صبح میں گھر گئی ۔ ناشتے کے بعد میں نے مسٹر داراب کو فون کرکے اس ہیلی کوپٹر کے قیدیوں کے بارے میں پوچھا ۔ رات کو مجھے بانو ہی کے گھر پر یہ اطلاع تو مل گئی تھی کہ ہیلی کوپٹر ان کے گھر پر اترا تھا تو میرے محکمے کے آدمیوں نے تینوں طالبان کو اپنے قبضے میں لے لیا تھا اور ہیلی کوپٹر بھی ایسی جگہ پہنچا دیا گیا تھا کہ کسی کو اس کا علم نہ ہوسکے ۔ میرے فون کرنے پر مسٹر داراب نے بتایا کہ تینوں طالبان پر تمام حربے آزمالیے گئے لیکن وہ گونگے بہرے بن گئے ہیں ۔ میں نے طویل سانس لی ۔ ’’ یہ مسئلہ تو ہے مسٹر داراب !.....یہ طالبان خود کو بہت سچا مسلمان سمجھتے ہیں اور مرجانے کے لیے تیار رہتے ہیں ۔ انھیں گمان ہے کہ یہ شہید ہوں گے اور سیدھے جنت میں جائیں گے ۔ جب تک ان لوگوں کی تنظیم پوری طرح کچل نہ دی جائے ‘ ہمیں سکون نہیں ملے گا ۔ اب یہ فری میسن لاج کا معاملہ بھی سامنے آگیا ہے ‘ موساد کے ایجنٹوں کا مرکز بھی وہیں ہے ۔‘‘ گزشتہ رات مسٹر داراب سے اس موضوع پر بھی بات ہوچکی تھی ۔ ’’ تم کب روانہ ہورہی ہو چولستان؟‘‘ ’’ اس کا بندوبست کروادیجیے مسٹر داراب! .....ٹکٹ.....اور ہاں! میری کار بھی جانا ہے وہاں ۔ ‘‘ ’’ میں ابھی انکوائری سے بات کرتا ہوں ۔‘‘ ’’ میں انتظار کروں گی ۔‘‘ مسٹر داراب نے رابطہ منقطع کردیا ۔ میں اپنی اس مہم کے بارے میں سوچ ہی رہی تھی کہ بانو کا فون آگیا ۔ میں نے انھیں بتایا کہ میں نے مسٹر داراب کو اپنے سفر کا بندوبست کرنے کے لیے کہہ دیا ہے ۔ ’’ شام چار بجے کی فلائٹ سے جانا ہے تمھیں ! رحیم یار خان ۔میں نے ابھی معلوم کیا ہے ۔‘‘ بانو نے کہا ۔’’ تم کھانا کھا کر میرے پاس آئو۔جی چاہے تو مرے ساتھ ہی کھا لینا ۔ ‘‘ ’’ یہ دوسری بات تو مشکل ہوگی بانو!‘‘ میں نے مسکراتے ہوئے کہا ۔ کھانا تو ممی کے ساتھ ہی کھانا پڑے گا۔ ابھی ناشے پر ان کی ناراضی کا سامنا کرچکی ہوں۔ وہ اس بات سے نالاں ہیں کہ میں گھر میں ٹکتی ہی نہیں ہوں، بس ہر وقت کام!… میری ملازمت اور میرے محکمے کے بارے میں بھی قصیدے پڑھ چکی ہیں۔ ڈیڈی ان کی باتوں پر مسکراتے رہے تھے۔ وہ تو بہت خوش ہیں کہ میں کامیابی پر کامیابی حاصل کررہی ہوں۔‘‘ ’’ماں کی بات دوسری ہوتی ہے صدف!‘‘ بانو نے کہا۔ ’’اولاد سے دوری پر ماں کا دل بہت کسکتا ہے۔ تم ان کے ساتھ کھانا کھا کر ہی آنا، بلکہ سب سے رخصت لے کر ہی آنا۔ تمھیں یہیں سے ایئرپورٹ جانا ہوگا۔‘‘ ’’کیا یہ ضروری ہے؟‘‘ ’’ہاں! تم آئو گی تو سمجھ لو گی۔‘‘ ’’کوئی خاص بات ہے بانو؟‘‘ ’’ہاں۔‘‘ بانو نے کہا اور لائن ڈسکنیکٹ کردی۔ اکثر اس بات پر میں جھنجلا کر رہ جاتی تھی کہ بانو پہلے سے کچھ نہیں بتاتی ہیں۔ عجیب عادت ہے ان کی! میں ان سے بحث بھی تو نہیں کرسکتی! میری روانگی سے باخبر ہونے کے باعث رفعت اور طلعت اسکول کالج نہیں گئی تھیں۔ وہ یہ وقت میرے ساتھ گزارنا چاہتی تھیں۔ دوپہر کے کھانے تک سب کا ساتھ رہا۔ اسی دوران میں مسٹر داراب نے مجھے فون کرکے بتایا کہ میرے سفر کا بندوبست ہوگیا ہے۔ کار بھی مجھے ایئرپورٹ پر مل جائے گی۔ میرا ٹکٹ انہوں نے گھر پر ہی بھجوادیا تھا۔ اتفاق سے فلائٹ چار بجے ہی کی ہے۔ کار میرے پاس سے منگوا لی تھی۔ وہ میں نے مقفل حالت میں بھیجی تھی تاکہ کوئی اسے اندر سے نہ دیکھ سکے۔ میں نے بانو کو فون کردیا تھا کہ کار اب میرے پاس نہیں ہے اس لیے وہ خود مجھے لینے آئیں۔ میں ان کے ساتھ ان کے گھر پہنچی۔ میرا سامان بھی انھی کی کار میں تھا۔وہ مجھے گھر کے ایک ایسے کمرے میں لے گئیں جو میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اس کمرے کا ایک حصہ دیکھ کر تو مجھے یہ گمان ہوا کہ وہ کوئی بیوٹی پارلر ہے۔ ’’کیا مجھے میک اپ کرنا ہوگا! ‘‘میں ہنس پڑی۔ ’’آپ جانتی ہیں کہ میں ہلکا پھلکا میک اپ خود ہی کرلیتی ہوں۔ بیوٹی پارلر کبھی نہیں گئی۔‘‘ ’’تمھارا یہ انداز ہی تو مجھے پسند ہے لیکن یہاں تمھارا میک اپ میں کروں گی اور وہ میک اپ وہ نہیں ہوگا جو عام طور پر خواتین کرتی ہیں۔ چلو کرسی پر بیٹھو!‘‘ ’’کوئی خاص میک اپ؟‘‘ میرا ذہن الجھ گیا لیکن میں کرسی پر بیٹھ گئی۔‘‘ یہ کپڑا شاید آپ ہی نے ڈالا ہے آئینے پر!‘‘ ’’ہاں۔‘‘ بانو نے جواب دیا۔ ’’جب تمھارا میک اپ مکمل ہوجائے گا، تب دیکھنا آئینہ۔‘‘ ’’میرا ذہن اور الجھا دیا آپ نے۔‘‘ ’’سب سلجھ جائے گا جب میک اپ ہونے کے بعد تم اپنا چہرہ دیکھو گی۔‘‘ بانو نے ایک شیشی اٹھاتے ہوئے کہا جس میں کسی قسم کا لوشن تھا۔ بانو تقریباً ڈیڑھ گھنٹے تک میرے چہرے کی ’’مرمت‘‘ کرتی رہیں۔ لفظ ’’مرمت‘‘ میں نے اس لیے استعمال کیا ہے کہ جب ڈیڑھ گھنٹے بعد میں نے آئینہ دیکھا تو احساس ہوا کہ میرے دماغ میں بالکل صحیح لفظ آیا تھا۔ فوری طور پر تو میرے ذہن کو جھٹکا سا لگا۔ ایسا معلوم ہوا تھا جیسے میں کسی اور کا عکس دیکھ رہی ہوں۔ میرا رنگ سرخ و سفید ہے لیکن عکس میں میرا رنگ سانولا تھا۔ آنکھوں میں کاجل کچھ اس طرح لگا تھا کہ آنکھیں کچھ بڑی ہوگئی تھیں۔ پلکوں کے گھنے پن میں بھی اضافہ ہوا تھا اور بھنویں بھی زیادہ موٹی ہوگئی تھیں۔ ہونٹ کچھ موٹے ہوگئے تھے جس کا سبب غالباً وہ ٹیکے تھے جو بانو نے میرے ہونٹوں پر لگائے تھے۔ اس وقت میرے منہ سے ہلکی ہلکی دو سسکاریاں نکل گئی تھیں۔ میرے دانتوں پر انہوں نے نہ جانے کس چیز کے خول چڑھائے تھے کہ دانت، دانت ہی معلوم ہورہے تھے لیکن قدرے چمکیلے اور تھوڑے سے بڑے ہوگئے تھے جس کی وجہ سے میرے ہونٹ کچھ آگے بھی نکل آئے تھے۔ میرے سیاہ بالوں کا رنگ، سیاہ نہیں رہا تھا۔ تین مختلف رنگوں کے بال تھے جیسا آج کل کی لڑکیاں بیوٹی پارلر سے کرواتی ہیں۔ میرے لمبے بال نہ جانے کس طرح چھوٹے اور گھونگریالے ہوگئے تھے اور میرے شانوں پر بکھرے ہوئے تھے۔ اگر مجھے یہ علم نہ ہوتا کہ یہ میرا ہی عکس ہے تو میں سے کوئی دوسری لڑکی سمجھتی۔ ’’یہ… یہ…یہ میں… میں ہوں… بانو؟‘‘ میں ہکلاگئی۔ بانو دھیرے سے ہنس دیں۔ ’’ہاں! یہ تمھی ہو لیکن اگر تم واقعی ایسی ہوتیں تو مجھے تم پر کبھی پیار نہ آتا۔ چلو اب باقی باتیں ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر سمجھائوں گی۔‘‘ میں شدید الجھن کے ساتھ بانو کا ہاتھ پکڑے ڈرائنگ روم میں پہنچی! بانو نے یہ سب کیوں کیا تھا؟ کل کے روزنامہ 92 نیوزمیں پڑھیے!