’’لاک ڈاؤن کے دوراں ایس او پیز کا خیال رکھتے ہوئے سندھ نے عید کس طرح منائی؟‘‘ سندھ کے پاس اس سوال کا جواب ایک اداس مسکراہٹ ہے۔ جب ہم سندھ کی بات کرتے ہیں تب ہم ان پیروں؛ میروں؛ وڈیروں اور وزیروں کی بات نہیں کرتے جن کے جیبوں میں ہر دن اور وقت نئے اور کڑک نوٹ ہوتے ہیں۔ سندھ تو ان غریبوں اور کسانوں کا نام ہے جو روزے تو پورے رکھتے ہیں مگر عید کی خوشیاں نہیں منا سکتے۔ وہ لوگ عید پر ربڑ کی چپل خریدتے ہیں اور کپڑوں کا سادہ سا جوڑا سلواتے ہیں اور پورا سال اس میں کاٹ دیتے ہیں۔اس سال تو انہوں نے لاک ڈاؤن کی وجہ سے بند بازاروں اور مہنگے داموں کی وجہ سے وہ چھوٹی سی خوشی بھی حاصل نہیں کی۔ غریب پورے ملک میں عید سادگی کے ساتھ مناتے ہیں۔ یہ بات صرف سندھ تک محدود نہیں ۔ غریب عید کے دن اپنے روٹھے ہوئے پیاروں کو مناتے ہیں۔ ان کو آنسو بھری آنکھوں سے گلے لگاتے ہیں۔ اس دفعہ تو ’’پپیوں اور جپھیوں‘‘ پر بھی پابندی تھی۔ اس لیے غریب لوگ ایک دوسرے سے ذرا احتیاط کرتے ہوئے ملے اور انہوں نے جب ایک دوسرے کو عید کی مبارک دی تو ان کی خالی آنکھوں اور خاموش زبان پر یہ الفاظ تھے کہ ’’غریبوں کی کیسی عید‘‘؟ غریبوں کی عید تو ویسے بھی غریب ہوتی ہے مگر اس بار تو غریبوں کی غریب سی عید بھی کورونا کی نذر ہوگئی ۔ سندھ اکثریتی طور پر ایک غریب سرزمین ہے۔ اس سرزمین کے باسیوں نے صدیوں سے عید نہیں منائی۔ وہ ہر بار حسرت کے ساتھ دعا مانگتے ہیں کہ ’’اللہ کرے گا کہ ایک دن غریبوں کی عید بھی آئے گی‘‘ مگر وہ عید کب آئے گی؟ ان غریبوں کو پورے سال کی محنت اور مشقت کا اجر ملے گا۔ وہ ایک دوسرے کے ساتھ ہنسی خوشی منائیں گے اور امید بر آنے کے گیت گائیں گے۔ مگر وہ حقیقی عید ان کو اس وقت میسر نہ ہو سکے گی جب تک استحصالی قوتوں سے انہیں سیاسی، سماجی اور اقتصادی آزادی نہیں ملتی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک میں جمہوریت ہے مگر غریبوں کے لیے تو جمہوریت میں بھی جمہوریت نہیں ہوتی۔ وہ جمہوریت میں بھی ان ظالموں کے شکنجے میں جکڑے ہوئے ہوتے ہیں جن کے لیے غریب صرف ووٹوں کی مشین ہوتے ہیں۔روشن راتوں اور ہیرے کی طرح جگمگاتے ہوئے دنوں کے دوراں بھی انہیں اندھیرا نصیب ہوتا ہے: رات اور دن دیا جلے میرے من میں پھر بھی اندھیارا ہے! ایسا ہے غریب سندھ کا مقدر۔ جس دن یہ لوٹ کھسوٹ والا نظام ختم ہوگااس دن سندھ بھی ملک کے باقی غریبوںکی طرح عید منائے گا۔ وہ وقت ابھی نہیں آیا کہ غریبوں کو ان کے حقوق ملیں۔ وہ حقوق ایک فرد کے ہوں، ایک خاندان اور ایک قبیلے کے ہوں یا ایک قوم کے ہوں۔ محروم لوگ خوشیوں سے بھی محروم رہتے ہیں۔ ان کے حصے کی خوشیاں بھی وہ لے جاتے ہیں جن کے پاس طاقت اور اقتدار ہے۔ ہم اس دور میں نہیں رہتے جس دور میں حکمران تب تک سکون کے ساتھ دو نوالے نہیں کھا سکتا تھا جب تک اس کے ملک کے غریب پیٹ بھرکھانا نہ کھائیں۔ سندھ خوشیوں کے منتظر لوگوں کی سرزمین ہے۔ سندھ بہت حسین ہے۔ خاص طور پر جب تھر پر بادل برستے ہیں اور جب کھیتوں میں پکی ہوئی گندم کی فصل ہواؤں میں لہراتی ہے۔ جب پرندے کھیتوں پر اترتے ہیں اور ان کے پر دعا مانگنے والے ہاتھوں کے مانند کھل جاتے ہیں اور وہ اپنی میٹھی بولی میں ان کسانوں کے لیے دعا مانگتے ہیں کہ ان کے کھیت ہمیشہ لہراتے رہیں۔ ان کے گھروں میں چاول اور آٹے کی کمی نہ ہو۔ ان کے مویشیوں کے تھن دودھ سے بھرے ہوئے ہوں اوران کے مٹکوں میں مکھن بھی ہو اور لسی بھی ہو اور ان کے بچوں کے ہونٹوں سے دودھ کی دھاریں بہتی رہیں۔ ان کی جوان بیٹیوں کی شادیاں قرآن مجید کے سائے تلے ہوں۔ ان کے آنگنوں میں بچوں کی کلکاریاں ہوں۔ ان کے دروازے سے کوئی فقیر خالی ہاتھ نہ لوٹے۔ سندھ تو مہمان نوازی کے حوالے سے مشہور سرزمین رہی ہے مگر جب گھر میں کھانے کو کچھ نہ ہو تو وہ مہان نوازی کی رسم کس طرح ادا کریں؟ جو لوگ بیس منٹ میں شراب کی بوتل کو شہد کی بوتل میں بدلنے کا ہنر جانتے ہوں تو انہیں کس طرح قابو میں لایا جائے؟ اور خاص طور پر اس صورتحال میں کہ جب بھی ان کی کرپشن کے بارے میں بات کی جائے تو وہ سندھ کی محرومی کا کارڈ شو کرتے ہیں اور شور کرتے ہیں کہ سندھ کے ساتھ ظلم ہو رہا ہے۔ کیا وہ سندھ ہیں؟ اگر سندھ زرداری اینڈ کمپنی کا نام ہے تو پھر سندھ غریب کس طرح کہا جائے گا؟ سندھ کی حکمران کلاس اپنے آپ کو سندھ کا نمائندہ بنا کر پیش کرتی ہے۔ اس لیے جب بھی کوئی صحافی پیپلز پارٹی کی قیادت سے سندھ کی غربت کا تذکرہ کرتا ہے اور سوال کرتا ہے کہ سندھ کی سڑکیں ٹوٹی پھوٹی کیوں ہیں؟ سندھ کے بیماروں کا علاج کیوں نہیں ہوتا تو وہ دعوے کرتے ہیں کہ سندھ میں مثالی ترقی ہوئی ہے۔ سندھ میں مثالی ترقی ہوئی ہے مگر وہ ترقی پیپلز پارٹی کی قیادت اور ان کے ہم نوالوں اور پیالوں کی ترقی ہے۔ وہ جو مشہور مقروض تھے آج مشہور جاگیردار اور تاجر ہیں۔ دریائے سندھ میں پانی نہیں ہے اس لیے کسانوں کی آنکھیں بھیگی ہوئی ہیں۔ کورونا کی وجہ سے بیمار معیشت آئی سی یو میں داخل ہو چکی ہے مگر سندھ کے حکمرانوں کو کوئی پرواہ نہیں۔ کیوں کہ ان کیلئے تو دودھ اور شہدکے دریا بہہ رہے ہیں۔ ان کے بیٹوں اور بیٹیوں کے لیے فارم ہاؤسز اور کوٹھیاں تعمیر ہو رہی ہیں۔ اگر سندھ کی غریب بیٹیوں کی مانگ میں چاندی چمکتی ہے تو کیا ہوا؟ حکمرانوں کی اولاد کے ہاتھوں میں تو سونے کے چمچ ہیں۔ اور وہ کیا ان کے چمچوں کے چمچوں کے پاس بھی اتنی دولت ہے کہ سندھ کے غریب دہشت زدہ ہو جاتے ہیں۔وہ جو پراڈو کے بغیر اور کسی گاڑی میں سفر نہیں کرتے ان کا کیا احساس کہ پیدل چلنے والے سندھ نے کورونا میں لپٹی ہوئی یہ عید کس طرح منائی؟ سندھ کے عوامی شاعر نے لکھا ہے: ’’میرے بھائی/لبوں کو کھولو/سچ تو بولو/تیرے گھر میں/عید تو آئی/کیسی آئی؟/میرے بھائی/میں نے اس عید پر بھی/روکھی سوکھی روٹی کھائی/اپنے آنسوؤں سے بھائی/وہی پرانے کپڑے دھوئے/گاؤں والی مٹی کی مسجد میں/ عید نماز کے بعد او بھائی/بچوں سے نہ آنکھ ملائی/میرے پاس اور میرے بھائی/ یہ عید بھی ایسی آئی/ہاں یہ عید بھے ایسی آئی‘‘