دیہی سندھ کی سیاست نسلی‘ لسانی تشخص کے گرد گھومتی رہی ہے۔ تحریک انصاف کے یہ دعوے کہ وہ آئندہ سندھ میں کامیابی حاصل کرلے گی فی الحال پیپلزپارٹی کے خلاف ایک نفسیاتی جنگ سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے ۔ وفاقی وزراء اور تحریک انصاف کے قائدین آجکل بیان دے رہے ہیں کہ انکی پارٹی تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سندھ میں اگلی صوبائی حکومت پی ٹی آئی بنائے گی۔گزشتہ پچاس برسوں میں اب تک مجموعی طور پر تئیس برس پیپلزپارٹی سندھ صوبائی حکومت پر براجمان رہی ہے۔ گزشتہ تیرہ برس سے مسلسل اسکی حکومت ہے ۔اس سے پہلے تین مختلف مواقع پرمجموعی طور پر دس برس تک صوبائی وزارت ِاعلیٰ پیپلزپارٹی کے پاس رہی۔ ستّر کی دہائی میں ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں پانچ برس ۔ اُنیس سو اٹھاسی سے نوّے تک اور بعد میں انیس سوترانوے سے چھیانوے تک بے نظیربھٹوکے دور میں۔ اسی دوران میں پارٹی نے چار مختلف موقعوں پر پندرہ سولہ برس وفاق میں بھی حکومت کی ہے۔ صوبہ سندھ کی سیاست کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ یہاں قیام پاکستان سے لیکر اب تک سندھی لسانی‘ نسلی تشخص بہت مضبوط رہا ہے۔ پنجاب اور خیبر پختونخواہ کے برعکس سندھی بولنے والی آبادی نے کبھی کسی غیر سندھی لیڈر یا اسکی جماعت کوعام انتخابات میں اکثریتی ووٹ نہیں دیا۔پنجاب نے سندھی سیاستدانوں کی خوب پذیرائی کی۔ لاڑکانہ کے جاگیردارذوالفقار علی بھٹو کو انیس ستّر کے عام انتخابات میں بھاری اکثریت دلوائی جس سے وہ وزیراعظم منتخب ہوئے۔ اُنیس سو پچاسی کے غیر جماعتی الیکشن کے بعد پنجاب سے منتخب ہونیو الے ارکانِ قومی اسمبلی نے اپنا وزن سندھڑی سے تعلق رکھنے والے جاگیردار محمد خان جونیجو کے پلڑے میں ڈال کر انہیں وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر فائز کیا۔ انیس سو اٹھاسی اور ترانوے کے عام انتخابات میں بے نظیر بھٹو کوپنجاب سے اکثریت ملی۔دونوں مرتبہ وہ پنجاب کی حمایت سے وزیراعظم بنیں۔سنہ دو ہزار آٹھ کے عام انتخابات میںبے نظیر بھٹو کے شوہر آصف زرداری کی قیادت میں پنجاب نے پیپلزپارٹی کو اتنی تعداد میںقومی اسمبلی کی نشستیںدلوائیں کہ وہ مرکز میں اپنی چوتھی حکومت بناسکی۔خیبر پختونخواہ میں بھی پیپلزپارٹی کو کئی بار کامیابی ملی۔ اس نے وہاںدو مرتبہ صوبائی وزارت اعلیٰ بھی حاصل کی۔ اسکے برعکس‘اندرون سندھ کے عوام نے کبھی غیر سندھی قیادت کی حامل کسی جماعت کو مینڈیٹ نہیں دیا۔ نواز شریف کی مسلم لیگ ہویا ولی خان کی عوامی نیشنل پارٹی کسی کو بھی دیہی سندھ سے اکثریتی نشستوں پر کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔جن انتخابات میں پیپلزپارٹی کو پنجاب اور خیبر پختونخواہ سے شکست ہوئی جیسے انیس سو ستانوے یا گزشتہ دو عام انتخابات ( 2008,2013) میں دیہی سندھ کی اکثریتی نشستیں پیپلزپارٹی کو حاصل ہوئیں۔ پیپلزپارٹی کہنے کو تو ایک ملک گیر جماعت ہے۔ بے نظیر بھٹو کا سیاسی نعرہ تھا ۔’وفاق کی زنجیر۔ بے نظیر بے نظیر‘ ۔ تاہم پارٹی کو اس بات کا شروع دن سے احساس تھا کہ اسکی حمایت کاٹھوس‘ بنیادی مرکزسندھی عوام ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو بنیادی طور پر ایک سندھی قوم پرست رہنماتھے۔انہوںنے نجی شعبہ کی صنعتیں‘ بینک‘ اسکول‘ کالج قومی ملکیت میں لیے لیکن جاگیردار طبقہ کو ہاتھ نہیں لگایا کیونکہ وہ زیادہ تر سندھی تھا۔ زرعی اصلاحات کیں لیکن اسطرح کہ ان پر مؤثرعمل درآمدنہ ہوسکے۔ تمام صنعتیں ‘ بینک اور تعلیمی ادارے غیر سندھیوں کی ملکیت تھے۔ سندھی ووٹروں کوخوش کرنے کیلیے سندھی زبان کو صوبہ میں سرکاری زبان بنایا گیا اور اسے تعلیمی نصاب میں لازمی قرار دیا گیا۔ صوبہ کی ملازمتوں میں اندرون سندھ کا کوٹہ رائج کیا تاکہ دیہی سندھ کو میرٹ پر غیر سندھیوں سے مقابلہ نہ کرنا پڑے۔ اس پراردو بولنے والی آبادی نے احتجاج کیا۔کراچی اور حیدرآباد میں لسانی فسادات بھی ہوئے۔ انہی اقدامات کے ردّعمل میں مہاجر تشخص پر مبنی ایم کیو ایم کی سیاست نے جنم لیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اقتدارحاصل کرنے کیلیے مہاجر ‘ پنجابی دانشوروں کی مدد سے جنرل ایوب خان کے خلاف تحریک چلائی‘ سیاسی جماعت بنائی لیکن جب حکومت سنبھالی تو چُن چُن کر انہیں پارٹی سے نکالا جیسے جے اے رحیم‘ معراج محمد خان۔مختار رانا۔ حنیف رامے۔ کچھ لوگ انکے تیور دیکھ کر خود کنارہ کش ہوگئے جیسے ڈاکٹر مبشر حسن۔غلام مصطفے کھر ایسا قریبی ساتھی بھی بھٹو کے ساتھ نہ رہ سکا۔ بھٹو نے حزبِ اختلاف سے تعلق رکھنے والے بیشترپنجابی سیاستدانوں مثلاًمسلم لیگی ملک قاسم اور امیر جماعت ِاسلامی میاں طفیل احمدتشدد کا نشانہ بنے۔لیکن کسی سندھی بولنے والے مخالف جاگیردارکو اس سلوک کا نشانہ نہیںبنایا گیا۔ سندھی روایات کے مطابق ان سے جاگیردارانہ وضعداری قائم رکھی گئی۔ جی ایم سیّدہوں یا پیرپگارو۔ذوالفقار علی بھٹو اوربے نظیر بھٹو کی سندھ میں سندھی زبان میں کی گئی تقریروں کا مطالعہ کیا جائے تو صاف پتہ چلتاہے کہ انکا بیانیہ پنجاب میں کی گئی تقریروں کی نسبت بہت مختلف تھا۔ یہ خطابات سندھی قوم پرست بیانیہ پر مشتمل ہوتے تھے۔ یہی سندھ کارڈ بلاول بھٹو زرداری زیادہ کھُل کر اردو تقریروں میں کھیل رہے ہیں۔انہیں معلوم ہے کہ انکی جماعت کی مقبولیت سندھی تعصب اُبھارنے پر قائم ہے۔ جب ملک بھر میں دریائی پانی کی قلت ہوتی ہے تو وہ سندھ کی مظلومیت کا رونا شروع کردیتے ہیںاور وفاق اور بالواسطہ طور پر پنجاب پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ سندھ کا پانی چوری کررہے ہیںجو سراسر غلط ہے۔ جب ملک میں مجموعی طور پر ٹیکس وصولی کم ہو تو اسی تناسب سے ہر صوبہ کو وفاق سے ملنے والے حصّہ میںکمی ہوجاتی ہے۔ یعنی اگر ٹیکس دس فیصد کم وصول ہو تو چاروں صوبوں کے حصّوں میں دس دس فیصد کٹوتی کردی جاتی ہے۔ لیکن بلاول اور انکی پارٹی کے لیڈرز یہ تاثر دیتے ہیں جیسے یہ کٹوتی صرف سندھ کے حصہ میں کی گئی ہے۔ مقصد سندھ میں احساس ِمحرومی پیدا کرکے اپنی سیاست چمکانا ہے۔پیپلزپارٹی سندھ کے جاگیرداروں کا ایک مضبوط گروہ ہے جس نے عوام کے حقوق اورجمہوریت کے نعروں کو بہت مہارت سے استعمال کیا ہے۔ جمہوریت سے وابستگی کا اندازہ اِس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر نے اپنے ادوار میں کبھی بلدیاتی الیکشن نہیں کرائے۔ آصف زرداری کے دور میں ایسا بلدیاتی نظام نافذ کیا گیا ہے جس میںبلدیاتی ادروں کے اکثر و بیشتر اختیارات صوبائی حکومت نے خود سنبھال لیے تاکہ کراچی کی نمائندگی کرنے والے‘ اردو بولنے والے منتخب سیاستدان اقتدار میں شریک نہ ہوسکیں۔ پیپلزپارٹی نے ربع صدی سندھ پر حکومت کی ہے ۔ اپنے منشور پر عمل درآمد کرانے کیلیے یہ خاصی طویل مدت ہے۔ سندھ کی جو ابتر صورتحال ہے کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ میرٹ پر دیکھا جائے تو سندھ کے عوام کوکسی متبادل کو آزمانا چاہیے۔ لیکن اب تک کی تاریخ بتاتی ہے کہ اندرونِ سندھ کی سیاست مکمل طور پر لسانی‘ نسلی تشخص پر مبنی ہے ۔ سندھ کے عوام اپنے جاگیرداروں کے سوا کسی اور پر اعتماد کرنے پر آمادہ نہیں۔ بہرحال‘ عمران خان ایک فائٹر ہیں ۔ ہوسکتا ہے وہ ایک نئی تاریخ رقم کردیں۔