اپریل کا مہینہ اس بار سندھ پر کچھ مہربان ہوا ہے ورنہ یہ وہ دن ہوتے ہیں جب دھرتی آگ اگلتی ہے اور آسمان سے آگ برستی ہے۔ یہ وہ دن ہوتے ہیں جب گرمی کا گراف اوپر اٹھنے لگتا ہے۔ مگر یہ ہی تو موسم ہے جس میں لوگ مست ہوکر سیہون کی اس دھرتی پر دھمال ڈالنے کے لیے آتے ہیں؛ جو دھرتی انگاروں سے دہکتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ یہ لوگوں کی عقیدت اور محبت ہے جوانہیں نہ صرف سندھ بلکہ پورے ملک سے کھینچ لاتی ہے۔ وہ لوگ سیہون تک سفر اور قلندر شہباز کی نگری میں قیام کے دوران آنے والی تکالیف کی پرواہ نہیں کرتے۔ وہ کبھی اپنے منہ سے یہ شکایت نہیں کرتے کہ انہیں صاف پانی اور سایہ تک میسر نہیں۔ وہ اس شکایت کو اپنی عقیدت اور محبت کے خلاف سمجھتے ہیں۔ یہ عام لوگوں کا کردار ہے مگر حکومت وقت کا بھی تو اس ضمن میں کوئی کردار ہونا چاہئیے۔ 18ویں ترمیم کا تحفظ کرنے کے لیے ہر حد تک جانے کے نعرے لگانے والی سندھ حکومت کو یہ خیال کیوں نہیں آتا کہ انہیں عوام کی سہولیات کے لیے کچھ کرنا چاہئیے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت کو سندھ میں گیارہ برس گزرنے کو ہیں۔ سندھ کے سابق وزیر اعلیٰ سید عبداللہ شاہ کا بیٹا مراد علی شاہ دوسری بار سندھ کی وزارت اعلیٰ کی کرسی پر براجمان ہے۔ وہ آصف زرداری کی امپائر کو بڑھانے اور اومنی گروپ کے اکاؤنٹ بھرنے کے لیے تو قانون کو پیروں تلے روندنے سے گریز نہیں کرتا مگر عوام کی سہولت کے لیے ان سے ایک کام تک نہیں ہوتا۔ سندھ تو بہت بڑا صوبہ ہے۔ سندھ صرف کراچی سے لیکر کشمور تک بنے ہوئے روڈ تک محدود نہیں۔ سندھ بہت بڑا ہے۔ سندھ میں تھر کا وہ صحرا بھی ہے جہاں اب تک بچے بھوک سے مرجاتے ہیں۔ سندھ وہ کاچھو بھی ہے جہاں لوگ پانی کی ایک ایک بوند کو ترستے ہیں۔ سندھ بہت بڑا ہے مگر سیہون تو اتنا بڑا نہیں کہ اس پر اربوں روپے خرچ آئیں۔ سیہون میں قلندر لعل شہباز کے زائرین کی سہولت کے لیے حکومت سندھ کیا کچھ نہیں کرسکتی؟ خاص طور پر جب قلندر کی نگری چیف منسٹر کا حلقہ انتخاب بھی ہو۔ سندھ کے چیف منسٹر مراد علی شاہ کا گاؤں سیہون سے دس منٹ کی ڈرائیو پر ہے مگر آج تک انہوں نے قلندر شہباز کے مزار پر آنے والے زائرین کو سکھ اور سہولت دینے کے لیے کچھ نہیں کیا۔سندھ کے لوگوں نے تو قلندر شہباز کی مزار میں ہونے والے بم دھماکے کے بعد پیش آنے والے حالات کو اب تک فراموش نہیں کیا۔ وہ مراد علی شاہ کی حکومت تھی جب خودکش بم دھماکے میں شدید زخمی ہونے والے زائرین مزار کے فرش پر تڑپ رہے تھے مگر ان کے لیے وزیراعلیٰ کے حلقے میں ایمبولنس نہیں تھیں جو ان کو ہسپتال تک پہنچائے ۔ میڈیا کے ریکارڈ پر ہے کہ اس دوران یہ بھی لکھا گیا تھا کہ اگر ایمبولنس کی سہولت ہوتی تب بھی زخمیوں کو بچانا محال تھا۔ کیوںکہ سیہون میں ایک بھی ڈھنگ کا ہسپتال نہیں تھا جو اتنے بڑے سانحے کو سنبھال سکے۔ اس طرح قلندر لعل شہباز کے مزار کے سائے میں بم دھماکے کے باعث زخمی ہونے والے تڑپ تڑپ کر مرگئے ۔ اس دھماکے کے باعث لوگوں کے جسم کے چیتھڑے اڑ کر دور دور گرے تھے اور وہاں کی انتظامیہ نے انہیں ایک جگہ جمع کرنے کے بجائے نالوں اور گٹروں میں بہا دیا۔ لوگوں کی افسوس سی بھری آنکھوں نے یہ مناظر بھی دیکھے تھے کہ سیہون کی دھرتی پر بم دھماکے کے بعد مرجانے والے لوگوں کے گوشت کے ٹکڑے بھوکے کتوں کے منہ میں تھے۔ جب سفاکی کی سطح ایسی ہو تو پھرہم اس حکومت سے قلندر لعل شہباز کے زائرین کی سہولت کے لیے کیا مطالبہ کرسکتے ہیں؟حالانکہ برسوں سے انڈس ہائی وے نامی روڈ پر ٹریفک کے مناسب انتظامات نہ ہونے کے باعث بہت سارے حادثات ہوتے ہیں۔ لوگوں گرمی کی شدت سے قریب بہتے ہوئے دریائے سندھ میں نہاتے ہوئے ڈوب جاتے ہیں۔ سیہون میں جب قلندر شہباز کا میلہ لگتا ہے تو خوردو نوش کی ناقص اشیاء کے منہ مانگے دام لیے جاتے ہیں۔ قلندر کی نگری میں میلے کے تین دنوں تک بیوپاری اور دوکاندار زائرین کو لوٹتے ہیں ۔ وہ سب کچھ انتظامیہ کی ملی بھگت سے ہوتا ہے۔ اس ساری لوٹ کھسوٹ اور سہولیات کی غیر موجودگی کے بارے میں کوئی منصب نوٹس لینا گوارا نہیں کرتا۔ گورنر صاحب پھولوں کی چادر چڑھانے کی روایت پوری کرتے اور اس کے بعد وزیر ثقافت ادبی نشست کا اہتمام کرتے ہیں۔ وہاں سر سے اوپر چلے جانے والے مقالے پڑھے جاتے ہیں۔ ان میں بتایا جاتا ہے کہ ’’سندھ صوفیا کی دھرتی ہے۔ صوفیاء کا پیغام امن کا پیغام ہے۔ یہ پیغام سندھ کی پہچان ہے۔ سندھ کے لوگ بڑے مہمان نواز ہیں‘‘ اس قسم کی باتیں ایئر کنڈیشنڈ ہال میں ہوتی رہتی ہے اور باہر لوگ گرمی کے باعث سلگتے ہیں۔ ان کو بیٹھنے کے لیے سایہ نہیں ملتا۔ ان کو پینے کے لیے صاف پانی میسر نہیں ہوتا۔ وہ پانی کا ایک ایک گلاس بیس بیس روپیوں میں خرید تے ہیں ۔ لیکن جب چیف منسٹر صاحب کے پاس میڈیا کے مائیک آتے ہیں تو وہ سندھ کی عظیم روایات کے بارے میں اظہار خیال فرماتے ہیں۔ یہ سب کچھ بہت افسوسناک ہے ۔ یہ سب برسوں سے جاری ہے۔ آخر اس بے حس اور خودغرض صورتحال کا خاتمہ کب آئے گا؟ قلندر لعل شہباز کی شخصیت اور ان کی عظیم روحانی کاوش کے بارے میں کون نہیں جانتا؟ سب کو معلوم ہے کہ انہوں نے افغانستان میں جنم لیا۔ انہوں نے علم کا فیض بغداد سے حاصل کیا اور پھر ایران سے ہوتے ہوئے وہ سندھ میں داخل ہوئے۔ انہوں نے اپنے دور میں لوگوں سے نعرے نہیں لگوائے۔ انہوں نے عام لوگوں میں علم کو فروغ دیا۔ کیا یہ بھی افسوس کی بات نہیں کہ سندھ میں کروڑوں روپے ناچ گانوں کی محفلوں پر لٹانے والے کلچر ڈپارٹمنٹ نے اب تک قلندر لعل شہباز کے بارے میں کوئی تحقیقی اور مستند کتاب پیش نہیں کی وہ ان کے حالات زندگی کو بھرپور طرح سے پیش نہیں کر پایا۔ کیا یہ بات ہم کو اس دور میں حیران کرنے کے لیے کافی نہیں ہے کہ قلندر لعل شہباز نہ صرف پشتو اور فارسی بلکہ عربی؛ سنسکرت اور سندھی زبانوں پر عبور رکھتے تھے۔ ان کے پاس علم کا کتنا خزانہ ہوگا؟ اس بارے میں ہم سوچ کر بھی حیران ہوجاتے ہیں۔ قلندر لعل شہباز تو علم اور محبت کی علامت ہیں ۔ تاریخ کے اس پرانے رشتے کو نبھانے کے لیے لوگ آج بھی پورے ملک سے سفر کرکے آتے ہیں ۔ قلندر لعل شہاز ہمارے عوام کے لیے اتحاد کی علامت ہیں۔ اس علامت کو مضبوط کرنے اور اس علامت کو عملی طور پر ثابت کرنے کے لیے آنے والوں سے ہماری سندھ حکومت کس طرح پیش آتی ہے؟ اس سوال پر سوچ کر سندھ کی تاریخ اور ثقافت کا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ قلندر لعل شہباز کے مزار کو خوبصورت بنانے اور میلے پر آنے والے زائرین کی سہولیات کا خیال رکھنے کے لیے تو ضلع کا ڈپٹی کمشنر بھی بہت کچھ کرسکتا ہے مگر جب ہمارے مقامی افسروں سے مخصوص فرمائشیں کی جاتی ہیں تو پھر وہ ان کاموں پر اپنا دھیان کس طرح دے سکتے ہیں؟ قلندر لعل شہباز پورے ملک میں عزت اور عقیدت کی علامت ہیں۔ جب ذوالفقار علی بھٹو ہوتے تھے تب وہ ہر بار لاڑکانہ سے کراچی آتے ہوئے یا سڑک کے ذریعے کراچی سے لاڑکانہ جاتے ہیں قلندر لعل کے مزار پر حاضری دیتے اور مزار پر عوام کی سہولیات کا خیال رکھتے۔ آج پیپلز پارٹی کو ذوالفقار علی بھٹو کے نام پر ووٹ ملا ہے مگر اس کا مقصد عوام کی خدمت کرنے کے بجائے نوٹ کمانا ہے ۔ پھر وہ نوٹ منی لانڈرنگ کے ذریعے باہر بھجوانا ہے۔ مگر اس قومی پیسے کو قوم اور عوام کی سہولیت کے لیے استعمال نہیں کرنا۔ اگر سندھ حکومت ذرا کرپشن کم کرتی تو آج سیہون کا منظر ایسا نہیں ہوتا کہ قلندر شہاز کے عقیدت مند پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہوتے۔وی آئی پیز کے آنے سے راستہ بنانے کے لیے عام لوگوں پر ڈنڈے برس رہے ہیں اور انتظامیہ مہمانوں کا خیال رکھنے کے بجائے انہیں دونوں ہاتھوں سے لوٹنے میں مصروف ہے۔