سندھ سیاسی طور پر اس وقت بھی خاموش تھا جب میاں نواز شریف اسلام آباد سے لیکر لاہور تک اس سوال کا چیختا ہوا پرچم لہراتے ہوئے مارچ کر رہے تھے ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ سندھ اس وقت بھی خاموش تھا جب میاں نواز شریف کو کرپشن کیس میں حوالات کے حوالے کیا گیا۔ سندھ اس وقت بھی خاموش تھا جب وہ غم کی تصویر بن کر پیرول پر رہا ہوئے۔ سندھ اس وقت بھی خاموش تھا جب وہ آزاد ہوئے۔ سندھ اس وقت بھی چپ ہے جب میاں شہباز شریف جیل میں ہیں اور میاں نواز شریف نے سخت ترین احتجاج کا اعلان کیا ہے۔ میاں نواز شریف پنجاب میں کون سااحتجاجی طوفان اٹھاتے ہیں؟ اس سوال پر تحریک انصاف کی حکومت اور سیاسی مبصر سنجیدگی سے سوچ رہے ہیں مگر یہ بات طے ہے کہ اگر کوئی احتجاجی تحریک چلی بھی تو سندھ میں ایک پتّاتک نہیں ہلے گا۔ سوال پیدا ہوتا ہے ’’کیوں؟‘‘ کیا سندھ مکمل طور پرعمران خان سے مل چکا ہے؟ جواب ہے ’’نہیں۔‘‘ اگر کوئی یہ سوچتا ہے کہ سندھ آصف زرداری کے اشارے پر چل رہا ہے تو وہ بھی غلط ہے، کیوں کہ سندھ کوئی مناسب نعم البدل نہ ہونے کے باعث پیپلز پارٹی کو ووٹ تو دے سکتا ہے مگر پیپلز پارٹی کے لیے جلتے ہوئے سورج کے تلے احتجاج نہیں کرسکتا۔اگر آصف زرداری سندھ کو احتجاج کی راہ پر لاسکتے تو پھر وہ جعلی اکاؤنٹ کے مقدمے میں سندھ کے عوامی احتجاج کو ایک پریشر کارڈ کے طور پر استعمال کرتے۔ سندھ جب بلاول بھٹو زرداری کی اپیل پرنہیں اٹھ سکتا تو پھر میاں نواز شریف کے کال پر کس طرح احتجاج کرے گا۔ کیا میاں نواز شریف کو اس بات کا احساس ہے کہ سیاسی طور پر بہت متحرک اور باشعور سندھ اس کا ساتھ اس لیے نہیں دے رہا کہ میاں نواز شریف نے گذشتہ دس برسوں کے دوران آصف زرادری سے یاری نبھائی اور سندھ کو مکمل طور پر نظر انداز کیا۔ یہ وہ دور تھا جب کراچی میں آصف زرداری نے ایم کیو ایم کو بوتل میں اتار کر رکھا تھا اور اندرون سندھ کمزور قوم پرستوں کے علاوہ سندھی عوام کے حقوق کے لیے کوئی موثر آواز نہیں گونجی۔ جب میاں نواز شریف ملک کے وزیر اعظم بنے اس وقت سندھ کے دل میں امید پیدا ہوئی کہ اسے زرداری کے ظلم سے نجات ملے گی مگر وہ امید بن کھلے غنچے کی طرح مرجھاگئی۔ سندھ میں مسلم لیگ ن کے رہنما اور کارکن چیختے رہے۔ وہ میاں نواز شریف کو پکارتے رہے مگر میاں نواز شریف نے ایک بار بھی اپنی پارٹی کے عہدیداروں اور کارکنوں کی آواز پر سندھ نہیں آئے۔ سندھ پر کرپشن اور اقربا پروری کے پہاڑ گرائے جاتے رہے۔ سندھ میں جمہوریت کے نام پر ایک ایسی حکومت چلتی رہی جیسی حکومت تاریخ میں بے پرواہ بادشاہ چلایا کرتے تھے۔ سندھ میں غریب اور نادار لوگ چوکیدار اور خاکروب کی ملازمت بھی ماں کی بالیاں بیچ کر حاصل کرتے رہے مگر وفاقی حکومت نے سندھ کے دکھ اور درد کا مداوا کرنے کے بارے میں سوچا تک نہیں۔ کیوں کہ ن لیگ کی حکومت کو عوام سے نہیں بلکہ سندھ کی اس سیاسی جماعت سے عہد نبھانا تھا جس کے معرفت وہ وفاق میں مزے سے حکومت کرتے رہے۔ یہ سب سیاسی تاریخ کی نہایت بھونڈی نورا کشتی تھی۔ قومی اسمبلی سے تحریک انصاف نے بائیکاٹ کر رکھا تھا۔ اس ایوان میں اکثر جماعتیں ن لیگ کی حکومت سے ملی ہوئی تھیں۔ مولانا فضل الرحمن کشمیر کے نام پر سرکاری پروٹوکول کے مزے لیتے رہے۔ عوامی نیشنل پارٹی نواز شریف کا ساتھ نبھاتی رہی۔ محمود اچکزئی اپنی مخصوص شال لہراتے رہے۔ خورشید شاہ پارلیمنٹ کی عظمت کے گن گاتے رہے۔ اس پارلیمنٹ میں ایک بار بھی غریب عوام پر پڑے ہوئے مہنگائی اور مسائل کے بوجھ کے بارے میں کوئی سنجیدہ گفتگو نہیں ہوئی۔ یہ وہ وقت تھا جب خیبر پختون خوا میں تحریک انصاف کی حکومت کو مخالف حکومت سمجھا جا رہا تھا۔ یہ وہ دور تھا جب بلوچستان میں حصہ داری کی حکومت چل رہی تھی۔ یہ وہ دور تھا جب سندھ اپنے تمام وسائل کے باوجود بھوک اور بدحالی کا شکار تھا۔ اس کا سبب صرف صرف یہ تھا کہ پیپلز پارٹی کی حکومت سے کوئی پوچھنے والا نہیں تھا۔ مسلم لیگ ن کے ہونٹ شرمناک سمجھوتے کی سوئی دھاگے سے سلے ہوئے تھے۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کی کرپٹ مافیا فیل مست کے مانند غریب لوگوں کے امیدوں کو مسلسل کچلتی رہی۔ اس دوراں میڈیا میں کچھ آواز ابھرتی اور پھر سندھ حکومت کے انفارمیشن کا محکمہ سرگرم ہوتا اور اشتہاروں سے اس آواز کی دبایا جاتا۔ اس دور میں سندھ سے تعلق رکھنے والے مسلم لیگ ن کے رہنماؤں نے بار بار اسلام آباد اور لاہور کے طرف سفر کئے اور سرکاری مصروفیت کے گھیرے میں گھری ہوئی اپنی قیادت سے مشکل سے ملاقاتیں بھی کیں اور انہیں سمجھانے کی بھرپور کوشش کی کہ سندھ میں پارٹی کو منظم اور مضبوط کرنے کا یہ سب سے بہترین وقت ہے۔ سندھ میں کوئی سیاسی قوت نہیں ہے جو پیپلز پارٹی کی مطلق العنانی کو چیلنج کرے۔ مگر کسی کی کوئی بات نہیں سنی گئی۔ سندھ سے تعلق رکھنے والے متوالوں نے آخر تک کوشش کی مگر پھر وہ سمجھ گئے کہ ان کی قیادت نے سیاسی سمجھوتے کے سبب سندھ کو پیپلز پارٹی کے حوالے کیا ہے۔ ’’اگر آپ سندھ میں نہیں آئے تو پھر ہم اپنا وجود کس طرح قائم رکھیں گے؟‘‘ سندھ سے تعلق رکھنے والے مسلم لیگ ن کے عہدیداروں نے جائز سوال اٹھایا اور ان کا جواب دبے لہجے میں یہ تھا کہ :وفاقی شعبوں میں کام کرنے والے بیوروکریٹس سے فائدے اٹھائیں اور پارٹی کے گن گائیں!! میاں نوازشریف نے مسلم لیگ ن سندھ کو پیپلز پارٹی پر قربان کردیا۔ پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والے سندھ کے رہنما آصف زرداری کے ایک بلاوے پر بلاول بھٹو کے ساتھ تصاویر بنواتے اور پیپلز پارٹی میں شامل ہونے کا اعلان کرتے۔ حکیم بلوچ سے لیکر اسماعیل راہو تک مسلم لیگ نے اپنے سارے وفادار رہنما پیپلز پارٹی کے حوالے کردیے اور جو کارکنوں کو پیپلز پارٹی نے قبول نہیں کیا وہ میاں نواز شریف کی بطور وزیر اعظم کراچی آمد پر ایئر پورٹ آس پاس پارٹی کے جھنڈے لہراتے اور یہ نعرے لگاتے ’’آیا آیا شیر آیا‘‘ سیاست کرنی اور بھرنی کی کہانی ہے۔ کل میاں نواز شریف نے سندھ کو نظر انداز کیا اور آج سندھ میاں نواز شریف کو نظر انداز کر رہا ہے۔ میاں نواز شریف جو کبھی اپنے آپ کو میڈ اِن پاکستان کہا کرتے تھے۔ وہ کبھی یہ دعوے کرتے تھے کہ وہ پورے پاکستان کی عملی علامت ہیں۔ وہ اپنی منفی سوچ اور ذاتی انا کے باعث اس قدر محدود ہوگئے ہیں کہ اب آزاد سیاسی حلقوں میں انہیں پنجابی قوم پرست کے حوالے سے سوچا جاتا ہے۔ یہ کتنی بڑی ناکامی ہے؟ میاں نواز شریف کو اس بات کا احساس تک نہیں۔ سیاست اس وقت شکست کھاتی ہے جس وقت وہ محدود ہوکر سکڑنے لگتی ہے۔ میاں نواز شریف کے نعرے کبھی پورے پاکستان میں گونجتے تھے اور اب وہ پنجاب میں بھی مرکزی پنجاب تک محدود ہوچکے ہیں۔ سندھ میں میاں نواز شریف برائے نام بھی نہیں۔ سندھ میاں نواز شریف سے انتقام نہیں لے رہا۔ سندھ میاں نواز شریف کو اس بات کا احساس دلا رہا ہے کہ وہ کتنے بڑے لیڈر بن گئے تھے اور اب کتنے چھوٹے سیاستدان بنتے جا رہے ہیں!! کیا یہ نقصان صرف میاں نواز شریف کا ہے؟ نہیں یہ پورے ملک کا نقصان ہے۔ مگر میاں نواز شریف پورے ملک کے لیے سوچتے تو آج سیاسی سمندر سے آبِ جو کیوں بنتے!!؟