روزنامہ 92 نیوز کی رپورٹ کے مطابق ٹیکنیکل کمیٹی کی تحقیقات میں سندھ پر بلوچستان کا 30 فیصد پانی چوری کرنے کا الزام درست ثابت ہوا ہے۔ پانی کی تقسیم پر صوبوں کے اختلافات اس وقت سنگین صورت حال اختیار کر چکے ہیں۔ سندھ کی حکومت پانی کی تقسیم کے پیرا 2 پر عملدرآمد کروانا چاہتی تھی جس کے بعد نہ صرف پنجاب کو اپنے حصے سے 42 لاکھ ایکڑ فٹ کم پانی ملنے سے پنجاب کو 4 سو ارب روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑسکتا ہے بلکہ کے پی کے اوربلوچستان کو پانی کی تقسیم میں حاصل استثنیٰ ختم ہونے سے بلوچستان کو 50 فیصدپانی سے محروم ہونا پڑ سکتا تھا جبکہ بلوچستان پہلے ہی پانی کے شدید بحران سے دوچار ہے۔ حکومتی عدم توجہی کی وجہ سے بلوچستان کو 10 ہزار کیوسک پانی فراہم کرنے والی کھچی کنال منصوبے میں کرپشن اور تکمیل میںمسلسل تاخیر کی وجہ سے بلوچستان میں پہلے ہی شدید تشویش پائی جاتی ہے اور بلوچستان کے احساس محرومی میں اضافہ ہورہا ہے۔ اب بلوچستان کے حصے کا 30 فیصد پانی سرکاری سرپرستی میں چوری کرنے کا الزام ثابت ہوا ہے جو پہلے سے قحط سالی کے شکار صوبے سے زیادتی کے مترادف ہے۔ بہتر ہو گا وفاقی حکومت نہ صرف سندھ سے 65 غیرقانونی موگوں کی وضاحت طلب کرے بلکہ اس چوری میں ملوث سرکاری اہلکاروں کو انصاف کے کٹہرے میں لائے تاکہ بلوچستان کے حق پر ڈاکہ ڈالنے والوں کو نشان عبرت بنا کر بلوچستان کے عوام کی محرمیوں کی تلافی ممکن ہو سکے۔