سندھ کے سابق وزیر اعلی ارباب رحیم نے جب سے تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی ہے،تب سے سندھ میں سیاسی سرگرمی پیدا ہوگئی ہے۔اس سیاسی سرگرمی سے صوبہ سندھ میں عوامی سیاست پر تو اثرات مرتب نہیں ہوئے البتہ پیپلز پارٹی پریشانی میں مبتلا ہوگئی ہے۔سیاسی جماعتوں کے درمیان جمہوری مقابلہ ایک مثبت چیز ہے۔عوام کو اس سے فائدہ ہوتا ہے۔اجارہ داری کسی بھی قسم کی ہو وہ قطعی طور پر بہتر نہیں ہوتی اور سیاسی اجارہ داری تو بہت بری ہوتی ہے۔سیاسی اجارہ داری تو اچھی بھلی جمہوری جماعت کو بھی امریتی راہ پر لگا لیتی ہے۔ سندھ میں برسوں سے پیپلز پارٹی کے مدمقابل کوئی سیاسی قوت نہیں پیدا ہوئی۔ اس لیے پیپلز پارٹی نے ہمیشہ من مانی سے کام لیا ہے۔ جب کسی جماعت کو یقین ہو کہ اس کے مقابلے میں اور کوئی سیاسی قوت نہیں ہے تو پھر بے پرواہی سے کام لیتی ہے اور جب وہ اقتدار میں بھی ہو تو پھر اس کا غرور اور گھمنڈ بڑی حد تک بڑھ جاتا ہے۔ پیپلز پارٹی سندھ میں سیاسی فرعونیت کی علامت بن کر رہی ہے۔ آصف زرداری نے سیاست کو ایک کاروبار کی صورت دی۔ انہوں نے سندھ کے عوام کی خدمت کرنے اور انہیں خوش رکھنے کے بجائے ہر سیاسی مخالف کو اپنی جماعت میں شامل کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے ارباب رحیم کے لیے بھی پیپلز پارٹی کے دروازے کھولے مگر ان کے لیے یہ بات بہت مشکل ہوئی اور ویسے بھی پیپلز پارٹی کے سیاسی کلچر میں ارباب رحیم کسی طور بھی فٹ نہیں بیٹھتے۔ اس لیے ارباب رحیم کو پیپلز پارٹی سے دور رکھ کر انہوں نے ان کے لیے جس سیاسی تنہائی کا تانا بانا بنا وہ بڑی حد تک کامیاب رہا مگر جب جی ڈی اے کوئی سیاسی کردار ادا کرنے میں ناکام رہا تو ارباب رحیم نے تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی۔ جس طرح سندھ میں ارباب رحیم کے لیے تحریک انصاف آخری آپشن تھا؛ اسی طرح تحریک انصاف کے لیے بھی ارباب رحیم اندرون سندھ میں ایک طرح کی مجبوری تھا۔ تحریک انصاف کراچی میں تو اچھی خاصی قوت کی مالک ہے اور سندھ کے شہروں میں تحریک انصاف کو پڑھے لکھے سیاسی لوگ مل گئے مگر دیہی سندھ میں تحریک انصاف کو ایسے افراد نہ مل پائے جو پیپلز پارٹی کا مقابلہ کرنے کی ہمت اور صلاحیت رکھتے ہوں۔ اور جب بات جوڑ توڑ کی سیاست کی ہو پھر تحریک انصاف کو ارباب رحیم سے بہتر اور کون مل سکتا تھا؟ وزیر اعظم عمران خان نے ارباب رحیم کو اپنا معاون بنا کر پیپلز پارٹی کے لیے مزید پریشانیاں پیدا کردیں۔ اگر پیپلز پارٹی نے سیاسی سمجھ بوجھ کا مظاہرہ کیا ہوتا تو اسے اپنے آپ کو بہتر بنانے اور سندھ کے عوام سے پھر سے جڑ جانے کا ایک موقعہ مل سکتا تھا مگر پیپلز پارٹی کی تنظیم میں کرپشن نے عیاشی کی حد تک جو سستی پیدا کی اس کا نتیجہ یہی نکلنے والا تھا جو نکل رہا ہے۔ پیپلز پارٹی نے سیاسی اور عوامی میدان میں ارباب رحیم کا مقابلہ کرنے کے بجائے جو منفی راستہ اختیار کیا وہ ارباب کی راہ روکنے کا تھا۔ یہی سبب تھا کہ جب چند روز قبل ارباب رحیم نے حیدرآباد کے قریبی شہر ٹنڈو محمد خان میں جس طرح اپنے لوگوں کے معرفت ناکام گھیراؤ کرتے ہوئے جس غنڈہ گردی کا مظاہرہ کیا اس سے پیپلز پارٹی کو سندھ میں عوامی حمایت حاصل ہونے کے بجائے سخت سیاسی تنقید کا سامنا کر پڑ رہا ہے۔ یہ سندھ تو کیا پورے پاکستان کا سیاسی کلچر نہیں ہے کہ مخالف کی راہ گالیوں اور جوتوں سے روکی جائے۔سندھ میں تو ہر سیاسی وڈیرے کے پاس اتنی قوت ہے کہ وہ پلاننگ کے ساتھ پچاس سو لوگ جوتوں سے کھڑا کر سکتا ہے۔اس طرح اب سندھ میں منفی اور مجرم قسم کی سیاست کا جو انداز اپنایا جا رہا ہے اگر یہ پختہ ہوگیا تو بہت ہی برا ہوگا۔ کیوں کہ ایم کیو ایم کی ماضی والی سیاست کا اندرون سندھ میں کوئی فطری بنیاد نہیں ہے۔ اگر کوئی بھی جماعت ایسا کرتی ہے تو وہ دو چار فیصد سنجیدہ اور پرامن سیاست کرنے والے افراد بھی اس قسم کے رجحان سے دور بھاگیں گے اور سیاست میں غنڈہ عنصر کا داخلہ بڑی حد تک بڑھ جائے گا ۔ یہ انتہاہی مذموم قسم کا انداز اس پارٹی نے اپنانا شروع کیا ہے جو ایک لبرل اور انتہائی مہذب سیاست کرنے کی داعی ہے۔ اندرون سندھ کے ایک شہر میں اگر یہ واقعہ ہوتا تو یہ نظرانداز بھی کیا جاسکتا تھا ۔ کیوں کہ ہلڑ بازی ہماری سیاسی وبا ہے۔ جب پارلیمنٹ میں ایک دوسرے پر ہاتھ اٹھائے جائیں اور گالیوں کی بارش برسائی جائے۔ جب توڑ پھوڑ کی جائے اور جب ایوان کا تقدس بلائے طاق رکھ کر تماشہ کیا جائے تو پھر ہمیں عوامی قسم کی ہلڑ بازی کے اکا دکا واقعے کو درگزر کرنا چاہیے مگر اندرون سندھ میں پیپلز پارٹی نے سوچ سمجھ کے ساتھ یہ طریقہ اپنانا شروع کیا ہے۔ ارباب رحیم کے ساتھ جو کچھ ہوا ؛ اس سے پہلے سندھ اسیمبلی کے ممبر اور تحریک انصاف کے رہنما حلیم عادل شیخ کے ساتھ بھی دو چار بار ہو چکا ہے۔ اس پر نواب شاہ میں جس طرح لوگ چھوڑے گئے اور اس کی گاڑی پر جس طرح مکے برسائے گئے۔ وہی واقعہ اس بار ارباب رحیم کے ساتھ پیش آیا ہے۔ جب کہ پیپلز پارٹی اچھی طرح سے جانتی ہے کہ حلیم عادل شیخ اور ارباب رحیم میں صرف ایڈریس کا نہیں بلکہ پورے ماحول اور مزاج کا فرق ہے۔ حلیم عادل شیخ ایک بزنس مین ہیں اور ارباب رحیم ایک سندھی وڈیرے ہیں۔ جو فرق شہر اور گاؤں میں ہوتا ہے۔ وہ فرق حلیم عادل شیخ اور ارباب رحیم میں ہے۔ حلیم عادل شیخ تو اس قسم کا رویہ درگزر کرسکتے ہیں مگر ارباب رحیم اپنے طبقاتی حیثیت کی وجہ سے اس قسم کا انداز افورڈ نہیں کر سکتے۔ اس سے کیا ہوگا؟ اس سے ایک غلط اور غیرسیاسی قسم کی محاذ آرائی پیداہوگی۔ وہ محاذ آرائی اس سندھ کے اس سیاسی کلچر کو بہت متاثر کر ے گی جو سیاسی کلچر کبھی مثالی رہا ہے۔ سندھ میں ہر قسم کی انتہا پسندی کی مخالفت کی جاتی رہی ہے۔ اس لیے سندھ میں نہ صرف مذہبی اور لبرل بلکہ وڈیرانہ اور کامریڈانہ انداز کی سیاست ایک ساتھ چلتی رہی ہے۔ اور یہی جمہوریت کا حسن ہے۔ مگر پیپلز پارٹی اپنے مزاج میں جمہوریت سے اس قدر ہٹتی جا رہی ہے کہ اب اس نے مخالفین کے ساتھ غنڈہ گردی کا رویہ اپنانے کا فیصلہ کرلیا ہے اور یہ بات بہت برے نتائج کا باعث بنے گی۔ پیپلز پارٹی کو سمجھنا چاہئیے کہ دہشتگردی اور بم دھماکوں کی وجہ سے کچھ عرصہ قبل عوامی اجتماعات کا قلع قمع ہو چکا تھا اور جب امن اور آزادی کی فضا پیدا ہو رہی ہے تو پھر اس کو بگاڑنے میں کس طرح کی دانشمندی ہے؟ اس سوال پر پیپلز پارٹی کو سنجیدگی سے سوچنا چاہئیے۔ اگر پیپلز پارٹی نے اندرون سندھ میں ایم کیو ایم کے ماضی والا کردار ادا کرنے کی کوشش کی تو اس سے سندھ کا سیاسی ماحول بہت بری طرح سے متاثر ہوگا۔ پیپلز پارٹی کو اس ضمن میں یہ بھی سوچنا چاہئیے کہ وہ جن مخالفین سے اس قسم کی محاذ آرائی کا ماحول پیدا کر رہی ہے ان کے پاس کھونے کے لیے کچھ خاص نہیں جب کہ اس وجہ سے جو کچھ پیپلز پارٹی کو کھونا پڑے گا وہ بہت کچھ ہے۔