سیدشریف الدین پیرزادہ مرحوم پاکستان کے آمروں کے محبوب قانون دان اور حقیقی معنوںمیں سیاسی مشکل کشا تھے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ 1966ء سے 1988ء تک ہر فوجی حکومت میں ہر آمر کی آنکھ کا تارا بنے رہے۔2001ء میں وہ خاصے بزرگ ہو چکے تھے لیکن جنرل پرویز مشرف کوبھی انہوں نے سیاسی بدحالی میں تنہا نہیں چھوڑا اور بلکہ ہرمشکل گھڑی میں انہیںمجرب قانونی نسخوں سے مستفید کرتے رہے،جب جنرل پرویز مشرف پارلیمان کے ہاتھوں مواخذے کے اندیشے کا شکار ہوئے تو انہیں بچانے کے لئے سیدشریف الدین پیرزادہ کا کوئی نسخہ کام نہ آیا۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میںسیدشریف الدین پیرزادہ کا1960ء سے 2008ء تک آستانہ چلتا رہا اور خوب چلتا رہا۔ کبھی کبھی تو ان کے آستانے پر سیاسی حکومتیں بھی چھپ چھپاکر اپنے درد کی دوا لے جایاکرتی تھیں۔ ان کی زندگی کے ان لگ بھگ پچاس سالوںمیں وزارتیں،مشاورتیں ،اعزازات اور نہ جانے کیا کیا پیشکشیں ان کے قدموں میں بھٹکتی رہتی تھیں ۔وہ قانون دان تھے اور اصول پسند بھی تھے ، اپنی مقررہ ’’فیس‘‘ یااپنے دیئے گئے نسخے کی مقررہ وکالتی مشاہیرے سے زیادہ کچھ نہیں مانگا۔ وہ پروفیشنل وکیل تھے اور اپنی فیس پر اپنے پورے وکالتی دورانیہ میںکبھی کمپرومائز نہیں کیا، جو مانگا انہیں ملا اور نہ ملنے کا تو کوئی سوال نہیں تھا۔ وہ اپنے آمریت نواز رویے کی وجہ سے سیاسی اور قانونی حلقوں میں شدید متنازعہ شخصیت سمجھے جاتے تھے لیکن سیاستدان اور قانون دان سب کے سب ان کی اس لئے عزت کیا کرتے تھے کہ وہ سرتاپا قانون تھے ۔ قانون وانصاف کی دنیا میں ان کا نام بھی بڑا تھا اور ماشااللہ کام بھی بڑا کرتے تھے اس لئے توایوب خان سے لے کر جنرل مشرف تک سب نے ان کی خداداد بے پناہ قانونی صلاحیتوں سے استفادہ کیا۔ ملک میںسیاسی ناخدائوں کی ناکامیوں اور باہمی چپقلشوں کوجوازبنا کرجب بھی کوئی جرنیل آب رواں پر چلتی ہوئی کسی جمہوری کشتی کاچپواپنے ہاتھ کر لیتا۔ سید شریف الدین پیرزادہ مدہیہ پردیش کے گائوں برہان پور کے تھے ، خدائی خدمت گار نہ تھے۔وہ ہر قانونی نسخے اور تعویز کی سوچ سمجھ کرفیس طے کرتے تھے اوراپنا معاوضہ دل کھول کر لیا کرتے تھے۔ فیلڈ مارشل ایوب خان سے لے کر جنرل یحیٰی خان ، جنرل ضیاالحق اور جنرل مشرف تک جتنے بھی غیرسیاسی اقتدار آئے سیدشریف الدین پیرزادہ کاقانونی تعویز ان کی سیاسی مجبوری رہا۔ملک میں جنرل پرویز مشرف کا آخری مارشل لا اپنے انجام کو پہنچا تو سیدشریف الدین پیرزادہ بھی گوشہ نشین ہوگئے اور ان کی قانونی درگاہ پربھی تالے پڑ گئے کیوں کہ وہ آمریتوں کو دلدلوں سے نکالنے میں یدطولیٰ رکھتے تھے ، وہ سیاست اورسیاسی لوگوں کے لئے نہیں بنے تھے۔ نئے پاکستان نے سینیٹر بیرسٹر محمدفروغ نسیم کی شکل میںایک نئے شریف الدین پیرزادہ کو جنم دیا ہے جو آمریتوں کے لئے نہیںبلکہ سیاسی جماعتوں کے لئے ان کے من پسند قانونی نسخے تجویز کرتے ہیں۔ سید شریف الدین پیرزادہ اور بیرسٹر محمدفروغ نسیم میں ایک قدر تو مشترک ہے کہ دونوں سیاسی اور قانونی حلقوں میں متنازعہ ہونے کے باوجود قانون پرمکمل گرفت کی وجہ سے سراہے جاتے ہیں۔ بیرسٹرمحمد فروغ نسیم، عمران خان کی کابینہ میں وفاقی وزیر قانون وانصاف بننے سے پہلے ایڈووکیٹ جنرل اور جنرل پرویز مشرف کے وکیل بھی رہ چکے ہیں، جنرل صاحب کی وکالت انہیں بادل نخواستہ اس وقت چھوڑنی پڑی جب وہ نئے منصب پر فائز ہوئے۔ انہوں نے جب سے یہ منصب سنبھالا ہے عمران خان کو پارلیمان کی محتاجی سے بے نیاز کردیا ہے اوروہ ان کے لئے سید شریف الدین پیرزادہ کے برعکس مفت میں ایسے ایسے نسخے تجویز کر رہے ہیں کہ وہ قوانین صدارتی فرمودات کے ذریعے نافذ کئے جارہے ہیں۔ پچھلے دنوں انہوں نے سندھ کے لئے آرٹیکل 149(4)جیسا جادوئی چراغ ڈھونڈ نکالا تھا جس کے تحت عمران خان کی دیرینہ خواہش پوری ہونے کا امکانات روشن ہو گئے لیکن زبردست مزاحمت کی وجہ سے وزیر اعظم اوروزیرقانون وانصاف کو پسپائی اختیار کرنا پڑی۔ نہ جانے کیا سبب ہے کہ عمران خان جب سے برسراقتدار آئے ہیں باربار سندھ کو قابو کرنے کے لئے نت نئے قانونی مگر غیرجمہوری نسخے ڈھونڈ رہے ہیں۔ اب ایک اور نسخہ کراچی پر بالواسطہ کنٹرول کا عمران خان کے ہاتھ آگیا ہے اور کہنے والے کہتے ہیں کہ یہ نسخہ بھی بیرسٹرمحمد فروغ نسیم کی اختراع ہے۔وزیراعظم کی ہدایت پر کراچی میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے کراچی انفراسٹرکچر ڈویلیپمنٹ کمپنی لمیٹڈقائم کی گئی تھی جس کا سندھ حکومت نے یہ کہتے ہوئے بائیکاٹ کردیا تھا کہ وزیراعظم کی نظرکرم کا سفرصرف کراچی تک ہی کیوں محدود ہے ،اس کادائرہ پورے سندھ تک ہونا چاہئے۔اس اعتراض اورحکومت کی اتحادی جماعتوں کی تجاویز کے بعد وزیراعظم کی ہدایت پر کراچی میں وفاقی ترقیاتی منصوبوں کے لیے قائم کراچی انفرا اسٹرکچر ڈیولپمنٹ کمپنی لمیٹڈ کے دائرہ کار کو وسعت دیتے ہوئے اس کو’’ سندھ انفرا اسٹرکچر ڈیویلیپمنٹ کمپنی لمیٹڈ‘‘ بنادیا گیا تاکہ صوبہ سندھ میں وفاق کے تحت مزید ترقیاتی منصوبے شروع کئے جاسکیں لیکن اس نئی کمپنی کے قیام پر بھی سندھ حکومت کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔’’سندھ انفراسٹرکچرڈویلپمنٹ کمپنی لمیٹڈ‘‘ وفاق کے مالی تعاون سے شروع کئے گئے سندھ میں تمام منصوبوں کی تکمیل اورترقیاتی کام کی ذمہ دارہوگی، اس کے چیف ایگزیکٹو آفیسرصالح فاروقی ہیں۔اس کے علاوہ وزیر بحری امور سید علی حیدر زیدی، وزیر برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی خالد مقبول صدیقی، وزیر برائے آبی ذخائر فیصل واوڈا، گورنر سندھ عمران اسماعیل، ثمر علی خان، عدنان اسدشامل ہیں۔نسخہ تو اچھا ہے اور بالکل قانونی ہے ۔لیکن جمہوری اصولوں کے یکسر منافی ہے۔ جب حکومت موجود ہے تو اس کے ساتھ مل کر کوئی مشترکہ اہتمام ہونا چاہئے تھا۔ یہی تجربہ شہباز شریف کی حکومت میں پنجاب میں شروع ہوا تو معتوب ٹھہرا اور اس کے ذمہ دار افراداپنے کردہ ناکردہ گناہوں کی سزا بھگت ہی رہے ہیں، پنجاب میں ایسی کمپنیوں کے قیام میں تحریک انصاف کی اس قدر ناپسندیدگی کے باوجود سندھ میں ایسی لمیٹڈکمپنی کے قیام کیا جواز بنتا ہے؟کیا یہ بھی سوچا ہے اس نسخے کے تخلیق کاروں نے!