سونیا الجھے ہوئے لہجے میں مجھ سے بولی ۔ ’’گھوڑا یہاں کیسے آگیا ؟ ‘‘ سونیا اٹھ کر دروازے کی طرف گئی ۔ ذرا دیر کھڑی باہر دیکھتی رہی ، پھر تیزی سے میری طرف واپس آئی اور بولی وہ خود ہی دونوں مشین گنیں اٹھا کر…‘‘ وہ چپ ہو گئی ۔ بانو مشین گنیں اٹھائے اندر آرہی تھیں ۔ مشین گنیں رکھ کر وہ پھر باہر گئیں ۔ سونیا پھر دروازے پر گئی ۔ بہ مشکل ایک منٹ بعد میں نے گھوڑے کی ٹاپیں سنیں ۔ وہ جارہا تھا کہ سونیا میری طرف لوٹی۔ میں ٹاپوں کی آواز میں اضافہ سن رہی تھی ۔ گھوڑا اپنی رفتار بڑھا رہا تھا ۔ سونیا نے مجھ سے کہا ’’بانو نے گھوڑے کی پیٹھ پر دوبارہاتھ مارا اور وہ مڑکر چل دیا ۔ اب اس کی رفتار بھی …‘‘ اسے ایک بار پھر چپ ہوجانا پڑا ۔ بانو اب اندر آئیں ۔ اس بار دو تھیلے ان کے ہاتھوں میں تھے جن میں مشین گنیں لائی گئی تھیں ۔ ایک تھیلا خالی اور دوسرے میں کچھ وزن تھا ۔ ’’اس میں کھانے پینے کی چیزیں ہیں۔ ‘‘ بانو نے تھیلے نے کو ایک طرف رکھتے ہوئے وزنی تھیلے کی طرف اشارہ کیا ، پھر بولیں ۔ ’’ایک مشین گن سامنے اور دوسری مکان کے عقب میں لگانی ہیں۔ ‘‘ اگر طالبان نے حملہ کیا تو ان کا مقابلہ مشین گنوں سے ہی کیا جاسکتا ہے ۔ تم مشین گن چلا سکتی ہو ؟ ‘‘ان کا سوال سونیا سے تھا ۔ ’’جی ہاں‘‘ ۔ ’’بس تو ایک مشین گن تم سنبھالو گی اور دوسری میں ، اگر انھوں نے دوجانب سے حملہ کیا ۔‘‘ ’’دائیں بائیں سے بھی حملہ کرسکتے ہیں ۔‘‘ میں بول پڑی ۔ ’’ تو اس صورت میں مشین گنیں اس طرف منتقل کی جاسکتی ہیں ۔‘‘ ’’آپ نے اپنا گھوڑا بھگادیا؟ ‘‘ ’’ہاں ۔‘‘ بانو مسکرائیں ۔ ’’ اگر وہ طالبان کے ہاتھ لگ جائے تو بہت اچھا ہے ۔‘‘ بانو نے جواب دیتے ہوئے تھیلے میں سے ایئر فون نکال کر اپنے بائیں کان سے لگا لیا۔‘ ‘ گھوڑے کے جسم میں ایک ایسی ’’چپ‘‘ لگا دی ہے جو آوازیں کیچ کر کے انھیں میرے اس ایئر فون تک پہنچا دے گی ۔ میں ان لوگوں کی باتیں سن سکوں گی ۔‘‘ ’’آپ ایک حیرت انگیز خاتون ہیں ۔‘‘ سونیا نے بے اختیار کہا ۔ بانو نے اس کی بات نظر انداز کردی اور بولیں۔’’ آئو ، پہلے مشین گنیں لگا دیں ۔‘‘ سونیا ان کے ساتھ ہو لی ۔ میں اس وقت اپنی تکلیف کے باوجود سوچنے لگی ، مجھے ایک ایسی عورت سے محبت ہوئی ہے جو غیر معمولی بلکہ مافوق الفطرت صلاحیتوں کی مالک ہیں ۔ ’’ رات بھر ہم میں سے ایک جاگے گا اور ایک سوئے گا ۔ ‘‘ بانو نے اس وقت کہا جب ہم نے کھانا ، کھانا شروع کیا ۔ ’’ جاگنے والے کو مکان کے ارد گرد کا خیال رکھنا ہوگا۔‘ ‘ ’’پہلے آپ سوجائیے گا۔ ‘‘سونیا نے کہا ۔ ’’ میری تو نیند اڑی ہوئی ہے ۔‘‘ ’’ ایسا کرلیں گے ۔‘‘ کھانے کے بعد میں نے سونیا سے کہا ۔ ’’ میرا سیٹلائٹ فون نکال کر میرے سرھانے رکھ دو،میں اسے اپنے جلے ہوئے ہاتھوں سے بہ مشکل ہی استعمال کر سکوں گی ۔‘‘ کھانابھی میں نے خود نہیں کھایا تھا ۔ بانو مجھے کھلاتی رہی تھیں ۔ ’’ اب ہمیں آرام کرنا چاہیے ۔‘‘ بانو نے کہا ۔ ’’بہت تھکا دینے والا وقت گزرا ہے۔ ‘‘ ’’ آپ گھوڑے پر تھیں ۔‘‘ میں نے کہا ۔ ’’ اس کی ٹاپوں کی وجہ سے طالبان آپ کی طرف متوجہ نہیں ہوئے ؟ ‘‘ ’’ میں گھوڑے کے سموں پر اسفنج اور ربر چڑھائے ہوئے تھی ۔ بس تمہاری طرف آتے ہوئے ایسا نہیں کیا تھا۔ ‘‘ ’’کیوں؟ ‘‘ ’’اب تم آرام کرو ، سو جائو تو بہتر ہے ۔ بہت سے سوالات ہوں گے تمھارے ذہن میں، بعد میںپوچھ لینا۔‘‘ ’’ابھی تو مجھے فون کرنا ہے ۔ مسٹر داراب سے میں نے کہاتھا کہ تفصیلی رپورٹ بعد میں دوں گی۔ ‘‘ ’’ میں نمبر ملا کر فون آپ کو دے دوں ؟‘‘ سونیا بولی۔ ’’ دے دو۔‘‘ میں نے کہا۔ ’’سرہانے رکھ دو۔ میں کروٹ لے کر اس سے کان لگا دوں گی۔ ‘‘ سونیا نے نمبر ملا کر فون میرے سرھانے رکھ دیا ۔ میں نے اس کی طرف کروٹ لی ۔ سونیا نے فون کا زاویہ اس طرح بدلا کہ میں سن بھی سکوں اور بول بھی سکوں ۔ دو گھنٹیوں کے بعد مسٹر داراب کی آواز آئی۔’’ میں بے چینی سے منتظر تھا ۔ ‘‘ میں نے انھیں ان تمام حالات کی رپورٹ دے دی جو ابھی تک انھیں نہیں دے سکی تھی ۔ ’’اس مہم میں کئی شہادتیں ہوگئیں ۔‘‘ مسٹر داراب نے ٹھنڈی سانس لی ۔’’ اب بھی تم آگے بڑھنا چاہتی ہو جبکہ تمھارا رہ بر دنیا میں نہیں رہا ۔‘‘ اشارہ علی محمد کی طرف تھا ۔ میں نے جواب ۔ ’’’ اس نے مجھے نقشہ بناکر دیا تھا ۔ آپ کے علم میں ہے ۔‘‘ ’’بگ پرسن نے کہا تھا کہ پہاڑی علاقے میں نقشہ کسی وقت بھٹکا بھی سکتا ہے ۔‘‘ ’’بھٹک کر بھی پہچان ہی جائوں گی ۔ اپنا مشن ادھورا نہیں چھوڑوںگی۔ ‘‘ میں نے کہا ۔ ’’ اب بانو بھی میرے ساتھ ہیں۔ ‘‘ ’’مجھے علم ہوچکا ہے ۔ ہیلی کوپٹر کے پائلٹ نے اپنے آفیسر کو رپورٹ دی تھی ۔ وہ مجھے فون پر بتا چکے ہیں ۔ اس غیر معمولی عورت کے بارے میں ایک اور عجیب بات معلوم ہوئی ہے۔ ‘‘ اس وقت بانو اور سونیا باہر کا جائزہ لینے کے لیے کمرے سے نکل گئی تھیں ۔ مسٹر داراب نے کہا ۔ ’’ ایک بوڑھے شخص نے تمھاری دوست بانو کو دیکھا ہے ۔ اس کا بیان ہے کہ پچاس سال پہلے اس نے بالکل ایسی ہی ایک عورت کو دیکھا تھا ۔ اس میں اور تمھاری دوست بانو میں ذرا بھی فرق نہیں ہے ۔ وہ عورت بھی بانو ہی کے نام سے مشہور تھی ۔ دونوں کی چال ڈھال میں بھی کوئی فرق نہیں ہے ۔‘‘ ’’ اس کا پورانام کیا تھا؟‘‘ میں نے جلدی سے پوچھا ۔ ’’ بوڑھے نے بتایا تو ہوگا!‘‘ ’’صبیحہ بانو۔ ‘‘ مسٹر داراب نے بتایا۔ ’’ تمھاری دوست کا پورا نام کیا ہے ؟‘‘ ’’ میں نے کبھی ان سے پوچھا ہی نہیں ۔ کسی اور سے بھی ان کا پورا نام نہیں سنا لیکن اب پوچھوں گی ان سے ! ‘‘ ’’ضرور پوچھنا۔ ‘‘ ’’ ایسی حیرت انگیز مشابہت کے بارے میں سنا تو ہے۔ ‘‘ بانو کے بارے میں مزید چند باتوں کے بعد گفت گو ختم ہوگئی ۔ میں نے انگلی سے موبائل کا بٹن دبا کر رابطہ منقطع کیا تھا ۔ میرا دماغ شدید الجھن کا شکار ہوگیا ۔ کیا یہ وہی بانو ہیں ؟ لیکن پچاس سال بعد تو اس بانو کو بوڑھا ہونا چاہیے تھا ، لیکن اس بات کے ساتھ میرے ذہن میں یہ خیال آیا کہ میری دوست غیر معمولی صلاحیتوں کی مالک ہیں ۔ میں نے بانو اور سونیا کے قدموں کی آہٹ سنی تو آنکھیں بند کرلیں ۔ میں اس معاملے میں بانو سے فوری طور پر بات نہیں کرنا چاہتی تھی ۔ ’’اچھا ہوا صدف کو نیند آگئی ۔‘‘ میں نے بانو کی آواز سنی ۔ میں آنکھیں بند کیے رہی ۔ خیالات میرے ذہن میں چکراتے رہے ۔ پھر کسی وقت مجھے نیندآ ہی گئی ۔ بانو نے کھانے کے بعد مجھے ایک دوا کھلائی تھی ۔ شاید اسی کا اثر ہو کہ پیروںمیں شدید تکلیف کے باوجود میں سو گئی ۔ پھر میری آنکھ کئی طیاروں کی گھن گرج سے کھلی ۔ وادی کی فضا میں طیاروں کی آمد کا مقصد ؟ اس سوال کا جواب کل کے اخبار میں پڑھیے !