تحریک انصاف کی حکومت اٹھارہویں ترمیم کو وفاق پر ایک بوجھ سمجھتی ہے اور اسے ناک کا مسئلہ بنا لیا ہے۔جب سے تحریک انصاف برسراقتدار آئی ہے اٹھارہویں ترمیم سندھ اور وفاقی حکومت کے درمیان نزاع کا سبب بنی ہوئی ہے۔سندھ اور وفاق کے درمیان سواسال سے ایک جنگ کی سی کیفیت ہے ،معاملات اس حد تک بگڑ چکے ہیں کہ وزیراعظم عمران خان جب بھی کراچی آتے ہیں، وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کو وزیراعظم سے ملاقات سے محروم رکھا جاتا ہے،کہا جاتا ہے کہ وزیراعظم سے ملاقات کے لئے کسی وزیراعلیٰ کو دعوت نامہ بھجوانے کی ضرورت نہیں ہے ۔ کبھی کبھی صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی وجہ سے وزیراعلیٰ ہائوس اور گورنر ہائوس کے درمیان دوریاں ایک حدتک گھٹتی ہیں مگر کراچی سے تعلق رکھنے والے طاقتور وفاقی وزراجلتی پر تیل چھڑک کر سیاسی آتش کو سواکر دیتے ہیں۔اب سندھ حکومت نے وفاق کی جانب سے صوبائی معاملات میں مبینہ مداخلت کو عدالت میںچیلنج کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے، اس کاعندیہ تو وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے منگل کے روز ہی دے دیا تھا کہ جب ہماری عارف نظامی صاحب کی قیادت میں متعدد سینئر مدیروں کے ہمراہ ان سے تفصیلی نشست ہوئی تھی۔ ڈیڑھ گھنٹے پر محیط اس ملاقات میںانہوں نے نیب کے شکنجے اوراپنی گرفتاری کے خدشات سمیت مختلف امورپرکھل کر باتیں کیں، خاص طور پر وہ وزیراعظم عمران خان کے طرزعمل سے خاصے شاکی نظر آئے اور کہا کہ وزیراعظم کا ایک منتخب وزیراعلیٰ سے رویہ ناقابل فہم ہے، اس ملاقات میں صوبائی وزیر اطلاعات سعید غنی اور سندھ حکومت کے ترجمان بیرسٹر مرتضیٰ وہاب بھی موجود تھے جو مختلف امور پرگفتگومیں ان کی معاونت کرتے رہے۔ سید مراد علی شاہ تحریک انصاف کی ناانصافیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے زیرلب مسکراتے رہے اورکہا کہ یہ انگریزوں کا دور نہیں ہے کہ آپ ایک صوبے کو ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرز پر کوئی لمیٹڈ کمپنی بنا کر چلا لیں ،آئین کی موجودگی میں ایسا ممکن ہی نہیں ہے ۔ ان کاخیال تھا کہ وفاقی حکومت اہل کراچی کی آنکھوں میں دھول جھونک رہی ہے،کراچی کے لئے وزیراعظم نے 162ارب روپے دینے کا اعلان کیا لیکن اب تک کراچی پر پھوٹی کوڑی بھی خرچ نہیں ہوئی ہے ۔سید مراد علی شاہ کا موقف ہے کہ ہم کراچی میں وفاقی حکومت کے منصوبوں کے خلاف نہیں ہیں لیکن تحریک انصاف غیرآئینی طریقے سے سندھ فتح کرنا چاہتی ہے جو کسی صورت میں ممکن نہیں ہے۔ سید مراد علی شاہ نے اٹھارہویں ترمیم کے حوالے سے بھی سندھ کے تحفظات کا اظہار کیا اور کہا کہ اٹھارہویں ترمیم صرف اس لئے تحریک انصاف کا ہدف ہے کہ وہ صوبائی خودمختاری کے خلاف ہے اور اس ترمیم کو ختم کرکے کسی نہ کسی طرح صوبوں کے اختیارات کم کرنا چاہتی ہے جسے ہم آئین میں دی گئی صوبائی خود مختاری پر حملہ تصور کرتے ہیں۔ شاہ صاحب نے کراچی سے تعلق رکھنے والے ایک وفاقی وزیر کا نام لئے بغیر کہا کہ وہ وزیراعظم کو نت نئی قانونی پٹیاں پڑھا کرملک کو آئینی بحران کی طرف دھکیل رہے ہیں جو خطرناک کھیل ہے، اس عمل کے خلاف انہوں نے عدالتی چارہ جوئی کا اشارہ بھی دیا تھا ۔سندھ حکومت کو خدشہ ہے کہ صوبائی خود مختاری سے متعلق کئی اہم قوانین اورآئینی شقوں کوصدارتی آرڈیننس کے ذریعہ تبدیل کرکے وفاقی حکومت سندھ حکومت کے اختیارات محدود کرنا چاہتی ہے۔اس خدشہ پروفاق اورسندھ حکومت کے مابین بڑھتی ہوئی محاذآرائی کہاں جاکررکے گی، یہ کہنا تو قبل ازوقت ہوگا تاہم سندھ حکومت نے وفاقی حکومت کے اس اقدام کے خلاف بند باندھنے کا فیصلہ کیاہے۔وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے نیب آرڈیننس کے تحت جیل مینوئل میں ترامیم کو چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے اورکہا ہے کہ جیل مینوئل صوبائی معاملہ ہے، وفاقی حکومت صوبائی خود مختاری میں مداخلت کررہی ہے۔انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت نے قومی احتساب آرڈیننس 1999 ء میں ترمیم کر کے 50 ملین روپے تک خوردبرد یا غبن کرنے والے ملزم کو جیل میں سی کلاس کی سہولت دینے کی منظوری دی،یہ خالصتاجیل مینوئل کا معاملہ ہے اور وفاقی حکومت اس طرح کی ترمیم کرنے کی مجاز نہیں ہے۔وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا کہ وفاقی حکومت نے آرڈیننس میں دفعہ 10 شامل کی ہے جس کے تحت وہ ملزم جس نے 50 ملین روپے تک کا غبن کیا ہو اسے جیل میں سی کلاس کی سہولت دی جائے گی۔ ایک سوال کے جواب میں مراد علی شاہ نے کہا کہ وفاقی حکومت متعدد بار یہ بات کہہ چکی ہے کہ 18ویں آئینی ترمیم کوئی آسمانی صحیفہ نہیں ہے کہ اس میں ترمیم نہ ہوسکے۔ میں انہیں بتانا چاہتا ہوں کہ آپ ضرور ترمیم کرسکتے ہیں مگر یہ ترمیم صوبوں کو مزید اختیارات دینے کے لیے ہوسکتی ہے مگر وفاق کو اسے ختم کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ سندھ حکومت کے ترجمان بیرسٹر مرتضیٰ وہاب نے بھی تصدیق کی ہے کہ سندھ حکومت نے صوبائی معاملات میں وفاقی حکومت کی مداخلت کو عدالت میںچیلنج کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔وفاقی حکومت نے آرڈیننس کے اجراء کے ذریعے صوبائی معاملات میں مداخلت کی اور ایسا کرنا اٹھارویں آئینی ترمیم کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔سندھ کو یہ بھی خدشہ ہے کہ جس طرح پی ایم ڈی سی کی تحلیل صوبوں کی مشاورت کے بغیر کی گئی اور دیگر آرڈیننس کے اجراء سے بھی وفاقی حکومت نے اپنے دائرہ کار سے تجاوز کیا۔ سندھ اور وفاق کی سیاسی لڑائی اب عدالتی جنگ میں تبدیل ہونے جا رہی ہے، اس کے جو بھی نتائج برآمد ہوں اس سے قطع نظر سندھ اور وفاقی حکومت کی یہ کشمکش وفاق کی چولیں ہلانے کا سبب بنے گی۔ سیاسی فتح وشکست کی دوڑ میں ہم اس ملک اور اس کے عوام کا بہت نقصان کرچکے ہیں، اب یہ ملک کسی نئی سیاسی کشمکش کا متحمل نہیں ہو سکتا ۔سندھ اور وفاقی حکومت میں عدالتی جنگ کے لئے یہ موقع مناسب نہیں ہے، تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی ایک دوسرے کے مینڈیٹ کو دل سے تسلیم کریں،عمران خان ملک کے وزیراعظم ہیں وہ پہلا قدم خود اٹھائیں۔ وہ اس بار کراچی آئیں تو سید مراد علی شاہ سے مل بیٹھیں ،ملاقات ہوگی اور مکالمہ ہوگا تو چیزیں درست سمت میں چل پڑیں گی۔اس میں ہی سندھ اور وفاق کی بہتری مضمر ہے، سندھ وزیراعظم کی پیش رفت کا منتظرہے ۔