شام کا دھندلکا پھیلنے والا تھا جب میری فائٹر کار ایک ایسے مقام پر پہنچی جہاں سے کچھ ہی فاصلے پر ایک محل نظر آرہا تھا ۔ ’’ اس علاقے میں ؟‘‘ عدنان کچھ حیرت سے بولا ۔’’ محل؟‘‘ میں نے بانو سے حاصل شدہ معلومات کی روشنی میں جواب دیا ۔ ’’ یہ وہ محل ہے جہاں وہ عرب آکر قیام کرتے ہیں جنہیں یہاں تلور کا شکار کرنا ہوتا ہے ۔ مقامی لوگ اسے شاہ جو ڈیرو کہتے ہیں۔‘‘ ’’ ان لوگوں کی دولت کا کوئی ٹھکانا نہیں ۔‘‘ ’’ وہ تو ہے ، تیل کی دولت جو ہے ان کے پاس۔‘‘ میں نے کہا ۔ ’’ جب تک تیل نہیں نکلا تھا ‘ عرب بہت غریب تھے ۔‘‘ اس مختصر سی گفت گو کے دوران میں ہی میری کار شاہ جوڈیرو سے آگے نکل گئی ۔ ’’ ہمیں اللہ ڈینو جو ڈیرو پہنچنا ہے ۔ ‘‘ عدنان نے اتنے دھیرے سے کہا جیسے خود کو بتا رہا ہو ۔ میں خاموش رہی ۔ ’’ اور!‘‘ یکایک عدنان کے منہ سے نکلا ۔ ’’ ریت کا طوفان!‘‘ میں نے کار کی رفتار کم کردی ۔ ریت اور دھول اڑتے ہوئے میں نے بھی دیکھ لی تھی ۔ اس غبار میں ایک لینڈ کروزر بھی دکھائی دی جو بائیں سے دائیں جارہی تھی ۔ ریت اسی کی وجہ سے اڑی تھی ۔ پھر ایک اور کار دکھائی دی ۔ اس نے بھی ریت اڑائی ۔ ’’ صحرا میں یہ گاڑیاں کیوں دوڑ رہی ہیں ۔‘‘ عدنان اس وقت بولا جب تیسری کار بھی دکھائی دی ۔ ’’ تفریح ہے ان لوگوں کی ۔ ‘‘ میں نے جواب دیا ۔ ’’ ریلی نکل رہی ہے یا شاید ریس کی جارہی ہو ۔ ‘‘ ’’ عربوں کی ؟‘‘ ’’ ضروری نہیں ۔‘‘ میں نے کہا ۔ ’’ مقامی لوگ بھی کرتے ہیں ۔ بانو بتارہی تھیں کہ یہ کھیل کبھی کبھی خطرناک بھی ثابت ہوتا ہے ۔ گاڑیاں الٹ جاتی ہیں اور کبھی کوئی کار ریت کے بھنور میں پھنس جاتی ہے جس سے نکلنا بہت مشکل ثابت ہوتا ہے۔ ڈرائیور شدید زخمی ہوجاتا ہے ۔ ‘‘ میں نے اندازہ لگایا تھا کہ ریلی یا ریس کی یہ کاریں کتنی دیر میں گزرجائیں گی ۔ اسی اندازے کے مطابق کار کی رفتار بھی خاصی کم کی تھی ۔ ’’ ریسٹ ہائوس وغیرہ کہاں ہیں ؟‘‘ عدنان نے پوچھا ۔ ’’ بانو نے مجھے یہاں کے بارے میں کچھ زیادہ معلومات نہیں دی تھیں لیکن یہ بتایا تھا کہ یہاں ریسٹ ہائوس بھی ہیں جہاں سیاح قیام کرتے ہیں۔‘‘ ’’ ہاں ۔ ‘‘ میں نے کہا ۔ ’’ یہ ساری تفصیل ہمیں اللہ ڈینو سے حاصل ہوگی ۔ وہ اسٹیبلش منٹ کا آدمی ہے ۔ اسے اطلاع بھی دے دی گئی ہوگی کہ ہم کسی بھی وقت وہاں پہنچ سکتے ہیں ۔ مجھے گمان ہے کہ بانو کے اس سے ذاتی تعلقات بھی ہیں ۔ کیوں کہ یہ میرا صرف گمان ہے اس لئے وہاں اس قسم کی کوئی بات نہ چھیڑنا ۔ ‘‘ عدنان نے اثبات میں سرہلانے پر اکتفا کی ۔ میں نے محسوس کیا کہ کاروں کا’’ بہائو‘‘ اب ختم ہوچکا ہے ۔ اس وقت میں نے اپنی رفتار بڑھائی لیکن میرا خیال غلط تھا کہ اب کوئی کار نہیں ہوگی کیونکہ ایک جیپ اچانک سامنے آگئی ۔ ڈرائیونگ کرتے وقت اس قسم کی سچویشن کا سامنا ہوجائے تو ایک لمحے میں فیصلہ کرنا پڑتا ہے جو کبھی صحیح اور کبھی غلط بھی ہوجاتا ہے ۔ میں اپنی کار کی رفتار پہلے ہی خاصی بڑھا چکی تھی ۔ اس وقت میں نے رفتار میں مزید اضافے کا فیصلہ کیا ۔ مجھے اس میں کسی حد تک کام یابی بھی ہوئی لیکن اتنی کمی رہ گئی کہ میری کار کے پچھلے حصے سے جیپ کا ٹکرا جانا یقینی محسوس ہوا ۔ اس وقت جیپ کے ڈرائیور نے اس حادثے سے بچنے کے لئے جیپ کو بے تحاشا موڑا ۔ اس طرح میری کار تو محفوظ رہ گئی لیکن جیپ اپنی تیز رفتاری کے باعث الٹ گئی اور نہ صرف الٹی بلکہ دو قلا بازیاں بھی کھا گئی ۔ ’’ مائی گاڈ!‘‘ میرے منہ سے نکلا اور میں نے بریک لگائے ۔ دماغ میں یہ خیال تھا کہ جیپ کے ڈرائیور پر کیا بیتی ہوگی ۔ تیز رفتاری کے باعث ، بریک لگائے جانے کے باوجود کار خاصی آگے نکل کر رکی ۔ میں نے بیک میرر میں الٹی ہوئی جیپ کو دیکھا ۔ اگر ڈرائیور کو کچھ نہ ہوا ہوتا تو وہ اپنے کپڑے جھاڑتا ہوا کھڑا ہوجاتا لیکن مجھے جیپ کے قریب کوئی نظر نہیں آیا ۔ ’’ بے چارے پر نہ جانے کیا گزری ہوگی ۔ ‘‘ میں بڑبڑاتی ہوئی دروازہ کھول کر کار سے اتری ۔ دوسری طرف کے دروازے سے عدنان باہر آیا ۔ ہم دونوں ہی دوڑتے ہوئے جیپ کے قریب پہنچے ۔ ایک جوان العمر شخص جیپ کے ایک پہیے کے نیچے دبا ہوا تھا ۔ کار قلابازی کھانے کے بعد پہلو کے بل گری تھی ۔ وہ شخص دبا ہوا تو تھا لیکن بہت زیادہ نہیں ‘ البتہ زخمی ہوگیا تھا اور بے ہوش تھا ۔میں اور عدنان اسے بہ مشکل پہیے کے نیچے سے نکال سکے ۔ اس کے سر پر چوٹ آئی تھی اور جسم کے کئی حصوں پر بھی جن سے خون کہیں بہہ رہا تھا اور کہیں رس رہا تھا ۔ ’’ اسے فوری طبی امداد کی ضرورت ہے عدنان !‘‘ میں نے کہا ۔ ’’ اللہ ڈینو کے ڈیرے تک پہنچنے میں کتنی دیر لگے گی ؟‘‘ عدنان نے پوچھا ۔ ’’ میرا خیال ہے کہ ہم زیادہ دور نہیں ہیں ۔ دس منٹ میں پہنچ جانا چاہئے ۔‘‘ ’’ تو اسے اٹھا کر اپنی کار تک لے جانا چاہئے ۔‘‘ عدنان نے زخمی ڈرائیور کی بغل میں اس طرح ہاتھ ڈالا جیسے اسے اٹھانا چاہتا ہو ۔ وہ اپنا عقاب کار میں ہی چھوڑ آیا تھا ۔ میں نے اس کی مدد کی تو وہ زخمی کو اپنے دونوں ہاتھوں پر اٹھانے میں کام یاب ہوگیا۔ اس وقت بڑی عجلت کی ضرورت تھی لیکن ایک آدمی کا وزن اٹھاکر تیز چلنا عدنان کے لئے ممکن نہیں تھا ۔ کار تک پہنچنے میں کچھ وقت لگا ۔ میں نے کار کی پچھلی نشست کا دروازہ کھولا اور زخمی کو پچھلی نشست پر ڈالنے میں بھی عدنان کی مدد کی ۔ ’’ تم اس کے ساتھ ہی بیٹھو ۔ ‘‘میں نے عدنان سے کہا ۔ ’’ تیز رفتاری کے باعث یہ نشست سے لڑھک نہ جائے !‘‘ عدنان نے میری ہدایت پر عمل کیا اور میں نے ڈرائیونگ سیٹ سنبھالی ۔ انجن اسٹارٹ کرکے میں کار حرکت میں لائی اور اس کی رفتار بڑھاتی چلی گئی ۔ ’’ اللہ ڈینو کے ڈیرے پر ہی اسے طبی امداد مل سکتی ہے۔‘‘ میں بولی۔ ’’ ہم کسی اور پریشانی میں نہ پڑجائیں !‘‘ ’’ کیوں ؟‘‘ ’’ بہ ظاہر تو یہ زیادہ زخمی نہیں ہے لیکن نبض بہت مدھم ہوتی جارہی ہے ۔کہیں یہ.....‘‘ ’’ اللہ مالک ہے ، ہم اپنا انسانی فرض تو پورا کررہے ہی ۔‘‘ میں نے کہا اور رفتار میں اس حد تک اضافہ کردیا جس حد تک میں کنٹرول کر سکتی تھی ۔ کیا وہ زخمی کسی پریشانی کا سبب بنا؟ کل کے روزنامہ 92میں ملاحظہ کریں!