مجھ سے مت کہہ تو ہمیں کہتا تھا اپنی زندگی زندگی سے بھی مرا جی ان دنوں بیزار ہے غالب کے اس شعر کی مانند سندھ کا متوسط طبقہ آج کل پیپلز پارٹی کی مخالفت میں کسی بھی حد تک جانے کے لیے تیار نظر آ رہا ہے۔ وہ پیپلز پارٹی جس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ ’’اگر پورے پاکستان نے بھی اس پارٹی سے علیحدگی اختیار کرلی تب بھی سندھ مذکورہ پارٹی کے ساتھ جڑارہے گا‘‘ مگر اس بار تو ہمیں پیپلز پارٹی کے سلسلے میں شیخ ایاز کی یہ بات درست ہوتی نظر آ رہی ہے کہ : ’’میں نے اس کے کان میں چپکے سے کہا کہ ہاں عشق بھی مر جاتا ہے‘‘ پیپلز پارٹی پیدا تو پنجاب میں ہوئی مگر اس کے ساتھ سندھ نے ایسی محبت کی جیسی محبت داستانوں میں بیان کی جاتی ہے۔ضیاء کی آمریت جس پارٹی کو اہلیان سندھ کے دل سے نہ اکھاڑ سکی وہ محبت آج کل آصف علی زرداری اینڈ کمپنی کے خلاف منتشر تحریک کی صورت اختیار کرتی جا رہی ہے۔ حالانکہ سندھ نے پیپلز پارٹی کے لیے زخمی ہونٹوں سے یہ نعرہ بھی لگایا ’’سب پر بھاری زرداری‘‘ مگر جب سوال سندھ کی بقا کا آیا تب اہلیان سندھ پیپلز پارٹی کے خلاف پرچم بغاوت اٹھانے کے لیے تیار ہوگئے ہیں۔بھٹو کے بعد پیپلز پارٹی نے سندھ کے ساتھ سیاست کی مگر سندھ پھر بھی پیپلز پارٹی کے ساتھ محبت کرتا رہا اور ایسی محبت کرتا رہا ؛ جیسی محبت کے لیے داغستان کے عوامی شاعر رسول حمزہ توف نے لکھا ہے: ’’اگر پوری دنیا تم سے محبت کرتی ہے۔ تو یقین کرنااس میں ایک رسول حمزہ توف بھی ہے اگر آدھی دنیا تم سے محبت کرے تو سمجھنا اس میں ایک رسول حمزہ توف بھی ہے اگر چند لوگ تم سے محبت کریں تو سمجھنا ان میں رسول حمزہ توف بھی ہے اگر دنیا میں صرف ایک انسان تم سے محبت کرے تو جان لینا کہ وہ انسان رسول حمزہ توف ہے اگر پوری دنیا میں تم سے کوئی محبت نہ کرے تو سمجھ لینا کہ رسول حمزہ توف اب دنیا میں نہیں رہا‘‘ ایسی محبت کی ہے سندھ نے اس پیپلز پارٹی سے۔ جس پیپلز پارٹی کے خلاف سندھ میں نفرت کا آتش فشاں لاوا اگل رہا ہے۔ اب اہلیان سندھ نہ صرف پیپلز پارٹی کے خلاف نئے نعرے اور نئے ترانے تخلیق کر رہے ہیں مگر جو ادیب اور شاعر بھی پیپلز پارٹی کے لیے اپنی تحریر میں نرم گوشہ رکھتے ہیں؛ سندھ کے لوگ اس کی مخالفت کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ اس کی بڑی مثال مشہور ڈرامہ نویس اور ادیبہ نورالہدی شاہ ہیں۔ نورالہدی شاہ پر سندھ کو نہ صرف فخر رہا ہے بلکہ سندھ نے ان کی تحریوں کو پڑھ کر چوما ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کی آواز کو سندھ اپنی آواز سمجھتا ہے مگر اس بار جب نورالہدی شاہ نے پیپلز پارٹی کی ذرا سی حمایت کی تو ان کے سندھی پرستار ان سے اس قدر ناراض ہوگئے کہ اب ان کی منتوں کو بھی نہیں مان رہے۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کی گرتی ہوئی مقبولیت کو دیکھ کر بہت سارے ایم پی ایز؛ ایم این ایز اور وزراء نے بھی اپنے ہونٹوں میں خاموشی کی مہر ثبت کردی ہے۔ پیپلز پارٹی کے ان نمائندوں نے بلاول بھٹو کی آڑ لے رکھی تھی مگر اس بار بدین ضلع میں سندھ کے صحافیوں نے بلاول کو بھی آڑے ہاتھوں لیا اور ان کا لہجہ سن کر بلاول بوکھلا گئے۔ انہوں نے وزیر آب پاشی سہیل انور سیال کو آگے کیا اور اعلانیہ کہا کہ اگر انہوں نے سندھ میں پانی کی چوری نہ روکی وہ وزیر نہیں رہیں گے۔ حقیت بہت تلخ ہے۔ اس وقت سندھ میں پانی کی چوری بھی ہو رہی ہے اور وہ صاحب وزیر بھی ہیں اور سوشل میڈیا پر وہ وڈیوز وائرل ہو رہی ہیں جن میں دکھایا جا رہا ہے کہ کس طرح پیپلز پارٹی کے وڈیرے سندھ کے غریب کسانوں اور چھوٹے آبادگاروں کے پانی پر ڈاکے ڈال رہے ہیں۔ اس صورتحال پر سندھ کے لوگ سوشل میڈیا پر ایسے لطیفے بھی لکھ رہے ہیں کہ: ’’بلاول بھٹو زرداری سندھ کے ایگ گاؤں میں گیا اور انہوں نے کہا کہ آپ لوگوں کے کون سے مسائل ہیں؟ ایک غریب شخص کھڑا ہوگیا اور اس نے کہا کہ سائیں! ویسے تو ہمارے مسائل بہت سارے ہیں مگر اس گاؤں میں دو مسئلے شدید ہیں۔ بلاول نے کہا کہ کون سے مسئلے؟ اس شخص نے کہا کہ ایک تو ہمارے گاؤں میں ہسپتال ہے مگر وہاں کوئی ڈاکٹر نہیں آتا۔ یہ سن کر بلاول نے اپنی جیب سے موبائل فون نکالا؛ ایک نمبر ڈائل کیا اور کچھ انگریزی میں گفتگو کی اور بعد میں اس فریادی شخص سے کہا کہ کل سے ڈاکٹر ہسپتال میں موجود ہوگا۔ اب دوسرا مسئلہ بتاؤ۔ فریادی شخص نے ادب کے ساتھ دونوں ہاتھ باندھ کر کہا کہ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ اس گاؤں میں موبائل کے سگنل نہیں آتے‘‘جب سندھ میں پیپلز پارٹی کی قیادت پر تنقید میں ایسی تلخی ہو تو پھر پارٹی کے محفوظ مستقبل پر اندیشوں کا پیدا ہونا بہت فطری بات ہے۔ سندھ نے پیپلز پارٹی کے ساتھ غیرمشروط محبت کی ہے مگر اب محبت میں سچائی کی شرط نے بنیادی نوعیت اختیار کرلی ہے۔ پیپلز پارٹی کے پاس اب بھی وڈیرے ہیں مگر وہ وڈیرے بھی پیپلز پارٹی کے ساتھ اس لیے رہے ہیں کہ پیپلز پارٹی کو سندھ کے عوام کی بھرپور حمایت رہی ہے۔ سندھ کے عوام کی وہ حمایت نہ صرف کم ہو رہی ہے بلکہ شدت کے ساتھ کم ہو رہی ہے۔ پیپلز پارٹی اب پریشانی کے عالم میں ہے۔ وہ پارٹی جس کو اس بات کا یقین تھا کہ چاہے کچھ بھی ہوجائے مگر سندھ کے عوام پیپلز پارٹی کاساتھ کسی صورت میں نہیں چھوڑیں گے؛ اس کا اپنا یقین شک میں تبدیل ہو رہا ہے۔ سندھ کے سیاسی آسمان پر پیپلز پارٹی کا سورج برسوں سے چمکتا اور دمکتا رہا ہے۔ مگر اب وہ سورج تھکا تھکا سا دکھائی دے رہا ہے ۔ جس طرح دن کی دھوپ اپنے آفتاب کے ساتھ مغرب کی طرف جاتی نظر آتی ہے؛ اس طرح پیپلزپارٹی کی حمایت کا سورج بھی غروب ہونے کی تیاری کرتا نظر آ رہا ہے۔ ہر عروج کا زوال قدرت کے قانون میں لکھا ہوا ہے اور اب اس قانون کی تلوار پیپلز پارٹی کا پتہ پوچھتی پھر رہی ہے۔ پیپلزپارٹی کے حامی دانشور اب بھی اس امید سے ہیں کہ پیپلز پارٹی بحرانوں کا سامنا کرتی رہی ہے۔ اس لیے یہ بحران بھی ٹل جائے گا۔ مگر وہ یہ بات سمجھنے سے قاصر ہیں کہ حکومتی یا ریاستی بحران الگ چیز ہے؛ جب کہ عوامی حمایت کا بحران الگ نوعیت کا ہوتا ہے۔ پیپلز پارٹی نے جس سرزمین پر جنم لیا پنجاب کی اس سرزمین سے جب پیپلز پارٹی کی عوامی حمایت کا صفایا ہوسکتا ہے تو پھر سندھ میں کیوں نہیں ہو سکتا؟ اس سوال کا جواب اس پارٹی کے پاس نہیں ہے جو حکومت میں ہوتے ہوئے بھی دن بدن عوامی حمایت سے محروم ہوتی جا رہی ہے۔پیپلز پارٹی کے بارے یہ تصور بھی نہیں کیا جا سکتاتھا کہ ایک ایسا دن بھی آئے گا؛ جب وہ سندھ کی دھرتی پر اس قدر تنہائی کا شکار ہوجائے گی اور اس کی صورت گرتی ہوئی دیوار کی طرح نظر آئے گی۔