ڈر اس بات کا ہے کہ ہماری زندگیوں میں ایک سنہری موقع پھر آ رہا ہے جو ہمارے پیارے وطن کی قسمت بدل سکتا ہے۔مگر سوچتا ہوں آیا ہمارے پاس وہ صلاحیتیں ہیں جو اس سنہری موقع سے کماحقہ‘فائدہ اٹھا سکیں۔جب پاکستان بنا تھا تو تب بھی عالمی حالات ایسے تھے جہاں ہم کھیل سکتے تھے۔ہم نے بساط بچھائی۔دوسری جنگ عظم کے بعد امریکہ اور روس میں برتری کی جنگ جاری تھی۔ ہم نے امریکی بلاک میں شامل ہونے کا فیصلہ کر لیا۔اس معاملے میں کہا جاتا ہے کہ لیاقت علی خاں پھونک پھونک کر قدم رکھنا چاہتے تھے۔اس زمانے میں امریکہ میں ان کا خطاب بھی بتاتا ہے کہ وہ غلام بن کر نہیں رہنا چاہتے تھے حالانکہ ایک لابی الزام لگاتی ہے کہ انہوں نے روس کے دورے کی پیش کش ٹھکرا کر امریکہ جانے کا فیصلہ کیا۔کہا جاتا ہے کہ لیاقت کی شہادت بھی امریکی حکم عدولی کی سزا تھی۔یہ ساری باتیں تو کوئی مورخ لکھ سکتا ہے۔یہاں عرض یہ کرنا ہے کہ سب سفارت کاری کا معاملہ تھامگر درمیان میں ہماری سکیورٹی کی ضرورتیں آڑے آئیں اور ہم امریکہ کے ساتھ دفاعی معاہدوں میں شریک ہو گئے۔ایوب خاں کو معاہدہ بغداد میں بیٹھا دیکھیں گے۔سکندر مرزا‘غلام محمد یہ سب لوگ ملک کو ایک خاص رخ پر لے گئے۔ہم سیٹو اور سینٹو جیسے معاہدوں کا حصہ بن گئے۔یہ معاہدے گویا یورپ میں نیٹو جیسے معاہدوں کے ایشیا میں ’’نعم البدل‘‘ تھے۔ہم نے اس سے بہت کچھ حاصل بھی کیا اور کھویا بھی۔سب سے پہلے کوریا کی جنگ کے بچے ہوئے عسکری مال سے ہم نے اپنے آپ کو دفاعی طور پر مضبوط کیا۔ہمیں اپنی سکیورٹی کے مفادات کا اتنا خیال تھا کہ بالآخر مارشل لاکے جنگل میں چلے گئے۔اس زمانے میں جب روس نے پشاور سے اڑنے والا امریکہ کا ایک جاسوس طیارہ مار گرایا اور خروشیف نے پشاور کے گرد سرخ نشان لگانے کا اعلان کیا تو ہمیں پتا چلا کہ ہم نے امریکہ کو فوجی اڈے دے رکھے ہیں۔ہماری مجبوریاں بھی تھیں مگر ہندوستان کی سیاسی قیادت اپنے کارڈ بہت خوش اسلوبی سے کھیل رہی تھی۔نہرو کا روس کی طرف نظریاتی جھکائو ایک طرف مگر اس نے خود پر غیر جانبداری کا لبادہ چڑھا رکھا تھا۔اس زمانے میں غیر جانبداری کی موومنٹ بھی ایک ایسا خوبصورت سفارتی لبادہ تھا جس میں چھپ کر بھارت ایسے مفادات کی نگہبانی کرتا رہا اور ہم پاکستان کو آہستہ آہستہ سکیورٹی ریاست بناتے گئے حتیٰ کہ وہ وقت آیا کہ دنیا نے ہمیں اس کام کے قابل سمجھا اور ہمارے دوسرے معاملات سے آنکھیں موڑ لیں۔ ایک وقت آیا جب امریکہ کے سلامتی کے تقاضے بدلے۔کارگل کے بعد امریکی وزیر خارجہ نے اعلان کیا کہ چلو اچھا ہوا اب ہم بھارت اور پاکستان کو الگ الگ دیکھیں گے۔مطلب یہ تھا کہ ہمیں بھارت سے بات کرنے سے پہلے سوچنا پڑتا تھا کہ پاکستان کو کیسے مطمئن کریں گے۔اب گویا اس کی ضرورت نہیں رہی۔ پھر وہ وقت آیا جب امریکہ نے بھارت کو اپنا تزویری شراکت دار قرار دیا۔ہم منہ دیکھتے رہ گئے۔اتنے میں نائن الیون آ گیا۔امریکہ کو پھر ہماری ضرورت پڑی اور انہوں نے ہمیں یہ کہہ کر چپ کرایا کہ آپ تو ہمارے نان نیٹو اہم حلیف ہو۔ہم پھولے نہ سمائے اور اسی خوشی میں اکیسویں صدی کے آغاز ہی سے امریکہ کی وہ خدمت کرتے رہے جو کسی غلام نے بھی نہ کی ہو گی۔ ایک وقت آیا جب ہمارے لئے ایک موقع پیدا ہوا۔چین سے ہمارے خصوصی تعلقات تھے۔امریکہ کا اتحادی ہونے کے باوجود چین نے ہمیں اسلحہ سازی میں جو مدد دی، وہ اپنی مثال آپ ہیں۔طیارہ سازی سے لے کر ٹینک بنانے تک چین نے ٹیکنالوجی ہمیں منتقل کی۔مغرب نے ایسا کبھی نہ کیا تھا۔مغرب سے ہم نے جو کچھ حاصل کیا۔وہ چرا کر کیا۔جی ہاں ریورس انجنیئرنگ کہہ لیجیے۔اس موقع پر چین نے ایک ایسا منصوبہ پیش کیا جسے ہم سی پیک کہتے ہیں۔اس کی راہ میں بڑی رکاوٹیں کھڑی کرنے کی کوششیں ہوئیں مگر اس کی مدد سے دو چار برس ہی میں ہم نے اپنے انرجی اور لاجسٹک کے مسائل پر بڑی حد تک قابو پا لیا۔اب ہماری صنعتی پرواز کا آغاز ہونا تھا کہ دوبارہ پر کتر ڈالے گئے۔ہم زمین پر آ رہے‘ہم سی پیک کو موخر کیا اور آئی ایم ایف کی گودمیں چلے گئے۔گزشتہ تین برس سے اس ملک میں جو جنگ جاری ہے‘وہ یہی جنگ ہے سی پیک یا دوبارہ امریکہ۔ اب موقع ملا ہے افغانستان میں ایک انقلاب آیا ہے۔یہ درست ہے کہ امریکہ اور مغرب اس انقلاب کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں کریں گے۔تاہم صورت حال ایسی ہے کہ علاقائی قوتیں بھی بہت اہم اور پرعزم ہیں۔چین کو کوئی تحفظات نہیں وہ طالبان کی متوقع حکومت کو تسلیم کرنے کو تیار ہے۔روس ماضی کے زخم بھول کر آگے آنا چاہ رہا ہے۔ایران اپنی روایتی مخالفت کو ترک کر کے تعاون کر رہا ہے۔ترکی نیٹو کا رکن ہونے کے باوجود اپنے برادر مسلم بھائی کا ساتھ دینا چاہتا ہے۔وسط ایشیا کی پانچوں ریاستوں میں خیر سگالی کے جذبات ہیں۔ایسے میں پاکستان کے لئے ایک سنہرا موقع ہے۔یہ درست ہے ہم نے امریکہ کے کہنے پر طالبان کو بہت نقصان پہنچایا مگر یہ بھی درست ہے کہ مذاکرات کی میز پر ہم ہی انہیں لے کر آئے ہیں۔ہمارے لئے اس وقت سنہری موقع نہیں تو اور کیا ہے جبکہ امریکہ کا تزویری شراکت داری بری طرح مار کھاچکی ہے۔کیا ہم اپنے کارڈ مناسب طور پر استعمال کر سکتے ہیں۔یہ ہے آج کا سب سے بڑا سوال۔یہ اتنا اہم سوال ہے کہ اسے لا ابالی وزیروں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔ہمارے ایک آدھ وزیر یہ بھی کہتے ہیں کہ پاکستان بہت اہم ہونے جا رہا ہے۔ایسے میں یہ اپوزیشن کیا کر رہی ہے۔انہیں تو ہم جیل بھیج دیں گے۔خدا کے لئے ہوش کے ناخن لو پاکستان کی اہمیت بڑھ رہی ہے تو اس کے فیصلے کرنے والے بھی غیر معمولی لوگ ہونے چاہئیں۔ہم نے اپنے ستر برس جیسے بھی گزارے ہیں‘وہ گزر گئے۔ہماری سلامتی کے اب نئے تقاضے ہیں۔بھارت ہمارا دشمن ہے تو وہ اب امریکہ کا دوست ہے۔علاقائی قوتیں افغانستان کے مسئلے پر قریب آ رہی ہیں۔بھارت اس دوڑ سے فی الحال باہر ہے۔کیا ہماری سفارت کاری میں اس کی صلاحیت ہے کہ وہ درست حکمت عملی طے کر سکے۔اب سلامتی کا تصور اور سلامتی کے تقاضے بھی مختلف ہیں اور ملک کی ضروریات بھی دوسری ہیں۔ہم معاشی میدان میں بہت پیچھے رہ چکے ہیں۔ہمیں درست راستہ نکالنا ہے۔میں یہ نہیں کہہ رہا کہ امریکہ سے اعلان جنگ کرو اور چین کے ساتھ ہو جائو۔وقت کی ضرورت بھی یہ نہیں ہے مگر ہمیں معلوم ہونا چاہیے ہمارا ہدف کیا ہے اور ہمارا مقام کیا ہے۔ ہمارا مقام علاقائی تعاون کی حکمت عملی میں ہے۔ہم نے پرانے آر سی ڈی کو ای سی اومیں بدل دیا تھا یعنی اب اس میں ترکی اور ایران کے علاوہ افغانستان اور وسط ایشیا کے چھ ممالک بھی شامل ہیں،نیا راستہ بن سکتا ہے۔یہ ہم سب کا امتحان ہے‘ہمیشہ کی طرح ہماری اسٹیبلشمنٹ کا بھی۔