اللہ ڈینو نے میری بات کا جواب نہیں دیا ۔ اس کے چہرے پر غور و فکر کے ساتھ تشویش کے آثار بھی دکھائی دینے لگے تھے ۔ میں پھر بولی ۔ ’’ آپ نے جواب نہیں دیا ؟‘‘ ’’ دوں گا ۔‘‘ اللہ ڈینو نے جواب دیا ۔ ’’ ضرور دوں گا ۔ آپ کو آپ کا کمرا دکھا دوں ۔ اگر آپ اجازت دیں گی تو وہیں بیٹھ کر بات کروں گا ۔‘‘ ’’ اس کے لیے آپ کو میری اجازت کی ضرورت نہیں ۔ بانو مجھ سے کہہ چکی ہیں کہ میں آپ پر ہر قسم کا اعتماد کرسکتی ہوں ۔ ‘‘ ’’ تو آئیے!‘‘ اللہ ڈینو مجھے ایک پر آسائش کمرے میں لے گیا ۔ عدنان میرے ساتھ تھا ۔ ’’ آپ کے لیے دوسرے کمرے کا انتظام کیا گیا ہے ۔ ‘‘ اللہ ڈینو نے عدنان سے کہا ۔ ’’ لیکن فی الحال تو .....یہیں تشریف رکھیں!.....کچھ باتیں کرنے کے بعد آپ کا کمرا بھی دکھا دیا جائے گا ۔ تشریف رکھیں!‘‘ آخری جملہ اس نے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ ہم تینوں بیٹھ گئے ۔ ’’ یہ ہیلی کوپٹر۔‘‘ اللہ ڈینو نے بتانا شروع کیا ۔’’ تین دن سے میری الجھن کا سبب بھی بنا ہوا ہے ۔ میں نے اپنے آدمیوں سے چھان بین کروائی تو معلوم ہوا کہ ایک ریسٹ ہائوس کے سامنے ایک چھوٹا سا ہیلی پیڈبنایا گیا ہے ۔ یہ ہیلی کوپٹر وہیں جا کر اترتا ہے ۔ دو چار آدمی اس سے اتر کر اس ریسٹ ہائوس میں جاتے ہیں جو خاصا بڑا بنوایا گیا ہے ۔ وہاں کچھ غیر ملکی سیاحوں کے ساتھ ایک عربی بھی آیا ہوا ہے ۔ یہ مجھے نہیں معلوم ہوسکا کہ وہ کس عرب ملک سے تعلق رکھتا ہے ۔ مشرق وسطیٰ کے کئی عرب ملکوں سے ہمارے ملک کے بہت اچھے تعلقات ہیں ۔مجھے خیال آیا کہ وہ ہیلی پیڈ بنانے کی اجازت اس نے حکومت سے لے لی ہوگی ۔ اس خیال کے باوجود میں نے اس پر اسرار سے واقعے کی اطلاع حکومت کو دے دی تھی ۔ مجھے یہ نہیں بتایا گیا کہ ہیلی پیڈاجازت سے بنا ہے یا بغیر اجازت!‘‘ یہ سب کچھ سنتے ہوئے میرے رگ وپے میں خوشی کی ہلکی سی لہر دوڑ گئی ۔ میرے دماغ میں خیال آیا تھا کہ شاید اسی ریسٹ ہائوس کو فری میسن لاج بنایا گیا ہو۔ اللہ ڈینو نے اپنی بات جاری رکھی ۔ ’’ لیکن ابھی تھوڑی دیر پہلے مجھے ایک ایسی اطلاع ملی ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ معاملہ واقعی پر اسرار ہے ۔ ‘‘ ’’ ایسی کیا اطلاع مل گئی آپ کو ؟‘‘ میں نے پوچھا ۔ ’’ ایک ایجنسی کے کسی آفیسر کو یہاں بھیجا جارہا ہے ۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ آفیسر اس معاملے کی چھان بین کرے گا ۔ موجود حکومت کا رویہ کچھ ایسا ہوچکا ہے کہ وہ اپنے کسی عرب دوست کو کسی بھی قسم کی اجازت دے دیتی ہے اور ایجنسیوں کو اس کی ہوا بھی نہیں لگتی ۔ خاص طور سے وہ ایجنسیاں تو قطعی بے خبر ہوتی ہیں جن کا تعلق براہ راست فوج سے ہے ۔ ‘‘ ’’ وہ آفیسر یہاں کب پہنچے گا ۔ ‘‘ ’’ اس کی آمد آج ہی رات کسی وقت متوقع ہے ۔ ‘‘ ’’ اس آفیسر کا نام کیپٹن عماد تو نہیں؟‘‘ اللہ ڈینو نے حیرت سے میری طرف دیکھا ۔ ’’ آپ کو کیسے معلوم ہوا؟‘‘ ’’ ادھر ادھر کی کچھ خبریں مل ہی جاتی ہیں ۔ ‘‘ میں نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا ۔ ’’ یقینا ایسا ہی ہوگا ۔ ‘‘ اللہ ڈینو نے سر ہلایا ۔ ’’ میں اس ایک لمحے میں بھول ہی گیا تھا کہ آپ کا تعلق ایس آئی ایس سے ہے ۔ ‘‘ میں نے اللہ ڈینو کو یہ نہیں بتایا کہ اسی دن میری ملاقات کیپٹن عماد سے ہوچکی تھی ۔ ’’ کیوں نہ کھانا کھالیا جائے !‘‘ اللہ ڈینو بولا ۔ ’’ اس موضوع پر باتیں تو ہوتی ہی رہیں گی ۔ ‘‘ میں نے آمادگی کا اظہار کیا تو اللہ ڈینو کھڑا ہوا ۔ اس کے ساتھ میں اور عدنان بھی کھڑے ہوگئے ۔ اسی وقت ایک ملازم نے آکر اپنی زبان میں کچھ کہا ۔میری سمجھ میں صرف اتنا آیا کہ بات کیپٹن عماد کے بارے میں تھی ۔ اﷲ ڈینو نے اسے جواب دیا ، پھر مجھ سے بولا ’’وہ آفیسر بھی آگیاہے جس کا نام بھی آپ جانتی ہیں ۔ ملازم اسے ڈرائنگ روم میں بٹھا دے گا ۔ کیا آپ اس سے ملنا پسند کریں گی؟‘‘ ’’ہاں ہاں ، کیوں نہیں !‘‘ ’’ تو آیئے !‘‘ اﷲ ڈینو نے دروازے کی طرف قدم بڑھائے۔ ’’میں نے ملازم کو کھانا لگانے کی ہدایت بھی کردی ہے ۔‘‘ میں نے سر ہلا نے پر اکتفا کی ۔ جب ہم نے ڈرائنگ روم میں قدم رکھا اسی وقت دوسرے دروازے سے کیپٹن عماد بھی داخل ہوا۔ ’’ہیلو !‘‘ کیپٹن عماد میری طرف دیکھتے ہوئے مسکرایا۔ ’’ہیلو !،، میں بھی جواباََ مسکرائی ۔ اﷲ ڈینو حیرت سے بولا ۔’’آپ دونوں ایک دوسرے سے واقف بھی ہیں ؟‘‘ مجھ سے پہلے کیپٹن عماد بولا ۔’’خوب اچھی طرح واقف ہیں ۔‘‘ ’’چلیں یہ تو بہت اچھا ہوا ۔ہم ابھی کھانا کھانے جارہے تھے ۔آپ آگئے ہیں تو آپ بھی ہمارے ساتھ.....‘‘ کیپٹن عماد نے بات کاٹی ’’میں کھانا کھا چکا ہوں لیکن آپ لوگوں کا ساتھ ضرور دوں گا۔‘‘ ’’چند منٹ تشریف رکھیں ۔‘‘ ’’ضرور۔‘‘ ہم سب بیٹھ گئے تو اﷲ ڈینو نے مجھ سے کہا ۔‘‘ جس ملازم نے ابھی کیپٹن صاحب کے آنے کی اطلاع دی تھی ، اسی نے یہ بھی بتایا تھا کہ زخمی کو ہوش آگیا ہے ۔‘‘ کیپٹن عماد کے چہرے پر سوالیہ تاثر ابھرا۔ ’’وہ کچھ بولا بھی ؟ ملازم نے تفصیل نہیں بتائی ؟‘‘ میں نے پوچھا۔ ’’پوچھ رہا تھا کہ وہ کہاں ہے ! اسے بتا دیا گیا ۔ اس نے آپ سے ملنے کی خواہش ظاہر کی ہے آپ کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہے ۔میں نے کہلوا دیا ہے کہ آپ کھانا کھانے کے بعد اس سے مل لیں گی ۔‘‘ ’’یہ کس زخمی کی بات ہورہی ہے ؟‘‘ کیپٹن عماد سے رہا نہ گیا ، وہ بول پڑا، میں اسے زخمی کے بارے میں بتا ہی رہی تھی کہ باہر سے کچھ آدمیوں کے بولنے کا ہلکا سا شورسنائی دیا ۔بعض جملے بھی سنائی دیے جو انگریزی میں کہے گئے تھے ۔ ہلکا سا شور مچانے والے کون تھے؟ کل کے اخبار 92میں ملاحظہ فرمائیں!