوتی جارہی ہے اور اس بات کا امکان بہت بڑھ گیا ہے کہ ڈیم بھرا نہ جاسکے گا اوراس کا خریف کے بقیہ سیزن پر بہت برا اثر پڑے گا ۔ پنجاب میں آنے والا ربیع کا گندم سیزن بری طرح متاثر ہوگا۔ قابل ذکر بات یہ ہے کی محض جہلم چناب زون کا رقبہ سندھ کے مجموعی کمانڈ ایریا سے زیادہ ہے۔ پچھلے سال انہی دنوں مجموعی طور پر تربیلہ اور منگلا ڈیم میں 6.205ملین ایکڑ فٹ پانی کا ذخیرہ موجود تھا جبکہ اس وقت مجموعی طور پر تربیلہ اور منگلا ڈیم میں 0.641 ملین ایکڑ فٹ پانی کا ذخیرہ موجود ہے۔جو کہ گذشتہ سال سے 90فیصد کم ہے۔ پانی کی کمی کی وجہ سے موجودہ صورت حال میں پنجاب کو تونسہ کی نہروں کی ضروریات پوری کرنے نہیں دیا گیا اور اسے ان نہروں میں 68 سے 52فی صد کمی کا سامنا کرنا پڑ اہے۔ اگرچہ پنجاب کوپورا حق ہے کہ وہ چشمہ جہلم زون کی آبپاشی کے لئے اپنے حصے میں سے کسی بھی نہر سے پانی لے سکتا ہے لیکن اسے چشمہ جہلم لنک کینال اور تونسہ پنجند لنک کینال سے پانی نہیں لینے دیا گیا اور نتیجے میں لوئر رنگ پور نہر کی تقریبا سوا لاکھ ایکڑ اراضی کو پانی نہیں دیا جاسکا۔پانی کی اس سنگین کمی کے باوجود سندھ نے اب تک کوٹری سے نیچے0.053 ملین ایکڑ فٹ (کیوسک 26720)پانی سمندر میں چھوڑا ہے۔اگر اس صورت حال کا خاطر خواہ حل نہ نکالا گیا تونہ صرف پنجاب کے کسا نوں کا ناقابل تلافی نقصان ہوگا بلکہ قومی معیشت اور فوڈ سکیورٹی پر انتہائی برا اثر پڑے گا۔ پنجاب میں کسانوں کا کہنا ہے کہ وہ سب سے زیادہ زرعی پیداوار دیتے ہیں ، ان کا مطالبہ ہے کہ ارسا خریف کے مختص پانی کے حصہ جات کو منصفانہ بنیادوں پر تقسیم کرے تاکہ تمام صوبوں کی ضروریات منگلا ڈیم کی بھرائی کو متاثر کئے بغیررم اسٹیشن پر دستیاب پانی سے پوری کی جاسکیں۔ ہم پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن والی پی ڈی ایم میں الجھے ہوئے ہیں، دنیا اس بات کا جائزہ لے رہی ہے کہ کورونا کی وبا ختم ہونے پر انسان صاف پانی کے وافر حصول کے لئے کیا طریقہ کار اور ٹیکنالوجی استعمال کریں گے۔ کیا پانی کی کمی دور کرنے کے لئے بڑے شہر اور ملٹی نیشنل کمپنیاں قائدانہ کردار ادا کریں گی۔ ہر چیز جب ڈیجیٹل ہو رہی ہے تو اس کے اثرات پانی پر کیا مرتب ہوں گے۔ واٹر مینجمنٹ کا مستقبل کیا ہو گا۔ ہمیں سیاست کے لئے کچھ اور ایندھن جلانا ہو گا‘ پانی کو سیاست کی بھینٹ چڑھا دیا گیا تو شاید سمندر بھی ہمیں سیراب نہ کر سکے۔