سندھی زبان کے مشہور لوک فنکار جگر جلال لاڑکانہ سے کشمور کی طرف جاتے ہوئے ڈرامائی طور پر اغوا ہو گئے۔وہ کسی پروگرام کے سلسلے میں وہاں جا رہے تھے جہاں عام طور پرلوگ نہیں جاتے۔ کیوں کہ وہاں دریائے سندھ کے کنارے پر موجود جنگل میں ڈاکو بستے ہیں۔ وہ ڈاکو عام طور پر وہاں کے مقامی لوگوں کو تنگ نہیں کرتے۔ وہ علاقے سے باہر کے لوگ اغوا کرکے لاتے ہیںیا وہاں پر اپنے شکار کے لیے جال بچھاتے ہیں۔ اس بار بھی ایسا ہی ہوا۔ جگر جلال نامی فنکار کو سندھ کے جنگلوں میں بسنے والے ڈاکوؤں نے موبائل پر فون کیا اور کہا کہ انہیں پروگرام کروانا ہے۔وہ راضی ہوگئے۔ یہ کوئی حیران ہونے والی بات نہیں ہے۔ سندھ کے ڈاکو ان لوک فنکاروں کے پرستار ہوتے ہیں۔ وہ جنگل میں منگل کرنے کے لیے کبھی کبھار ان کو بلاتے ہیں تو وہ چلے جاتے ہیں اور خیریت واپس بھی آتے ہیں۔ ان کے جان و مال کو کوئی خطرہ نہیں ہوتا۔ڈاکو نہ صرف ان فنکاروں کو طے شدہ رقم دیتے ہیں بلکہ پروگرام کے دوران نچھاور ہونے والے نوٹ بھی ان سے واپس نہیں لیتے۔ اس لیے جب جگر جلال سے ڈاکوؤں نے جنگل میں آنے کے لیے کہا تو اس نے کوئی اعتراض نہیں کیا۔جگر جلال اپنے ساتھ بیٹے؛ بھانجے ؛ طبلہ نواز اور ڈرائیور کو ساتھ لیکر جب ڈاکوؤں کے علاقے میں داخل ہوئے تب ڈاکوؤں نے ان کا استقبال کرنے کے بجائے انہیں بندوق کی نوک پر یرغمال بنایا۔ اس نے اپنے موبائل سے گھر والوں کو فون کرکے بتایا کہ وہ اغوا ہو چکے ہیں۔ جگر جلال کے اغوا کی خبر سوشل میڈیا پر طوفان بن گئی۔ لاڑکانہ پولیس نے اس سلسلے میں اپنا موقف پیش کرتے ہوئے کہا کہ جگر جلال دوسرے لوک فنکاروں کی طرح جنگل میں پروگرام کرنے جاتے رہتے ہیں۔اس بار بھی وہ پروگرام کرنے گئے مگر ڈاکوؤں سے طے شدہ پروگرام کے مطابق وہ اپنے ساتھ رقاصائیں نہیں لے گئے اور اس نے وہاں پہنچنے میں دیر بھی کی۔ اس لیے ڈاکوؤں نے ناراض ہوکر اس کو اپنے پاس بٹھادیا ہے۔ پولیس انہیں جلد بازیاب کرالے گی۔ اس اعلان کے بعد پولیس پوری تیاری کے ساتھ ڈاکوؤں کے علاقے میں داخل ہوئی۔ پولیس اور ڈاکوؤں کا سخت مقابلہ ہوا۔ اس مقابلے میں ڈاکوؤں کے ہاتھوں ڈی ایس پی راؤ شفیع اللہ شہید ہوگئے۔ پولیس کو مجبور ہوکر واپس آنا پڑا۔ سندھ پولیس پر میڈیا نے سخت تنقید کرنا شروع کی۔ یہ واقعہ اس قدر شدید صورت اختیار کرگیا کہ سندھ اسمبلی میں بھی عوامی فنکار جگر جلال کے اغوا کی گونج سنائی دی۔ سندھ اسمبلی میںایک ہندو ایم پی اے نے کہا کہ اگر بلوچ قبیلے سے تعلق رکھنے والے فنکار اغوا ہوسکتے ہیں تو ہم ہندو کیا کریں گے؟ ہم تو بہت کمزور ہیں۔ جگر جلال شکارپور ضلع کی حد سے اغوا ہوئے تھے۔ شکارپور سے منتخب پیپلز پارٹی کے نمائندے اور سابق وزیر امتیاز شیخ نے اپنا موقف پیش کرتے ہوئے کہا کہ جگر جلال اپنے مرضی سے وہاں گئے تھے۔ ہم کوشش کر رہے ہیں کہ وہ جلد از جلد واپس آجائیں۔ اس بات پر کسی نے کوئی اعتراض نہیں کیا۔ سب کو معلوم ہے کہ سندھ میں ڈاکوؤں سے مقامی وڈیروں اور سرداروں کا تعلق رہتا ہے۔ وہ ایک دوسرے کے کام آتے رہتے ہیں۔اس بار بھی یہ کام خاموشی سے ہوجاتا مگر سوشل میڈیا اور ڈی ایس پی راؤ شفیع اللہ کی شہادت نے معاملے کو دوسرا رخ دے دیا۔ پولیس کے لیے اپنے افسر کی شہادت اور سوشل میڈیا پر ان پر تنقید سنجیدہ ایشو بن گیا۔ پولیس نے ڈاکوؤں کے خلاف بڑی کارروائی کرنے کی پلاننگ شروع کی۔ اس دوران اس معاملے نے ایک اور ڈرامائی رخ لے لیا۔ جب سوشل میڈیا پر جگر جلال کا اغوا اور اس ڈی ایس پی کی شہادت کا معاملہ گرم تھا جس نے شہادت سے چند روز قبل پریس کانفرنس کرتے ہوئے مقامی سرداروں کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ وہ ڈاکوؤں کی پشت پناہی کرتے ہیں۔ اگر وہ اپنی حرکتوں سے باز نہ آئے تو انہیں گرفتار کیا جائے گا۔ کہتے ہیںکہ راؤ شفیع اللہ کی شہادت کا سبب ان کی مذکورہ پریس کانفرنس تھی۔ جگر جلال کے اغوا اور ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن کا ڈرامائی پہلو یہ ہے کہ جب سندھ پولیس گرینڈ آپریشن کی تیاریاں کر رہی تھی اس وقت جگر جلال نے ایک سندھی چینل پر فون کرکے اپنے اغوا ہونے کا پورا احوال پیش کیا۔ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی اس فون کا سب سے دلچسپ پہلو یہ تھا کہ جگر جلال نے اپنے خیر خیریت کی خبر دیتے ہوئے کہا کہ وہ وہاں پر ہیں جہاں پولیس تو کیا فوج بھی نہیں پہنچ سکتی۔ اس لیے بہتر یہ ہے کہ ڈاکوؤں کے رشتہ داروں کو گرفتار کرکے ہمیں خطرے میں نہ ڈالا جائے اور مقامی سرداروں سے رابطے بڑھا کر ہماری بازیابی کے راستہ تلاش کیا جائے۔ جگر جلال کی اس کال کے بعد پولیس نے مذکورہ آپریشن کو روک تو دیا مگر اس کے بعد زبان خلق کو روکنے والا کوئی نہ تھا۔ سوشل میڈیا پر یہ تبصرے عام ہوگئے کہ سندھ میں آخر ایسا کون سا مقام ہے جہاں موبائل فون کے سگنلز تو پہنچ سکتے ہیں مگر پولیس اور فوج نہیں پہنچ سکتی۔ اس فون کال کے بعد جگر جلال کا رابطہ میڈیا اور رشتہ داروں سے کٹ چکا ہے۔ مقامی وڈیرے ڈرتے بھی ہیں اور جگر جلال کی بازیابی کے لیے کوشش بھی کرتے ہیں۔ کیوں کہ اس بار ان دونوں کے درمیان ایک فرض شناس پولیس افسر کی لاش پڑی ہوئی ہے۔ اب اس ڈرامائی معاملے کا ڈراپ سین کیا ہوتا ہے؟ سب کی نظریں بار بار اپلوڈ ہونے والے سوشل میڈیا پر ہیں مگر سوشل میڈیا پر صرف یہ سوال گردش نہیں کر رہا کہ جگر جلال کب واپس آئیں گے؟ سوشل میڈیا پر سب سے زیادہ تبصرے اس سوال پر ہو رہے ہیں کہ کیا سندھ میں ایک بار پھر ڈاکو راج واپس آرہا ہے؟ پاکستان کے دوسرے صوبوں کو اس اذیت کا احساس نہیں ہوسکتا جس اذیت سے سندھ 80ء کی دہائی کے آخر میں ڈاکوؤں کے مسئلے سے گزرا۔ یہ وہ دور تھا جب سندھ میں ڈاکو اور ڈاکے اس حد تک بڑھ گئے کہ میڈیا نے ’’سندھ پر ڈاکو راج‘‘ کے الفاظ شائع کرنے شروع کیے تھے۔ یہ وہ دور تھا جب کوئی شخص ڈاکوؤں سے محفوظ نہ تھا۔ اس دور میں شام ہوتے ہی سندھ کے دیہاتوں میں غیر اعلانیہ کرفیو لگ جاتا تھا۔ اس دور میں ڈاکو روڈ بلاک کرتے اور دیدہ دلیری کے ساتھ گاڑیوں کو لوٹ کر کچھ مسافروں کو اپنے ساتھ لے جاتے۔ اس وقت سندھ کے جنگلات مغویوں کی منڈیوں میں تبدیل ہوچکے تھے۔ اس وقت کے سندھ کا تصور کرنا بھی مشکل ہے۔ ڈاکو راج کے دوران سندھ میں پولیس کا کردار مکمل طور پر ختم ہوچکا تھا۔ جب کسی کے اپنے اغوا ہوجاتے تو تھانوں کے بجائے وڈیروں کے ڈیروں پر جاتے اور وہاں پر تاوان کے پیسے طے ہوتے۔ یہ سب کچھ اس قدر عام ہوگیا کہ سندھ کی زراعت اور سندھ کا پورا معاشی ڈھانچہ بیٹھ گیا۔ اس دور میں یہ کافی تھا کہ کسی کے پاس اگر ڈاکوؤں کا خط پہنچا اور اس میں رقم پہنچانے کا حکم لکھا ہوتا تو اس کو اس حکم پر عمل کرنا پڑتا۔سندھ اس مصیبت کو جھیل چکا ہے۔ اس وقت جب جگر جلال اغوا ہوا ہے اور پولیس اس کو بازیاب کروانے میں کامیاب نہیں ہوپائی ہے تب سندھ کے لوگوں کا اس خوف میں آنا فطری ہے کہ کہیں ڈاکو راج واپس تو نہیں آ رہا؟ سندھ کے سنجیدہ افراد کا خیال ہے کہ اس خطرے کو خاطر میں نہ لانا ٹھیک نہیں ہوگا۔ کیوں کہ اس وقت سندھ سیاسی طور پر بہت کمزور ہے۔ یہ دیکھا گیا ہے کہ جب بھی سندھ میں سیاسی ڈھانچہ کمزور ہوتا ہے تو انتظامی ڈھانچہ بھی کمزور ہوجاتا ہے۔ جب انتظامی ڈھانچہ کمزور ہوتا ہے تب سندھ میں مجرم سرگرمیاں بڑھ جاتی ہے۔ سندھ کے سب سے بڑے شہر کراچی نے بہت برے دن دیکھے ہیں۔ اب کراچی پہلے کی نسبت بہت بہتر ہے۔ اب اندرون سندھ کے حالات بگڑ رہے ہیں۔ یہ حالات کس حد تک نیچے جائیں گے؟ کیا یہ حالات اس حد تک نیچے جائیں گے کہ اپنے ساتھ ڈاکو راج کو واپس لائیں گے؟ اس سوال پر سوچ کر سندھ پریشان ہوجاتا ہے۔ کیوں کہ سندھ ’’ڈاکو راج‘‘ سے گزر چکا ہے۔ سندھ کو معلوم ہے کہ ڈاکو راج میں رہنے کی اذیت کس قدر شدید ہے۔