مجھے معلوم نہیں اور شاید کسی کو معلوم نہیں کہ یہ الفاظ کس نے کہے تھے کہ ’’جنگ اور محبت میں سب جائز ہے‘‘ جب کہ نہ تو جنگ میں سب کچھ جائز ہوا کرتا ہے اور نہ محبت میں! اگر جنگ میں سب کچھ جائز ہوتا تو پروین شاکر کو یہ شعر کیوں لکھنا پڑتا ؟ جنگ کا ہتھیارطے کچھ اور تھا تیر سینے میں اتارا اور ہے ہر جنگ کے ہتھیار طے ہوا کرتے ہیں۔ مگر جب کوئی طے شدہ ہتھیار سے آگے بڑھ کر دوسرا ہتھیار استعمال کرتا ہے تو صرف سوال نہیں بلکہ اعتراض بھی بنتا ہے۔پاکستان میں جمہوریت کا سب سے بڑا مان جس پارٹی کو رہا ہے وہ پیپلز پارٹی ہے۔ یہ پیپلز پارٹی ہی ہے جس کے جانے مانے کرپٹ رہنما بھی ٹی وی شوز میں آکر بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ ہماری پارٹی نے جمہوریت کے لیے سب سے زیادہ قربانیاں دی ہیں ۔پیپلز پارٹی کا ماضی کیسا بھی رہا ہو مگر بینظیر بھٹو کے بعد ایسا لگتا ہے کہ پیپلز پارٹی کا حقیقی عہد اپنے منطقی انجام کو پہنچا ہے۔ اب جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ بینظیر کی نہیں بلکہ آصف زرداری کی پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ ان کے لیے سیاست میں سب جائز ہے۔ آصف زرداری کے لیے اصل بات کامیابی ہے۔ وہ کامیابی حاصل کرنے کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار ہوجاتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ اس بار سندھ میں بلدیاتی انتخابات جیتنے کے لیے آصف زرداری نے وہ سب کچھ کیا جو کسی دورمیں کراچی کے اندر صرف ایک جماعت ہی کیا کرتی تھی۔ اب تو اس جماعت کے قدرت نے ٹکڑے ٹکڑے کردیے ہیں مگر اس جماعت نے جو دہشت کا کلچر پیدا کیا تھا اس کلچر کے باعث جمہوریت تو صرف برائے نام رہ گئی تھی۔ اس وقت مذکورہ جماعت کا وہ حال ہے کہ وہ کچھ بھی کرے مگر پھر سے کراچی کو یرغمال بنانا اس کے لیے ممکن نہیں رہا۔ جب کہ اس جماعت کا کلچر آصف زرداری کی سربراہی میں پیپلز پارٹی اندرون سندھ میں اپنانے کی بھرپور کوشش میں مصروف عمل ہے۔ یہی سبب ہے کہ سندھ کے چودہ اضلاع میں اس بار جو بلدیاتی انتخابات میں پیپلز پارٹی نے حکومتی پارٹی ہونے کے باوجود جس جبر اور جس طاقت کا مظاہرہ کیا اس کی نظیر پاکستان کی سیاست میں ملنا محال ہے۔ یہ بلدیاتی انتخابات تھے مگر پیپلز پارٹی نے ایک وارڈ کے کونسلر کی سیٹ کو جیتنے کے لیے پورا زور لگادیا۔ حالانکہ حکمران جماعت کے لیے ایسے انتخاب جیتنے کے لیے کسی محنت اور مشقت کی ضرورت نہیں ہوتی۔ پیپلز پارٹی کو بھی یہ انتخابات جیتنے کے لیے بڑی محنت نہ کرنا پڑتی مگر اس کی حکومتی کارکردگی سندھ میں ایسی نہیں رہی کہ لوگ انہیں اپنی خوشی اور مرضی سے ووٹ کریں۔ بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے سندھ کے سوشل میڈیا پر جو وڈیوز آج تک چل رہی ہیں وہ حقیقی طور پر ایک ایسا آئینہ ہے جس میں کوئی بھی جماعت اپنا چہرہ دیکھ سکتی ہے؛ وہ جماعت جس کو یہ بھرم رہا ہو کہ اس نے جمہوریت کے لیے بڑی قربانیاں دی ہیں۔ جمہوریت کے لیے مذکورہ پارٹی نے ماضی میں قربانیاں دی ہونگی مگر اس بار تو وہ جیتنے کے لیے عوام سے جس طرح زبردستی ووٹ چھین رہے تھی ؛ اس کو دیکھ کر ہمیں تو مرزا غالب کا یہ شعر یاد آ رہا تھا: یہی ہے آزمانا تو ستانا کس کو کہتے ہیں عدو کے ہو لیے جب تم تو میرا امتحاں کیوں ہو اس بار بلدیاتی سندھ میں بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے جو کچھ ہوا ہے اس کو پیپلز پارٹی جیت کہیں کہ سندھ کے عوام کی ہار؟ یہ سوال بہت مشکل ہے۔ یہ سوال پیپلز پارٹی کو بھی بہت برا لگے گا مگر یہ برائی اتنی نہیں جتنی برائی ہمیں اس صورت میں نظر آئی جس صورت میں عوام پر پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے وڈیروں کے ظلم کا مشاہدہ کیا گیا۔ اس بار پیپلز پارٹی سے منسلک وڈیروں نے جمہوریت کی دھجیاں بکھیرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ مگر پیپلز پارٹی کو بھی محسوس ہونا چاہیے کہ ہر جبر کی ایک حد ہوا کرتی ہے۔ کیوں کہ ہر صبر کی بھی ایک حد ہوا کرتی ہے۔ پیپلز پارٹی کی طرف سے اس بار کیا گیا جبر کسی طور پر قابل برداشت نہیں تھا۔ کیوں کہ اس جبر کے نتیجے میں کچھ ہو رہا تو وہ بہت زیادہ تکلیف دہ تھا۔ اس بار پیپلز پارٹی نے بلدیاتی انتخابات عوامی مدد سے نہیں بلکہ عوام کے مخالف کھڑے ہوکر جیتے اور اس جیت میں جو ہار جمہوریت کے حصے میں آئی اس کا مداوا تو تاریخ بھی نہیں کرسکتی۔ پیپلز پارٹی کی طرف سے عوام سے زبردستی ووٹ لینے کا جو عمل ہمیں نظر آیا اور جس طرح سرکاری مشینری پیپلز پارٹی کے وڈیروں کے اشاروں پر عوام کے خلاف برسرپیکار تھی وہ سب کچھ بہت زیادہ تکلیف دہ عمل تھا۔ کیوں کہ سب کچھ بہت دل خراش اور تکلیف دہ تھا۔ کس کو معلوم تھا کہ پیپلز پارٹی جیسا ماضی رکھنے والی جماعت لوکل باڈیز کے انتخابات میں اس حد تک جا سکتی ہے؟ مگر تاریخ ہمیں وہ سب کچھ دکھانا چاہتی ہے جس کو ہم دیکھنا نہیں چاہتے۔ تاریخ کے پاس ہمیں دکھانے کے لیے ہم سب کچھ ہے جو کچھ دیکھنا ہمارے لیے محال ہے۔ جمہوریت کے نام پر جب جبر کی سیاہ رات کالی چادر کی طرح تن جائے تواس میں انسان کا مایوس ہونا تو فطری عمل بن جاتا ہے اور اس عمل میں کسی کو اعتراض بھی نہ ہونا چاہیے۔ کیوں کہ یہ سب کچھ تو فطری ہے۔ جب درد ہوتا ہے تو آنسو بہتے ہیں۔ مگر فطرت صرف درد اور تکلیف کا سامان فراہم نہیں کرتی۔ جہاں فطرت رات کو جنم دیتی ہے وہاں فطرت تاروں کو بھی تو پیدا کرتی ہے۔ وہاں فطرت چراغوں کو جلنے کے حالات بھی فراہم کرتی ہے۔ اس بار بھی سندھ میں کچھ ایسا ہوا۔ اس بار سندھ میں پہلی بار ہماری بچیاں اپنے ہاتھوں میں پیپلز پارٹی کے خلاف جمہوریت کا پرچم لیکر جس طرح انتخابی عمل میں اتریں اس کا منظر بہت خوبصورت اور بیحد دلکش تھا۔ یہ حقیقت ہے کہ پیپلز پارٹی کے خلاف لڑنے والی سندھ کی بیٹیاں مکمل طور پر جیت نہیں پائیں مگر وہ جس انداز سے لڑیں ہیں اس سے سندھ کو بہت حوصلہ حاصل ہوا ہے۔سندھ نے اپنی تعلیم یافتہ اور باشعور بیٹیوں کے روپ میں ایک نئے صبح کا خواب دیکھنا شروع کیا ہے۔ جس میں سندھ کے بیٹیوں نے اپنی چادر کو اپنا پرچم بنایا ہے ۔ یہ بغاوت کسی بھی جبر سے نہیں دب سکتی۔ اس کے اپنے راستے ہیں،اپنا عزم اور حوصلہ ہے۔ اس کو کچلنے کی طاقت پیپلز پارٹی میں تو کیا کسی آمریت میں بھی نہیں ہو سکتی۔ کیوں کہ یہ سندھ کی دھرتی سے ان بیٹیوں کی صورت ابھری ہے جو بیٹیاں جبر کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر کھڑی ہوگئی ہیں۔ ان کے لیے وڈیروں سے مقابلہ کسی خوف اور دہشت کی بات نہیں۔ وہ گیت گاتی ہیں۔ وہ پرچم لہراتی ہیں۔ وہ اپنا قدم آگے بڑھاتی ہیں۔ ان کے ساتھ تاریخ کی پوری قوت ہے۔ وہ تاریخ کی ہمسفر ہیں۔ان کے دم سے ایک نیا احساس پیدا ہوا ہے۔ وہ احساس جیت سے زیادہ ہے۔ اس احساس کو شاعرانہ انداز میں پروتے ہوئے فیض صاحب نے کیا خوب لکھا تھا: پیدا کہیں بہار کے امکاں ہوئے تو ہیں گلشن میں چند چاک گریباں ہوئے تو ہیں