چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد نے کراچی رجسٹری میں شاہراہ فیصل پر تجاوزات کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دئیے ہیں کہ سندھ میں سکول کی جگہ ہوٹل اور بچوں کے پڑھنے کی جگہ پر گدھے بندھے ہوئے ہیں۔ سندھ حکومت کی کارکردگی کے حوالے سے سپریم کورٹ کا اظہار ناپسندیدگی بگاڑ کا حجم ظاہر کرتا ہے۔ حکومتی کارکردگی کا یہ عالم ہے کہ شہر قائد میں لوگ نہانے دھونے کے لیے بھی پانی خریدنے پر مجبور ہیں ، سرکاری اہلکاروں کی لینڈ مافیاسے ملی بھگت سے شہریوں کا لٹنا روز کی بات ہے۔ لینڈ مافیا تفریحی مقامات ، سکولوں یہاں تک کہ قبرستان کے لیے مختص جگہ پر بھی عمارتیں بنا کر فروخت کر دیتا ہے۔مون سون کے موسم میں کراچی کی گلیاں اور بازار صرف اس لیے ندی نالوں کا منظر پیش کر رہی ہوتی ہیں کیونکہ انتظامیہ کی ملی بھگت سے برساتی نالوں پر گھر تعمیر کر کے فروخت کر دئیے گئے ہیں جبکہ سندھ حکومت کی کارکردگی کا یہ عالم ہے کہ جب سپریم کورٹ نے گجر نالے اور سرکلر ریلوے کی پٹڑی سے تجاوزات ختم کروانے کا حکم جاری کیا تو سندھ کے ایک وزیر نے ناجائز قابضین کے بے گھر ہونے کو جواز بنا کر کارروائی کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ چیف جسٹس کو یہ ریمارکس دینا پڑے کہ پورے ملک میں ترقی ہو رہی ہے سوائے سندھ کے۔ بہتر ہو گا سندھ حکومت سیاسی مفادات سے بالا ہو کر صوبے کے امور قانون کے مطابق چلائے تا کہ عوام کو بروقت سہولیات کی فراہمی کے ساتھ حکومت کی ساکھ بھی بہتر ہو سکے۔