ملازمتی مجبوری کے تحت مجھے نیا بینک اکائونٹ کھولنا پڑا‘ پتہ چلا کہ اب یہ جان جوکھوں کا کام ہے یہ دستاویز‘ وہ دستاویز‘ یہ تفصیل‘ وہ تفصیل۔ سر چکرا گیا۔ چند سال پیشتر مکان بیچا بیعانہ کا ڈرافٹ جمع کرایا تو دوسرے روز بنک سے فون آیا ذرا تشریف لائیے اور بنک کو مطمئن کیجئے کہ یہ رقم آپ کو کہاں سے ملی‘ حتیٰ کہ ایک بنک سے دوسرے بنک اکائونٹ میں رقم منتقل کی تو ٹیکس وکیل نے پوچھی کہ منتقلی کی وجہ پوچھی؟ کھاتہ دار کواپنے ہی اکائونٹ سے پچاس ہزار روپے سے زائد کی رقم نکلوانی پڑے تو کیشئر شناختی کارڈ کی کاپی طلب اور بنک منیجر سے ویریفکیشن کا تقاضا کرتا ہے اس ملک میں ‘جس کا میں باشندہ ہوں مگر ایک غریب فالودے والے‘ رکشے والے اور معمولی سیلز مین کے بنک اکائونٹ میں کروڑوں نہیں اربوں کی ٹرانزیکشن ہوتی رہی ‘مُردوں کے اکائونٹس بھی خوش اسلوبی سے چلتے رہے‘ بنک حکام کو پتہ چلا نہ آڈیٹرز نے پوچھا اور نہ ایف بی آر‘ ایف آئی اے اور وائٹ کالر کرائم کی روک تھام کرنے والے کسی دوسرے ادارے کو کانوں کان خبر ہوئی‘ جب سپریم کورٹ کے احکامات پر چھان بین کے دوران ان اکائونٹس کا انکشاف ہوا تو کوئی بنک تسلی بخش جواب نہ دے سکا۔ غالباً افلاطون کا قول ہے کہ قانون کمزورکے لیے اکٹوپس ہے جو ایک بار جکڑ لے تو پھر بچ نکلنا محال مگر طاقتور کے لیے تارعنکبوت‘فقط مکڑی کا جالا۔دنیا کے کسی اور ملک میں ہو نہ ہو پاکستان میں یہ حقیقت ہے۔ قانون طاقتور کے لیے کچا کمزور دھاگہ نہ ہوتا تو پیپلز پارٹی کے شریک سربراہ آصف علی زرداری ان اکائونٹس کے بارے میں یہ نہ کہتے کہ اگر میرے بھی ہیں تو کیا پروا‘ بنک والے پھنسیں گے۔ یہ اس قوم کے لیڈر ہیں جو کلمہ گو‘ عشق رسول ﷺ کی دعویدار اور حضرت عمر ؓ و حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی پرستار ہے۔ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا کہ پچھلی قومیں قانون کے امتیازی نفاذ کی وجہ سے تباہ ہوئیں‘ حضرت عمر ؓ سے کرتے کا حساب مانگا تو انہوں نے یہ جواب نہیں دیا کہ ’’تمہیں کیا ؟‘‘بلکہ صاحبزادے سے گواہی دلوائی جبکہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم یہودی شہری کی شکائت پر نہ صرف عدالت میں پیش ہوئے بلکہ مقدمہ ہار گئے‘شکوہ شکائت درکنار‘ ماتھے پر شکن نہ لائے۔ جب تک ہماری رول ماڈل ریاست مدینہ رہی اور قابل تقلید مثالیں وہ شخصیات جن پر تاریخ کو فخر ہے اور زمانہ جن کے روبرو مؤدب ‘ کسی کو غلطی اور کمزوری پر اترانے اور قانون کو آنکھیں دکھانے کی جرات تھی نہ ڈھٹائی سے ریاستی اداروں پر غرانے کا حوصلہ۔ قانون کا احترام تھا‘ عملدرآمد لازم اور جرم پر ندامت۔ پاکستان میں قانون کی مٹی پلید کرنے کا آغاز اس وقت ہوا جب سول اور فوجی حکمرانوں نے اپنی سیاسی ضرورتوں اور بیرونی آقائوں کی خوشنودی کی خاطر مافیاز سے گٹھ جوڑ کیا‘ جرائم پیشہ عناصر کی سیاسی جماعتوں اور ریاستی اداروں میں آئو بھگت شروع ہوئی اور شرافت کو کمزوری کے ہم پلہ‘ سیاست کے منافی فعل تصور کیا جانے لگا۔ ڈھٹائی کا یہ عالم ہے کہ کوئی مجرم قانون کی گرفت میں آنے پر اپنی صفائی پیش نہیں کرتا بلکہ یہ دہائی دیتا ہے کہ میں اکیلا مجرم تو نہیں یہ کام فلاں فلاں بھی تو کر رہا ہے پہلے اُسے پکڑو پھر مجھ سے پوچھو‘ سہولت ایسے ڈھیٹ مجرموں کو یہ حاصل ہے کہ اس طرح مصرعہ پر سیاستدان‘ دانشور‘ تجزیہ کار اور مذہب و اخلاقیات کے علمبردار بھی کمال بے شرمی سے گرہ لگاتے اور داد پاتے ہیں۔ کوئی تصور کر سکتا ہے کہ جیسے جیسے سکینڈل مسلم لیگ(ن) پیپلز پارٹی اور تحریک کے بعض لیڈروں کے سامنے آ رہے ہیں‘ منی لانڈرنگ‘ جعلی اکائونٹس اور بے نامی جائیدادوں کے انکشافات ہو رہے ہیں۔ ویسا ایک سکینڈل کسی سیاستدان کا امریکہ‘ برطانیہ اور کسی دوسرے جمہوری ملک میں آیا ہوتا تو وہ گرامی قدر پھر بھی پارلیمنٹ میں براجمان قوم کو بھاشن دے رہا ہوتا یا نیب‘ ایف آئی اے اور حکومت کا منہ چڑا سکتا۔ یہ سہولت اسلام کے نام پر جمہوری اصولوں کے تحت وجود میں آنے والی ریاست کے سیاستدانوں اور مافیاز کو حاصل ہے اور انہیں ہی باشعور و غیرت مند عوام اپنے ووٹ سے نوازتے ہیں۔ جاپانی سیاستدان اور بیورو کریٹس معمولی سکینڈل سامنے آنے پر خودکشی کر لیتے ہیں تو وجہ کیا ہے؟ان کا ضمیر زیادہ بیدار ہے‘ تربیت پختہ‘ معاشرتی دبائو ناقابل برداشت یا سیاسی نظام طاقتور کہ وہ خود کشی میں ہی عافیت محسوس کرتے ہیں جبکہ ہمارے رہنمایان کرام الاماشاء اللہ ان چیزوں سے مبرا ہیں ہاضمے ان کے تیز‘ بے شرمی میں وہ طاق اور ڈھٹائی ان کا شیوہ‘ ورنہ بڑے بڑے سکینڈل سامنے آنے پر ان میں کوئی ایک کم از کم شرمندگی کے مارے سیاست سے ریٹائرمنٹ کا اعلان تو کرتا۔ عمران خان پاکستان کو ریاست مدینہ کی طرز پر چلانے کا ارادہ رکھتے ہیں‘ ان کے منہ میں گھی شکر‘ مگر انہیں ریاست مدینہ کے قیام میں درپیش مشکلات کا احساس ہونا چاہیے ۔ اقبال کے بقول: بگویم چو مسلمانم بلرزم کہ دانم مشکلات لا الہ را (جب میں اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہوں تو کانپ اٹھتا ہوں کہ مجھے لا الہ کہنے کی مشکلات کا مکمل ادراک و احساس ہے) وہ دھن کے پکے ہیں اور حصول مقصد کے لیے مخلص مگر انہیں اپنے ان ساتھیوں کی قربانی دینی پڑے گی جن کا نام لے کر اپوزیشن احتساب کے عمل پر انگلیاں اٹھاتی اور نیب کو سیاسی انتقام کا ادارہ قرار دیتی ہے۔ الزام تراشی ‘ کردار کشی اور بہتان طرازی سے مرعوب ہونے کی ضرورت ہے نہ اپنے جرائم چھپانے کے لیے دوسروں پر گند اچھالنے کے عادی سیاستدانوں کا دبائو قبول کرنے کی حاجت‘ مگر بلند اخلاقی معیار قائم کرنے میں حرج نہیں۔ لوٹ مار ‘ منی لانڈرنگ‘ جعلی اکائونٹس‘ بے نامی جائیدادوں اور بیرون ملک اثاثوں کا خاتمہ مشکل ہے ناممکن نہیں‘ کرپشن کا سدباب کئے بغیر ہم ترقی و خوشحالی کی منزل طے کر سکتے ہیں نہ اقوام عالم میں اعتبار قائم۔ قرضوں کی معیشت اور کرپشن ‘نااہلی کا ملاپ قومی سلامتی کے لیے خطرہ ہے سنگین خطرہ۔نجات آئی ایم ایف دلا سکتی ہے نہ چین و سعودی عرب کا خوشدلانہ تعاون۔ احتساب کا بے رحم کوڑا برسے عدل و انصاف‘ قانونی کی حکمرانی اور مساوات کا شفاف نظام مستحکم ہو اور ہائی پروفائل مجرموں سے وہی سلوک کیا جائے جو تھانوں‘ کچہریوں‘ میں معمولی جرائم پیشہ افراد سے ہوتا ہے۔ تفتیشی‘ حوالدار ہو‘ خاطر تواضع کا حوالدارانہ انداز اور زبان پر: چن کتھے گزاری ہئی رات وے پھر دیکھتے ہیں کوئی کیسے نہیں مانتا‘ اندرون و بیرون ملک اکائونٹس‘ جائیدادوں اور دیگر اثاثوں کی تفصیل سے نہیں بتاتا۔ جس ملک میں ملزمان کو اسمبلی کا فلور اور میڈیا کی آزادی دستیاب فائیو سٹار سہولتیں میسراور نیب و ایف آئی اے کی زبان بندی کا دستور ہو وہاں کسی بڑے سے بڑے مجرم کو کیا پڑی ہے کہ قانون سے ڈرتا‘ گھبراتا پھرے۔ بقول فیض احمد فیض: ہے اہل دل کے لیے یہ نظم بست و کشاد کہ سنگ و خشت مقید اور سگ آزاد