اب تو سندھ کا موسم کافی خوشگوار ہوگیا ہے۔ صحرائے تھر میں بھی اچھی بارش ہوئی ہے۔ ماروی کے ملک والے مور اور وہاں کے باشندے کافی خوش ہیں۔ بارشوں سے قبل سندھ میں شدید گرمی تھی ۔ مگر ان بارشوں کے باوجود سندھ میں پیپلز پارٹی (شہید بھٹو) کے کارکنان کراچی سے لیکر کشمور تک اس لیے سراپا احتجاج تھے کہ سی ایم سندھ مراد علی شاہ نے کراچی میں موجود سعیدآباد پولیس ٹریننگ سینٹر کا نام سابق اے آئی جی مرحوم شاہد حیات کے نام رکھنے کا اعلان کیا۔ شاہد حیات ان پولیس افسران میں شامل تھے جن پر میر مرتضی بھٹو کے قتل کا مقدمہ درج تھا۔ مرتضی بھٹو کی بیوہ اور پیپلز پارٹی (شہید بھٹو) کی چیئر پرسن غنویٰ بھٹو نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ ’’سید مراد شاہ اپنے والد عبداللہ شاہ کا نہ صرف خاندانی بلکہ سیاسی وارث بھی ہے۔ اس لیے اس نے اپنے والد کے نور نظر پولیس افسر کے نہ صرف جنازے میں شرکت کی بلکہ اس نے اس پولیس افسر کا نام پولیس سینٹر پر رکھا جس کی وجہ شہرت یہ ہے کہ ان کا نام مرتضی بھٹو قتل کیس میں شامل ہے‘‘ غنویٰ بھٹو نے اپنی پارٹی کارکنوں کو پورے ہفتے کے احتجاج کی کال دی اور وہ احتجاج اس وقت شدت اختیار کرگیا جس وقت میر مرتضی بھٹو کی بیٹی اور پاکستان کی مشہور مصنفہ فاطمہ بھٹو نے اپنے ٹویٹ میں حکومت سندھ کے اس فیصلے کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ’’اس پولیس ٹریننگ سینٹر پر یہ نام پڑھ کر عوام کو سانحہ 20 ستمبر یاد آتا رہے گا‘‘ اس کے علاوہ انہوں نے اپنی ایک اور ٹویٹ میں یہ سوال بھی اٹھایا کہ سندھ کے پولیس ٹریننگ سینٹر پر شاہد حیات کا نام رکھ کر حکومت سندھ کس قسم کے پولیس اہلکار پیدا کرنا چاہتی ہے‘‘ یہ ان دنوں کی بات ہے جب قومی اسمبلی میں بلاول بھٹو زرداری کی تقریر کے جواب میں مراد سعید نے سخت لہجے والی تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ’’فاطمہ بھٹو اصل بھٹو ہے اور ان کے والد کے قتل میں ملوث پولیس افسر کا نام پولیس ٹریننگ سینٹر پر رکھ کر آپ سندھ کے لوگوں کو کیا جواب دینگے؟‘‘ تحریک انصاف کے نوجوان اور خوبرو وفاقی وزیر کی یہ بات سندھ کے سینے میں وہ زخم پھر سے تازہ کر گئی جس زخم کا نام بھٹو خاندان ہے۔عام طور پورے پاکستان کے لیے زیڈ اے بھٹو کا نام بھلانا آسان نہیں ہے مگر اہلیان سندھ کا بھٹو سے وہ رشتہ ہے جس کا تذکرہ کرتے ہوئے بھٹو صاحب نے اپنے جیل میں لکھے ہوئے ایک خط میں لکھا تھا کہ ’’میں سندھ کا رانو ہوں اور سندھ میرا صدیوں تک انتظار کرے گی‘‘ ذوالفقار علی بھٹو کا اشارہ سندھ کی مشہور لوک کہانی ’’مومل رانو‘‘ کی طرف تھا۔ مومل وہ عورت تھی جس کا رانو نامی مرد سے عشق تھااور اس کے انتظار کو شاہ عبدالطیف نے اپنے کلام میں اس طرح پیش کیا ہے جس طرح ہیر کا درد وارث شاہ کے کلام میں سلگتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔سندھ کے لوگ اب تک بھٹو کی باتیں اس طرح کرتے ہیں یہ حقیقت ہے کہ سندھ کے لوگ اب تک بھٹو خاندان کے شہداء کے بارے میں سن کر آب دیدہ ہوجاتے ہیں۔ جس دنوں کے دوراں بیرون ملک بسنے والی فاطمہ اور ان کے بھائی ذوالفقار جونیئر نے اپنے والد کے قتل کیس کے ایک اہم جوابدار کا نام پولیس ٹریننگ سینٹر پر رکھنے کے سلسلے میں سوشل میڈیا پر احتجاج کیا ان دنوں ذوالفقار علی بھٹو کے بعد فرانس میں پراسرار حالات میں جاں بحق ہونے والے ان کے سب سے چھوٹے بیٹے شاہنواز کی برسی رواں ماہ کے 18 تاریخ کو تھی۔ اس برسی کے موقع پر بھی فاطمہ بھٹو اور ذوالفقار علی بھٹو جونیئر نے اپنے چچا کو محبت سے یاد کیا ۔ سندھ کے سوشل میڈیا پر شاہنواز بھٹو کے بارے میں جذباتی پوسٹس اپلوڈ ہوتی رہیں اور ان کی وہ تصاویر وائرل کی گئیں جن کو دیکھ کر یہ بات یاد آجاتی ہے کہ’’ بھٹو خاندان کے لوگ بوڑھے ہوکر نہیں مرتے‘‘ کیا بھٹوز نے اس لیے جنم لیا ہے کہ وہ جوانی میں موت کا پیالہ نوش کریں؟ اس بات پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے ذوالفقار جونیئر نے فارن میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں اس وقت ملک جا کر سیاست کرنا نہیں چاہتا۔ کیوں کہ میں اس وقت مرنا نہیں چاہتا اور اس نے یہ بھی کہا تھا کہ بات صرف میری نہیں بات ان معصوم لوگوں کی بھی جن کی زندگیوں میں میری خاطر خطرہ ہو سکتا ہے۔عرصہ دراز سے ذوالفقار علی بھٹو کی پوتی اور کابل میں جنم لینے والی میر مرتضی بھٹو کی بیٹی فاطمہ بھٹو سے مطالبے ہوتے رہے ہیں کہ پاکستان آئے اور اپنے خاندان کا مشن آگے بڑھائے مگر اس قسم کے مطالبات کرنے والے بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ بھٹو خاندان کا راستہ ہمیشہ خطرات سے گھرا رہتا ہے۔ عوام کے ساتھ بھٹوز کی الفت یک طرفہ نہیں رہی۔ بھٹو خاندان نے ہمیشہ عوام سے محبت کی ہے۔ یہی وجہ سے آج بھی پورے سندھ میں بھٹوز کے حوالے سے لوگوں کے پاس بہت ساری باتیں اور بہت ساری یادیں ہیں اور وہ انہیں پاکستان کے باقی سیاستدانوں سے مختلف سمجھتے ہیں۔ اس سلسلے میں اہم سوال یہ ہے کہ اگر عوام کو بھٹو خاندان سے محبت ہے تو پھر وہ زرداری کے حق میں ووٹ کیوں کرتے ہیں؟ اس کے دو جوابات ہیں۔ ایک تو سندھ کے لوگوں کے پاس اور کوئی متبادل نہیں اور دوسری اہم بات یہ ہے کہ سندھی عوام کے ذہنوں میں یہ بات بیٹھی ہوئی ہے کہ ووٹ دینا ہے تو پیپلز پارٹی کو۔ اس لیے وہ تیر پر ٹھپہ لگانے کے عادی ہیں۔ حالانکہ پیپلز پارٹی کی موجودہ قیادت نے سندھ کے لوگوں کو کچھ نہیں دیا اور نہ سندھ کے لوگوں کو کوئی امید ہے کہ انہیں زرداری خاندان سے کچھ مل پائے گا مگر جب پیپلز پارٹی والے ذوالفقار علی بھٹو اور ان کی بیٹی بینظیر بھٹو کی تصاویر لہراتے ہیں اور وہ سیاسی نغمے بجاتے ہیں جن میں بھٹو اور پیپلز پارٹی کا نام بار بار لیا جاتا ہے تو وہ پیپلز پارٹی کو ووٹ دینے کے لیے مجبور ہوجاتے ہیں۔ سندھ کی سیاست اب تک ماضی کے مزاروں میں کسی سوکھے ہوئے پتے کی طرح اڑ رہی ہے۔ جس طرح پنجاب اور خیبر پختون خوا میں نئی سیاست نے کروٹ لی ہے اس طرح سندھ میںاب تک کوئی قابل ذکر ہلچل نہیں ہے۔ ویسے تو بلوچستان کی سیاست میں بھی ساکن ہے مگر اس کا سبب سرداری نظام اور معاشرتی پس ماندگی ہے۔ بلوچستان نے ملکی سیاست میں کبھی بھی ایسا کردار ادا نہیں کیا جس طرح ماضی میں سندھ نے کیا ہے۔ ایک دور ایسا تھا جب سندھ میں سیاسی شعور اپنی بلندی پر تھا۔ اس وقت نھ صرف سندھی زباں میں سیاسی ادبی کتابیں بڑی مقدار میں شایع ہوتی تھیں بلکہ اس دور میں سندھ اردو زباں کی کتابوں کو بہت بڑا مارکیٹ تھا ۔ سندھ میں اب بھی کتابیں پڑھنے والے موجود ہیں مگر اب ایک تو ان کی تعداد ماضی کے مقابلے میں کم ہے وار دوسری اہم بات یہ ہے کہ اب سندھ میں وہ سیاسی تحرک نظر نہیں آتا جو کسی دور میں سندھ کی پہچان تھا۔ سندھ کے لوگ امید پرست ہیں۔ ان کو یقین ہے کہ ایسا وقت ضرور آئے گا جب سندھ کی صورتحال تبدیل ہوجائے گی۔ جس طرح صحرائے تھر میں بادل برستے ہیں اس طرح سندھ پر بھی سیاسی ساون کی بارش ہوگی۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا سندھ کے سیاسی ساون میں بھٹو خاندان بادل بن کر برسیں گے؟ امید تو بہت ہے مگر خدشات بھی کم نہیں۔جب وہ وقت آئے گا تب دیکھا جائے گا۔ اس وقت تو سندھ میں سیاسی منظر بہت افسردہ ہے۔ سندھ میں سیاست ماضی کے مزار میں ہواؤں کی دوش پر اڑتے ہوئے پتے کا کردار موضوع بحث ہو تو دل درد سے بھر جاتا ہے۔ حالانکہ ابوالکلام آزاد نے سچ کہا ہے کہ ’’سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا‘‘