میں تیزی سے جمال کے قریب پہنچی اور دھیمی آواز میں بولی ۔ ’’ میں یہاں سے فوراً نکل جانا چاہتی ہوں ۔ پولیس کی وجہ سے میرا وقت ضائع ہوگا ۔ تم معاملہ سنبھال لوگے ؟ میں چولستان کی طرف جائوں گی ۔‘‘ ’’ جی ہاں ۔‘‘ جمال نے بھی آہستہ سے جواب دیا ۔ ’’ معاملہ تو میں سنبھال لوں گا پولیس ابھی کچھ دور ہے لیکن وہ آپ کی کار یہاں سے جاتے ہوئے تو دیکھ لے گی ۔ شاید وہ آپ کے پیچھے آئے ۔ ‘‘ ’’ وہ میں دیکھ لوں گی ۔ ‘‘ ’’ تو آپ جائیں !‘‘ سوٹ والا معنی خیز نظروں سے ہماری طرف دیکھ رہا تھا ۔ اب میں تیزی سے اپنی کار کی طرف بڑھی ۔ ’’ آپ کہاں بھاگ رہی ہیں محترمہ !‘‘ سوٹ والا بولا ۔ ’’ میں پولیس کو آپ کے فرار کے بارے میں بھی بتادوں گا ۔ ‘‘ میں نے سنی ان سنی کردی ، ڈرائیونگ سیٹ کا دروازہ کھول کر اندر بیٹھ گئی اور انجن اسٹارٹ کیا ۔ پولیس کی دو گاڑیاں اور ایک ایمبولینس اب صاف نظر آنے لگی تھیں ۔ میری کار کا رخ رحیم یار خان کی طرف تھا اس لئے مجھے چولستان کی طرف جانے کے لئے یوٹرن لینا پڑا اور پھر میں رفتار بڑھانے لگی ۔ بار بار میں اسکرین کی طرف بھی دیکھ لیتی تھی جس پر عقبی منظر دکھائی دے رہا تھا ۔ پولیس کی گاڑیاں جائے واردات پر پہنچنے ہی والی تھیں۔ یکایک وہ سارا منظر غائب ہوگیا اور اسکرین پر بانو دکھائی دینے لگیں ۔ ’’ تم جائے واردات سے کیوں نکل بھاگی ہو ؟‘‘ انہوں نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ پوچھا ۔ ’’ پولیس کو بیان دینے اور اس کی پوچھ گچھ میں وقت ضائع ہوتا ۔ میں چولستان کی طرف واپس جارہی ہوں ۔ وہاں کے حالات دیکھنا بھی ضروری ہے ۔ میں آپ کو بتاتی ہوںکہ میرے وہاں پہنچنے کے بعد کیا کیا ہوتا رہا ۔‘‘ ’’ وہ سب کچھ بتانے کی ضرورت نہیں۔ ‘‘ بانو نے کہا ۔ ’’ جب تم اس الٹی ہوئی کار کی طرف گئی تھیں اور جتنی دیر وہاں رکی تھیں ، اسی دوران میں مجھے وہ سب کچھ معلوم ہوچکا ہے۔ ‘‘ ’’ اللہ ڈینو کو فون کیا تھا آپ نے ؟‘‘ ’’ نہیں ۔ ‘‘ بانو نے جواب دیا ۔ ’’ وہ سب کچھ میرے باطن نے مجھے بتایا تھا ۔ ‘‘ ’’ باطن!‘‘ میں نے ایک طویل سانس لی ۔ ‘‘ یوں تو ہر شخص کا باطن ہوتا ہے لیکن آپ کا باطن؟ میں سمجھنے سے قاصر ہوں کہ وہ کیا کیا کرتا ہے۔ آپ نے بتایا تھا آپ اپنی لیبارٹری میں کوئی کام کررہی تھیں کہ آپ کو بے چینی ہوئی جو اتنی بڑھی کہ آپ کو میرا خیال آیا آپ یقینا اس کرسی پر جا بیٹھی ہوں گی جہاں سے آپ میری کار اپنے کنٹرول میں لے سکتی ہیں اور مجھ سے ویڈیو ٹاک بھی کرسکتی ہیں ۔ ’’ہاں ! ‘‘ اس وقت بھی یہی ہوا تھا۔‘‘ ’’آپ کا باطن ہے یا کوئی ماورائی طاقت جسے آپ نے کسی طرح اپنے بس میں کرلیا ہے ۔‘‘ ’’کچھ ایسی ہی بات سمجھو! ‘‘بانو ہنسیں۔ مجھے وہ وقت یاد آیا جب ایک بارمیں سوتے سے جاگی تھی تو بانو سے بانو ہی کو باتیں کرتے دیکھا تھا ۔ میں لفظ ’’دیکھا ‘‘ پر زور دوں گی میں نے دوسری بانو کے ہونٹ تو ہلتے ہوئے دیکھے تھے لیکن مجھے اس کی آواز نہیں سنائی دی تھی اگر میں نے اس کی آواز سنی ہوتی تو یہاں یہی لکھتی کہ میں نے بانو سے بانو ہی کو باتیں کرتے سنا تھا لفظ’’دیکھا ‘‘ میں نے اسی لئے لکھا ہے۔ کیا وہی بانو کا باطن تھا جو ’’غائب‘‘ سے ’’ظاہر‘‘ میں آیا تھا؟ میں نے سنا ہے اور کہیں پڑھا بھی ہے کہ ہر انسان کے اندر اس کا ہم زاد بھی ہوتا ہے جس کا کسی انسان کو ادراک نہیں ہوتا۔ تو کیا وہ جو مجھے دکھائی دی تھی، اسے میں بانو کی ہم زاد سمجھوں جسے بانو اپنا ’’ باطن ‘‘ کہہ رہی تھیں ۔ ایک پل میں یہ سارے خیالات میرے ذہن میں چکرا گئے۔ بانو کہہ رہی تھیں ۔ ’’میں اپنا ایک کام ادھورا چھوڑ کر تمہاری طرف متوجہ ہوئی تھی ۔ میں ایک خاص ایجاد کرنا چاہتی ہوں اب میں اسی کی طرف توجہ دوں گی ۔ تم پہنچو چولستان ‘‘۔ ’’میرے دماغ میں اس وقت ایک سوال بڑی شدت سے کلبلایا ہے ‘‘۔ ’’ وہ پھر کسی وقت کرلینا ۔گاڈ بلیس یو‘‘۔ بانو اسکرین سے غائب ہوگئیں ۔ میں کسمسا کر رہ گی پہلے بھی اس معاملے میں بانو مجھے ٹال گئی تھیں میں نے ایک ٹھنڈی سانس لے کر اسکرین کی طرف توجہ دی جس پر پیچھے کا منظر دکھائی دے رہا تھا میں نے بانو کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق منظر کی رینج بڑھائی اور دور تک دیکھا مجھے خیال تھا کہ شاید کوئی پولیس موبائل میرا تعاقب کرے لیکن میں نے کوئی موبائل نہیں دیکھی میں نے کار کی رفتار پچاس میل سے زیادہ اس لئے نہیں کی تھی کہ پولیس اگر میرا تعاقب کرے تو آسانی سے مجھ تک پہنچ جائے میں ان لوگوں کو اپنے محکمے کا شناخت کارڈ دکھا کر ان سے پیچھا چھڑا لیتی لیکن ایسی صورت نہیں بنی تو میں نے کار کی رفتار بڑھانی شروع کی ۔میں جلد از جلد اﷲ دینو کے ڈیرے پر پہنچ جانا چاہتی تھی ۔ مجھے خیال آیا کہ پولیس نے میرا تعاقب کیوں نہیں کیا؟ اس سوال کا جواب جاننے کے لئے میں نے موبائل پر جمال سے رابطہ کیا معلوم ہوا کہ اس نے پولیس کو نہ صرف اپنا شناختی کارڈ دکھا دیا تھا بلکہ میرے بارے میں بھی بتا دیا تھا ۔یہی وجہ تھی کہ پولیس نے میرا تعاقب نہیں کیا تھا۔ ’’سوٹ والے نے کیا بیان دیا؟‘‘ میں نے پوچھا۔ ’’ سادہ بیان دیا اس نے کہ جب وہ یہاں پہنچا تو اس نے الٹی ہوئی کار کے قریب ہمیں دیکھا تھا ۔اس نے آپ کو نہ جانے کی قسم کی دھمکی دی تھی !‘‘ ’’ وہ چھوڑو۔اس کی کار کا نمبر یاد کرلو یا لکھ لو۔معلوم کرنا کہ وہ کس کے نام سے رجسٹر ہے !‘‘ ’’جی بہتر‘‘۔ میں نے رابطہ منقطع کردیا۔ جب میں اﷲ ڈینو کے ڈیرے پر پہنچی تو عدنان ،اﷲ ڈینو اور عماد،جونی کے کمرے میں تھے ۔ اﷲ دینو نے کہا ۔’’ایک ملازم دوڑتا ہوا آیا تھا اور اس نے اطلاع دے دی تھی کہ آپ آگئی ہیں ‘‘۔ جونی پریشان اور خاموش بیٹھا ہوا تھا۔ ’’ اسے پکڑ نہیں سکیںآپ؟‘‘ عماد نے سوال کیا ۔ ’’پکڑ ہی لیتی لیکن تیز رفتاری میںوہ کوئی بے تکی حرکت کر بیٹھا اور اس کی کار حادثے کا شکار ہوگئی ۔‘‘میں نے صرف یہ جواب نہیں دیا بلکہ سبھی کچھ بتا دیا سوائے جمال اور اس شخص کے علاوہ جو بعد میں وہاں پہنچا تھا۔ ’’وہ زندہ بھی بچا ہوگا یا نہیں !‘‘ عماد نے کہا۔ ’’کل تک معلوم کرلوں گی‘‘۔ میں نے اسے فری میسن لاج کے نشان کی بابت کچھ نہیں بتایا ۔ فری میسن لاج کے نشان سے کیا فائدہ ہوا؟ یہ آئندہ اقساط میں پڑھیئے ‘ روزنامہ 92میں