پاکستان میں تبدیلی کے ترانے گائے جا رہے ہیں۔ ان نئے گیتوں کی گونج کراچی کی فضاؤں میں بھی لہرا رہی ہے۔ عمران خان کی صورت ایک نیا دور شروع ہونے کو ہے۔ مگر سیاست کی اسٹیج پر اس بار بھی سندھ کے ہاتھ میں پیپلز پارٹی کا پرانا پرچم ہے۔ سیاسی تجزیہ نگار پریشان ہیںکہ سندھ میں وہ تبدیلی کیوں نہیں آئی جس کی توقع کی جا رہی تھی۔ سندھ میں پیپلز پارٹی سے ہارنے والے اب تک حیران ہیں۔ انہیں اب تک اپنی ہار کا یقین نہیں ہو رہا ۔ سب کا خیال تھا کہ اس بار سندھ پیپلز پارٹی کو تاریخ کے ڈسٹ بین میں پھینک دے گی ۔ سب کہہ رہے تھے کہ پیر پگارا کی سربراہی میں بننے والے سیاسی اتحاد جی ڈی اے کی حکومت بنے گی۔ لوگ تو میڈیا اور ماحول سے اندازہ لگا رہے تھے مگر جی ڈی اے والوں کو تو انتخابات سے بہت پہلے یہ خوشخبری دی گئی تھی وہ سندھ کے وزیر اعلیٰ ہیں‘ وہ کابینہ کا انتخاب ابھی سے کرلیں۔ مگر پچیس جولائی کی رات پیپلز پارٹی والوں کو خوشی اور جی ڈی اے والوں کو غم کی وجہ سے نیند نہیں آئی۔ انتخاب میں ہارنے کے بعد پیر پگارا ابھی تک خاموش ہیں۔ ان کے مرید یہ شکایت کرتے سنے جا رہے ہیں کہ جی ڈی اے کے چکر میں فنگشنل مسلم لیگ کو ان نشستوں پربھی ناکامی نصیب ہوئی جہاں سے انہیں آج تک کوئی نہیں ہارا پایا۔ اگر ذوالفقار مرزا کو معلوم ہوتا کہ جی ڈی اے کا یہ حشر ہوگا تو شاید وہ بھی ناکام بغاوت کا مظاہرہ نہ کرتے۔ ان کی بیگم اور قومی اسمبلی کی سابق اسپیکر فہمیدہ مرزا بدین سے جیت تو گئی ہیں مگر یہ جیت ان کے کس کام کی؟ وہ سندھ اسمبلی میں اپوزیشن کی سیٹوں پر بیٹھ کر اس حکومت کی طرف سے افسوس کے ساتھ دیکھیں گی جس حکومت میں وہ وزیر ہوسکتی تھیں۔ممکن ہے کہ فہمیدہ مرزا سے یہ وعدہ کیا گیا ہو کہ انہیں سندھ کا چیف منسٹر بنایا جائے گا مگر ایک بار پھر وزیراعلیٰ بننے کا دعویٰ کرنے والا ارباب رحیم شکست کھا گیا۔اس بار سندھ میں جی ایم سید کے پوتے اور سندھ یونائٹیڈ پارٹی کے سربراہ جلال محمود شاہ کو یقین تھا کہ اس کی پارٹی کے دس ایم پی ایز اور پانچ ایم این ایز کو اسمبلیوں میں جانے سے کوئی قوت نہیں روک سکتی مگر حالیہ انتخابات میں وہ اپنی سیٹ پر کامیابی حاصل نہ کر پائے۔ جو تجزیہ نگار یہ سمجھ رہے تھے کہ سندھ کے عوام پیپلز پارٹی کو سیاسی سزا دینگے وہ غلط ثابت ہوئے۔ سندھ کے مشہور قومپرست ڈاکٹر قادر مگسی جن کا خیال تھا کہ وہ نواب شاہ سے آصف زرداری کے خلاف انتخاب میں سندھ کا پاپولر ووٹ اٹھائیں گے انہیں ان کے مخالفین کے توقع سے بھی کم ووٹ پڑے۔ حیدرآباد میں سندھی زبان بولنے والوں کے سب سے بڑے علاقے قاسم آباد سے مرحوم رسول بخش پلیجو کے صاحب زادے اور جی ڈی اے کے ترجمان ایاز لطیف پلیجو بھی برے طریقے سے ہار گئے۔ صوبائی اسیملبی کی اسی نشست پر کامیابی کے خواب دیکھنے والے ڈاکٹر قادر مگسی کو صرف گیارہ سو ووٹ ملے۔ سندھی زبان کے سب سے بڑے میڈیا گروپ کے مالک علی قاضی نے اپنے اخبار اور اپنے چینل کی سربراہی کو چھوڑ کر اس امید سے عملی اور انتخابی سیاست میں قدم رکھا تھا کہ وہ بڑے پیمانے پر کامیاب ہونگے مگر ان کی تبدیلی پسند پارٹی سندھ کو تبدیل کرنا تو دور خود ان کو ایک سیٹ سے کامیاب نہ کرپائی۔ حالانکہ حیدرآباد کی دیہی نشست سے انہیں عمران خان کے کہنے پر اس حلقے کے بہت بڑے وڈیرے نے صوبائی نشست سے اپنے بیٹے کو دستبردار کرواکے اپنا سارے ووٹ علی قاضی کو دلوائے مگر میڈیا کی بھرپور سپورٹ کے باوجود علی قاضی اپنے مخالف کے مقابلے میں آدھے ووٹ بھی حاصل نہ کرپائے۔ آپ جانتے ہیں کہ ان کے مدمقابل کون تھا؟ ان کا مقابلہ سندھ میں کرپشن کے حوالے سے سب سے بدنام اسی وجہ سے ابھی تک جیل میں قید سندھ کے سابق وزیر اطلاعات شرجیل میمن سے تھا۔ اس مقابلے میں شرجیل میمن نے علی قاضی کو شکست دی۔ سندھ کے دانشور اور پڑھے لکھے حلقے ایاز پلیجو؛ جلال محمود شاہ؛ علی قاضی اور ایسے مشہور افراد کی شکست پر صدمے سے دوچار ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ سندھ کے لوگ اپنی بہتری کے مخالف ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس بار جب پورا پاکستان تبدیل ہو رہا ہے اس وقت سندھ تبدیل ہونے سے کیوں انکار کر رہا ہے؟ کچھ ادیب اور قلمکار تو یہ کہہ رہے ہیں کہ سندھ کبھی تبدیل نہیں ہوگا۔ ان کا خیال ہے کہ سندھ اس سیاسی اور سماجی غلام کی طرح ہے جس کو اپنے زنجیروں سے محبت ہوجائے۔ اب ان کو اس بات کا یقین ہو چلا ہے کہ سندھ کی کیفیت اس قیدی جیسی ہے جو ایک عمر تک اسیر ہونے کی وجہ سے قید خانے کے بغیر جینے کا تصور نہ کرپائے۔ ان سب کو ایسی باتیں سوچنے کا حق ہے۔ کیوں کہ اگر پیپلز پارٹی کی موجودہ قیادت سے کراچی کا قلعہ لیاری بھی بغاوت کر سکتا ہے اور وہاں سے بلاول بھٹو کو شکست مل سکتی ہے تو پھر اس کھنڈر نما شہر لاڑکانہ کے لوگوں کو کیا ہوا کہ انہوں نے نہ صرف بلاول بھٹو زرداری بلکہ ان کی پھوپھی فریال کو بھی کامیابی سے ہمکنار کردیا۔ کیا سندھ کو پیپلز پارٹی کے ساتھ عشق ہے؟ کیا سندھ کا پیپلز پارٹی کے بغیر گزارہ نہیں ہے؟ اہلیان سندھ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے کہ گزشتہ دس برس سے سندھ پر حکومت کرنے والی پیپلز پارٹی نے سندھ کے لوگوں کے لیے کچھ بھی نہیں کیا مگر اس کے باوجود بھی ہر بار کی طرح اس بار بھی پیپلز پارٹی کا انتخاب کیا۔ سندھ کے عوام کا یہ فیصلہ پیپلز پارٹی کی مخالفت میں سیاست کرنے والوں کو شدید طور پرمایوس کر چکا ہے۔ وہ اس مایوسی سے نجات حاصل کرینگے مگر ان کو کچھ وقت درکار ہوگا۔ اس وقت تو تلخ کیفیت میں یہ سوچ رہے ہیں کہ آخر سندھ کے عوام نے پیپلز پارٹی کو کامیاب کیوں کیا؟ سندھ کے لوگوں پر لبرل اور ترقی پسند دانشوروں کی تنقید اپنی جگہ مگر ان کو اس بات کا احساس ہونا چاہئیے کہ اس بار بھی سیاسی قوتوں نے سندھ کے سامنے ایسا متبادل پیش نہیں کیا جس پر اعتبار کرتے ہوئے وہ پیپلز پارٹی سے اپنا سیاسی تعلق ختم کردیں۔ اگر بات جی ڈی اے کی ہے تو جی ڈی اے میں کون سی ایسی سیاسی قوت تھی جس کا مزاج عوام دوست اور جمہوریت پسند ہو!؟ جی ڈی اے کے سربراہ وہ پیر پگاڑا ہیں جو اکیسویں صدی میں بھی اپنے مریدوں کو سیاسی اور سماجی طور پر آزاد دیکھنا نہیں چاہتے۔ سیاست سے تعلق رکھنے والے پیر پنجاب میں بھی ہیں مگر شاہ محمود قریشی اور یوسف رضا گیلانی جیسے گدی نشین سیاسی طور پر تنقید سننے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ پیر پگارا کے سامنے تو کوئی سندھی صحافی سر اٹھا کر بات نہیں کرسکتا۔ لوگ جانتے ہیں اور اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ جی ڈی اے میں شامل ارباب رحیم کا اسٹائل وڈیروںوالا ہے اور غیر شائستہ گفتگو کی شہرت رکھنے والے ڈاکٹر ذوالفقار مرزا سے بات کون کرسکتا ہے؟ ایسے ماحول میں سندھ کے عوام کے پاس انتخاب کرنے کے لیے کچھ نہیں تھا۔ انہوں نے تیسری بار پیپلز پارٹی کو ووٹ اس لیے نہیں دیا کہ وہ پیپلز پارٹی کے عادی بن چکے ہیں۔ انہوں نے پیپلز پارٹی کو اس لیے منتخب کیا وہ پیپلز پارٹی باقی سیاسی قوتوں کے مقابلے انہیں کم نقصان کار محسوس ہوئے۔ سندھ کے عوام کا یہ اجتماعی فیصلہ بہتر ہے۔ کیوں کہ وہ کم از کم دوبارہ وزیر اعلیٰ مردا علی شاہ کے سامنے چیخ اور چلا تو سکتے ہیں اور ان پر میڈیا میں سخت تنقید تو کرسکتے ہیں۔ اس حقیقت سے ہر کوئی آشنا ہے کہ سندھ میں پیپلز پارٹی کے خلاف آپ جلوس نکال سکتے ہیں اوران کے خلاف سوشل میڈیا پر کچھ بھی لکھ سکتے ہیں مگر پیر پگارا کے خلاف بولنے کے سنگین نتائج سندھ کے لوگوں کو معلوم ہیں۔ سندھ کے لوگ یہ بھی جانتے ہیں کہ وہ اپنے مسائل حل کرنے کے لیے کم از کم پیپلز پارٹی کے سامنے شکایت تو کرسکتے ہیں۔ جب کہ پیر پگارا تو کسی عام آدمی کو ملاقات کا شرف بھی نہیں بخشتا۔ ایسے حالات میں سندھ کے لوگوں کے پاس ایک بار پھر پیپلز پارٹی کے انتخاب کے علاوہ اور کیا راستہ تھا؟