گھر سے دفتر کی مسافت ایک ہفتہ قبل بیس منٹ تھی لیکن اب یہ سمٹ کر دس منٹ رہ گئی ہے لیکن گھر والوں اور دوستوں کے درمیان فاصلے بڑھ گئے ہیں۔ کیا خبر تھی کہ ایک وباء ایسی بھی ہو گی کہ جب وصال سے زیادہ ہجر زندگی کی ضمانت ہو گا۔اسلام آباد جہاں چوبیس گھنٹے زندگی رواں دواں تھی چند گھنٹے کی مہلت رہ گئی ہے جس میں آپ ضرورت کا سامان خرید سکتے ہیں اور چند لوگوں کو بیک وقت کچھ فاصلے پر ہی سہی اکٹھا کھڑا دیکھ سکتے ہیں۔پہلے دل بہلانے کو ہرکسی کی خواہش ہوتی تھی باہر جا کر ہوا خوری کریں، آوارہ گردی کریں اب گھر میں رہنے میں عافیت اور سکون ہے۔کہتے تھے نائن الیون کے بعد دنیا تبدیل ہو گئی ہے شاید کوئی اس بات سے اختلاف کرتا ہو لیکن اب کی بار جس انداز میں دنیا تبدیل ہوتی چلی جا رہی ہے کوئی اس سے انکار نہیں کر سکتا۔ ہمار ے بچپن اور نوجوانی میں سر شام (مغرب کی اذان کے ساتھ) گھر پہنچنے کا حکم ہوتا تھا لیکن گزشتہ تین دہائیوں میں اس حکمنامے میں بہت تبدیلی ہو چکی اور رات گئے تک بچوں کا دوستوں کے ساتھ آئوٹنگ کرنا ایک معمول بن چکا ہے۔ اس لئے اس جنریشن کے لئے یہ کچھ انہونی سی بات ہے کہ آپ social mingling نہیں کر پا رہے۔ میرے ہم عمروں کے لئے یہ ایک دور کی واپسی ہے جس میں زندگی بہت زیادہ افراتفری کا شکار نہیں تھی۔ سڑک پر اکا دکا گاڑی نظر آتی تھی جیسا کہ آجکل دیکھنے کو مل رہا ہے۔ رات کو اسلام آباد جیسے شہر میں کھانے کا کوئی ڈھابہ، ہوٹل یا جگہ نہیں ہوتی تھی۔ اگر آپ نے بر وقت کھانا کھا لیا تو درست ورنہ آپکو اگلی صبح تک یا تو بھوکا رہنا پڑے گا یا پھر راوالپنڈی جا کر بس سٹینڈ یاسٹیشن سے کھانا ملتا تھا۔جو متمول حضرات تھے وہ فائیو ستار ہوٹل سے کھانا کھا سکتے تھے۔ان دنوں کھانے کا مسئلہ ہو یا پھر آپکو چائے پینی ہو تو گھر جا کر مل سکتی ہے اگر آپ اس وبائی دور میں بھی کام کے سلسلے میں گھر سے باہر ہیں۔نئی نسل کو لگتا ہو گا کہ زندگی ٹھہر گئی ہے، اس میں thrill نہیں رہی لیکن میرے جیسوں کے لئے زندگی پر سکون ہو گئی ہے۔ جان لیوا بیماری کے خطرے کے باوجود یہ سکون ایک بھر پور پیغام ہے۔ ان سب کے لئے جنکے خیال میں بھاگم دوڑ، افراتفری کم ہو تو زندگی کی رفتار رک جاتی ہے۔ تیزی سے بھاگتے لوگ کرونا وائرس سے ٹکرا کر ساکت ہو چکے ہیں۔ یہی وہ لمحہ ہے جہاں زندگی کی رفتار کا فیصلہ ہو سکتا ہے، ہمیں سرپٹ بھاگنا ہے یا اس زمین اور ماحول کے تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک متعین رفتار سے آگے بڑھنا ہے۔ ہم نے اپنے وسائل کا استعمال انسانوں کی زندگی کو بہتر بنانے کے لئے کرنا ہے یا اپنی آسائشوں کو بڑھانے کے لئے۔دولت کے انبار لگانے ہیں ، اسکا ارتکاز چند ہاتھوں میں کرنا ہے یا اسکی منصفانہ تقسیم کی کوئی صورت نکالنی ہے۔ کیونکہ کرونا وائرس کی نظر میں امیر غریب، کالا، پیلا اور گورا، دیسی ولائیتی، بڑا چھوٹا، مرد عورت، نیک گناہگار، کسی بھی مذہب کا پیروکار، سب برابر ہیں۔ جو اسکی زد میں آ گیا اسکو بھگتنا ہی پڑے گا۔ اس قدرتی آفت نے ہمیں ایک سنہرا موقع دیا ہے کہ ہم اب جبکہ رک چکے ہیں، زندگی کی رفتار تھم چکی ہے تو اس وقفے میں سوچیں کہ ہمارے لئے ضروری کیا ہے۔ ایسے لوگ جن کو دہائیوں بعد گھر والوں کے ساتھ بیٹھنے اور بات کرنے ، ایکدوسرے کو جاننے کا موقع ملا ہے انکو اپنی خوش قسمتی پر مان کرنا چاہیئے۔وہ مالدار جن کو اس حقیقت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے کہ مال و اسباب ہر جگہ کام نہیں آ سکتا ، اسکے استعمال پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔طاقتوروں کو اپنی طاقت کے گھمنڈ سے نجات حاصل کرنے کا موقع ہے۔ زندگی کی کم مائیگی کا احساس دل میں گداز کا باعث بنتا ہے اسکو پیدا ہونے دیں ۔ یہی دنیا میں انسانیت کے لئے تریاق بنے گا۔ خدا کی طرف سے اس آزمائش سے نپٹنے کے لئے تمام مذاہب کے پیروکاروں کو ان آفاقی اصولوں کا ادراک بھی کرنا ہو گا اور عمل بھی کرنا ضروری ہے جو خدا کی اس زمین پر امن، آشتی، بھائی چارے کو فروغ دے۔گلی محلے کی لڑائیوں سے لیکر ملکوں کے درمیان جنگوں نے معاشرتی، معاشی اور ماحولیاتی مسائل پیدا کئے ہیں اور یہ اس قدر گھمبیر ہو چکے ہیں کہ کرونا وائرس ختم بھی ہو جائے تو تباہی کی طرف بڑھتی انسانیت کو پرانے رویوں کے ساتھ روکنا ممکن نہیں۔نئی سوچ کے ساتھ سب کو آگے بڑھنا ہے۔ہم اگر ارادہ کر لیں تو کرونا پر بھی قابو پا لیں گے اور مستقبل کے لئے عالمی انسانی برادری کے لئے ایک ایسی بنیاد استوار کرنے میں کامیاب ہونگے جو کسی بھی آفت سے نپٹنے کی صلاحیت کی حامل ہو گی۔ جہاں اس آفت کی وجہ سے خوف نے پوری دنیا کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے، وہیں اس سے لڑنے کے لئے انسانوں کی کمی نہیں ہے ۔ ایک بھرپور عزم کے ساتھ دنیا بھر کا میڈیکل سٹاف اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر اس سے لڑ رہا ہے۔ اس جنگ میں تمام ڈاکٹرز، نرسیں ، میڈیکل سے متعلق تمام عملہ سینیٹری ورکرز سے لیکر اس مرض کی ویکسین دریافت کرنے والے سائنسدان وہ تمام ادارے جو اس میں انسانوں کی ضروریات کی فراہمی کے لئے بر سر پیکار ہیں۔ اور وہ سپاہی جو ایسے موقع پر انسانی افراتفری پھلنے سے روکنے کے لئے کام کررہے ہیں سب ہماری تعریف اور دعائوں کے مستحق ہیں۔ اسکو آفت نہیں ایک ایسے موقع کے طور پر لیںجو ہمیں اپنی سمت درست کرنے کے لئے مل گیا ہے۔اس سنسان گھڑی کو ویران نہ جانے دیں بلکہ اپنے لئے ایک بہترین مستقبل کا راستہ بنائیں، انسانیت کی بہتری کا راستہ۔ فیض احمد فیض کی حسب حال نظم کے آخری تین مصرعے پیش ہیں: مانا کہ یہ سنسان گھڑی سخت کڑی ہے لیکن مرے دل یہ تو فقط اک ہی گھڑی ہے ہمت کرو جینے کو تو اک عمر پڑی ہے