’’آپ نے یاد دلایا تو مجھے یاد آیا‘‘ کے مصداق محترم محمد عامر خاکوانی کا کالم گزشتہ روز ’’تاریخ انسانی کا عظیم ترین ناول‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا۔ جسے پڑھ کر بہت لطف آیا یہ بھی بتاتا چلوں کہ حال ہی میں میرے پاس ناول کی ایک کتاب سندھ سے آئی ہے۔ ناول کا نام ’’بغاوت تک‘‘ ہے اور اسے سندھی ادب کے معروف لکھاری عبدالمومن میمن نے تصنیف کیا ہے۔ یہ ناول اردو زبان میں دراصل ایک مضطرب نوجوان کی زمینی خدائوں سے بغاوت کی داستان ہے جو اپنی دھرتی سے شدید محبت کرتا ہے۔ ناول کا انتساب محترمہ بینظیر بھٹو کے نام ہے اور انتساب کے ساتھ فارسی کا شعر گریزد از صفِ ما ہر کہ مردِ غوغا نیست کسے کہ کشتہ نہ شد از قبیلہ مانیست یعنی ہر وہ کہ جو ظلم کے خلاف احتجاج اور فریاد کرنے کی ہمت نہیں رکھتا ہماری صفوں سے چلا جائے کہ جو جان نہ دے وہ ہمارے قبیلے میں سے نہیں ہے۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ نثری اصناف میں سے ناول کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ لفظ ناول لاطینی زبان سے فرانسیسی زبان سے آیا۔ پھر انگریزی میں آیا اور اب دنیا کی تقریباً تمام زبانوں میں استعمال ہو رہا ہے۔ ڈاکٹر اسلم آزاد لکھتے ہیں کہ ناول دراصل اطالوی (Italian)زبان کے لفظ (Novela) سے مشتق ہے۔ ناول دراصل طویل قصے کا نام ہے جس میں مختلف شعبہ ہائے زندگی کی تصویر پیش کی جاتی ہے۔ ناول کا آغاز اُس وقت سے ہوا جب سماج نے ترقی کر لی۔ یورپ کا پہلا ناول نگار سپین کے ادیب سروانٹیز کو سمجھا جاتا ہے۔ اُس کے ناول کا نام (Don Quizote) ہے۔ ناول دراصل ایک کہانی ہے جس کا مقصد کسی بھی واقعہ کی لفظوں کی زبان میں منظر کشی کرکے اخلاقیات کو عام کرنا ہے۔ جیسا کہ پوری کائنات ایک کہانی ہے اسی کہانی کے کسی ایک جزو کو بیان کرنے والے کو ناول نگار کہا جاتا ہے۔ بلا شبہ عبدالمومن میمن نے اپنے ناول میں اپنی ماں دھرتی سندھ کے حوالے سے ایک کہانی بیان کی ہے جو کہ کہانی پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ کہانی بظاہر ایک مضطرب نوجوان کی کہانی ہے جو دھرتی کے خدائوں سے بغاوت کرتا ہے مگر اس کہانی میں سندھ وادی کی تہذیب و ثقافت کی جھلک بدرجہ اتم موجود ہے۔ لاہور کے معروف رائٹر امجد علی شاکر نے بجا طور لکھا کہ ناول کا مرکزی کردار فکر و نظر کا سفر کرتے ہوئے آخر کو منطق الطیر کے سیمرغ کی طرح اپنے اندر ہی اسے پا لیتا ہے۔ وہ اپنے گھر میں عبید اللہ سندھی کی کتاب دیکھتا ہے، پڑھتا ہے، وہ جان لیتا ہے کہ بوٹا سنگھ نے غلامی اور شرک سے انکار کیا اور عبداللہ بن گیا۔ وہ بغاوت اور آزادی کے سفر پر نکلا اور آخر کو آزادی کے اس سفر میں جان ہار گیا۔ ناول کا مرکزی کردار عبید اللہ سے روشنی پاتا ہے۔ وہ وضو کرتا ہے، بار بار وضو کرتا ہے اور تہیہ کرتا ہے کہ وہ خود کو شرک اور نجاست سے پاک رکھے گا اور دھرتی کو ظلم سے پاک رکھے گا۔ وہ اپنی ذات میں مقدس لوگوں کی برتری اور زمین زاد لوگوں پر ان کی حکومت سے اعلان بغاوت کرتا ہے۔ مولانا عبید اللہ سندھی کا ذکر آیا ہے تو یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ تحریک آزادی کا یہ عظیم ہیرو پنجاب کے ضلع سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ سندھ کے علاقہ بھرچونڈھی شریف کے مرشد حضرت مولانا حافظ محمد صدیق کے دست بیعت ہوئے، سرائیکی وسیب کو تحریک آزادی کا مرکز بنایا۔ درگاہ عالیہ دین پور شریف خان پور سے ریشمی رمال تحریک شروع ہوئی اور دین پور شریف میں ہی مولانا عبید اللہ سندھی آسودہ خاک ہیں۔ اردو ناول بغاوت تک، کا مرکزی کردار ایک مضطرب نوجوان ہے جس کا نام لباب ہے۔ لباب کہتا ہے کہ اگر انسان کے سامنے واضح نصب العین ہو تو اس سے انسان کی عظمت کو معنویت مل جاتی ہے۔ نصب العین ہی وہ چیز ہے جو انسان کو عام زندگی سے خاص زندگی کیلئے جینے کا ڈھنگ سکھاتا ہے۔ ناول کے صفحہ 112 کا ایک پیرا گراف دیکھئے ’’آپ نے پوچھا تھا کہ خدا اپنی بعض مخلوق کو معذور کیوں پیدا کرتا ہے؟‘‘ لباب نے اپنی بات کے تسلسل میں نوجوانوں کے ایک اور سوال کی طرف انہیں متوجہ کیا۔ نوجوانوں کے چہروں پر اب بشاشت کے آثار تھے۔ گفتگو کے آغاز میں ان کا لہجہ شدید تلخی میں گھلا ہوا تھا، اب فضا میں کسی قدر ہم آہنگی در آئی تھی اور مذہب کے متعلق ان کی پریشان فکری، قدرے اطمینان میں بدل گئی تھی۔ ان کا ذہنی خلفشار بھی اب بڑی حد تک کم ہو چکا تھا۔ لباب فکری سیرابی کے لیے زمین ہموار دیکھ کر اپنی بات جاری رکھتے ہوئے گویا ہوا:رب ذوالجلال نے نوعِ آدم کو علم و شعور اور آگہی کی نعمتوں سے نواز رکھا ہے۔ اس نے بنی آدم کے ہر قوم قبیلے کو اپنی اپنی دھرتی پر بحروبر اور فضا میں خزانے اور لامحدود وستعیں عطا کر دی ہیں۔ ناول میں سندھ کے حالات کی منظر کشی واضح نظر آتی ہے۔ سندھ کے صوفیانہ مزاج کے ساتھ ساتھ وڈیروں کا جبر بھی موجود ہے۔ سندھ کی معروف رائٹر مہتاب اکبر راشدی نے بجا طور لکھا کہ ناول ’’بغاوت تک‘‘ ایک بے حد حساس اورمضطرب نوجوان لباب کی کہانی ہے جو اپنی دھرتی سے شدید محبت کرتا ہے۔ یہ دھرتی سندھ ہے جس کی قدیم ثقافت کی آگہی کا فخر اُسے ورثہ میں ملا ہے۔ اس فخر میں وہ اس کا تعلیم و تربیت سے حاصل ادراک بھی شامل ہے جو والد کے زیر سایہ اسے حاصل ہوا ہے۔ رکن سندھ اسمبلی محترمہ غزالہ سیال کہتی ہیں کہ مومن کے ناول میں مار کسی نظریات کے ساتھ ساتھ صوفیانہ مزاج کی جھلک بھی نظر آتی ہے۔ یہ صرف ایک کہانی ہی نہیں ہے بلکہ عمل کی ترغیب بھی دیتی ہے۔ پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے رکن سندھ اسمبلی راجہ اظفر کہتے ہیں کہ آج کے دور کی جو تصویر عبدالمومن صاحب نے کھینچی ہے وہ بہت بہترین ہے چاہے وہ ایوانوں میں بیٹھنے والے بڑے بڑے وزراء اور امراء ہوں جو اختیارات ہونے کے باوجود بھی عوام کیلئے کچھ نہیں کرتے کیوں کہ وہ چاہتے ہی نہیں کہ عوام ان کی غلامی سے نکلے۔