بلند بانگ دعوؤں اور پاکستان کو اقتصا دی طور پر جنت نظیر بنانے کی ڈینگوں کے باوجود ملکی معیشت کا حال انتہائی پتلا ہے اور وزیراعظم عمران خان خود اس صورتحال پر خاصے متشوش ہیں۔ خوشامدیوں کی طرف سے سب اچھا ہے اور مبارک سلامت کے ڈونگرے برسائے جا رہے ہیں لیکن مقام شکر ہے کہ ہمارے ملک کے چیف ایگزیکٹو کے پاؤں ابھی تک زمین پر ہیں اور انھیں حالات کی نزاکت کا بخوبی ادراک ہے لیکن شاید ان کی کابینہ کے ارکان کی اکثر یت اور نورتن حقیقت حال سے واقف نہیں ہیں، وہ یہی ڈفلی بجائے جا رہے ہیں کہ آئی آر آئی یعنی انٹرنیشنل ری پبلیکن انسٹی ٹیوٹ سروے کے مطابق حکمران جماعت تحریک انصاف 34 فیصد عوامی حمایت کے ساتھ مقبول ترین سیاسی جماعت ہے، مسلم لیگ ن کی عوامی حمایت 21 فیصد اور پیپلز پارٹی کی 12 فیصد ہے، سروے میں دکھایا گیا ہے کہ وزیراعظم عمران خان 57 فیصد عوامی حمایت کے ساتھ ملک کے مقبول ترین رہنما ہیں۔ اسی طرح ورلڈ ہیپی نیس رپورٹ 2019ء کے مطابق پاکستانی جنوب مشرقی ایشیا میں اپنی علاقے کی سب سے خوش قوم ہیں۔ عالمی درجہ بندی میں پاکستان کا 67 واں نمبر ہے جبکہ بھارت کا نمبر اس فہرست میں 140 واں ہے۔ نہ جانے کس معرکے پر پاکستانی قوم پھو لے نہیں سما رہی کیو نکہ زمینی حقائق قدرے مختلف ہیں۔ مہنگائی اور بے روزگاری میں گونا گوں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ کساد بازاری کی وجہ سے قریباً تمام کاروبار ٹھپ ہیں۔ اس میں نیب کی کارروائیوں کا کتنا دخل ہے اور کتنا حکومت کی ناقص پالیسیوں کا لیکن یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ بات بن نہیں رہی۔ حکومتی زعما سابق حکومت کو موجودہ صورتحال کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں شاید کسی حد تک یہ بات درست بھی ہو۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے گزشتہ برس مئی میں پورے سال کا بجٹ منظور کر دیا حالانکہ چند ماہ بعد عام انتخابات ہونے والے تھے اور محض عبوری عرصے کے لیے بجٹ دیا جاسکتا تھا لیکن شاہد خاقان عباسی کی حکومت نے ایک ایسا الیکشن بجٹ پیش کیا اور ایسی چھوٹ اور رعایتیں دیں جن کے نتیجے میں اہداف کی تکمیل عملی طور پر قریباً ناممکن تھی۔ شاید سابق حکومت کو یہ احساس ہو گیا تھا کہ اگلی حکومت مسلم لیگ (ن) کی نہیں ہو گی لہٰذا نئی آنے والی حکومت جانے اور اس کا کام اور ایسا ہی ہوا۔ تحریک انصاف کی حکومت کی حالت کچھ ایسی ہو گئی کہ سرمنڈاتے ہی اولے پڑے لیکن موجودہ حکومت کی اکنامک ٹیم کی نااہلی اس صورتحال سے عیاں ہو گئی ہے کہ وزیر خزانہ اسد عمر جنہیں عام انتخابات سے پہلے ہی غیر رسمی طور پر وزیر خزانہ نامزد کر دیا گیا تھا مٹی کے مادھو بنے رہے۔ وہ چاہتے تو آتے ہی بجٹ میں جو بنیادی سقم تھے انھیں دور کر سکتے تھے لیکن انھوں نے منی بجٹ میں ایسا نہیں کیا۔ لگتا ہے کہ تحریک انصاف میں اوپر سے لے کر نیچے تک سب فتح کے شادیانے بجا رہے تھے اور ان کی دانست میں یہ بیانیہ تھا کہ سابق حکومت نااہل تھی اور چور اچکوں پر مشتمل تھی ہم سب کچھ ٹھیک کرلیں گے۔ پہلے تو یہ طفلانہ استدلال اختیار کیا گیا کہ ہمارے اوپر اتنا دھن برسے گا کہ آئی ایم ایف کے پاس جانے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔ پھر بعد ازخرابی بسیار سنجیدہ اقتصادی ماہرین کے مشورے پر کہا گیا کہ آئی ایم ایف پروگرام میں جانا پڑے گا، پھر بھی ایک قدم آگے اور دو قدم پیچھے کے مصداق آواز لگائی جاتی تھی کبھی کہا جاتا ’جائیں گے‘، کبھی’نہیں جائیں گے‘۔ حالانکہ حکومت کو برسراقتدار آتے ہی یہ استدلال اختیار کرنے میں کوئی تامل نہیں ہونا چاہیے تھا کہ سابق حکومت ملک کو دیوالیہ کر گئی لہٰذا ہم فوری طور پر آئی ایم ایف کے پروگرام میں جا رہے ہیں۔ عمران خان کو غالباً یہ خدشہ تھا کہ آئی ایم ایف کی شرائط انتہائی سخت ہونگی جس سے عام آدمی اور پاکستان کی مشکلات بڑھیں گی لیکن اس لیت ولعل کے نتیجے میں جو تاخیرہوئی ہے وہ سو جوتے اور سو پیاز کھانے والی بات ہے۔ بعض دوست ممالک کی طرف سے چند ارب ڈالر سٹیٹ بینک میں رکھوانے کے باوصف خزانہ خالی ہے۔ اب آئی ایم ایف کی کڑی شرائط ماننے کے سوا شاید کوئی اور چارہ کار نہ ہو۔ ایک طرف ہم یہ کہتے جا رہے تھے آئی ایم ایف میں نہیں جارہے لیکن عملی طور پر اس کی شرائط مان بھی رہے تھے۔ جس میں دو مرتبہ رو پے کی قدر میں دانستہ طور پر کمی کی گئی۔ اب صورتحال یہ ہے کہ آئی ایم ایف روپے اور ڈالر کے مبادلہ ریٹس کو مارکیٹ کی بنیاد پر لچکد ار بنانے، سٹیٹ بینک کو مکمل خودمختاری دینے نیز بجلی کی قیمتوں پر مالی امداد کم کرنے کا مطالبہ کر رہا ہے۔ اسی پس منظر میں سوئی سدرن اور ناردرن گیس کمپنیاں پہلے ہی مطالبہ کر چکی ہیں کہ جولائی 2019ء سے گیس کی قیمتوں میں 145 فیصد تک اضافہ کیاجائے۔ واضح رہے کہ گزشتہ برس اکتو بر میں گیس کی قیمتوں میں 35 فیصد اضافہ کیا جا چکا ہے۔ اس معاملے میں گیس کی ریگولیٹری اتھارٹی اوگرا کو آئی ایم ایف کی شرائط کے تناظر میں اضافے کا فیصلہ کرنا ہو گا۔ محصولات کے ہدف میںریکارڈ کمی واقع ہوئی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ہدف کے مقا بلے میں ملکی تاریخ میں پہلی بار قریباً چار سو اسی ارب روپے کا شارٹ فال ہے جو مقررہ ہدف سے بارہ فیصد کم ہے۔ دوسری طرف تارکین وطن کی طرف سے بھیجی جانے والی ترسیلات زر میں اضافے کے بجائے کم ہوئی ہے۔ یہی حال برآمدات کا ہے جو روپے کی قدر میں کمی کے باوجود توقعات کے مطابق نہیں بڑھ سکیں۔ اسی بنا پر تحریک انصاف کی حکومت کے پچاس لاکھ گھر بنانے کے منصوبے کا بلیو پرنٹ تیار نہیں ہو سکا۔ وزیراعظم عمران خان نے ایک کروڑ افراد کو روزگار مہیا کرنے کا وعدہ کیا تھا لیکن ان کی حکومت کے پہلے سات ماہ مکمل ہو نے پر روزگار دینے کے بجائے بے روزگاری میں اضافہ ہوا۔ اس دگرگوں صورتحال پر غور کیلئے وزیراعظم نے اپنے اقتصادی کار پردازوں کا گزشتہ روز اجلا س طلب کیا۔ ان کی حکومت کے اندر ہی بعض مشیر وزیر خزانہ اسد عمر کو اقتصادیات کے میدان میں جملہ خرابیوں کو دور نہ کرنے کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔ یقینا اس مر حلے پر وزیر خزانہ کو تبدیل کرنے سے مارکیٹس میں مثبت پیغام نہیں جائے گا، اس کے باوجود کہا جاتا ہے کہ وزیر خزانہ وزیراعظم کے منظور نظر ہیں لیکن انھیں کارکردگی بھی دکھانا پڑے گی، ان کا اس وقت یہ کام نہیں ہے کہ وہ نمبر بنانے کے لیے اپوزیشن لیڈر شپ پر تابڑ توڑ حملے کریں بلکہ انھیں اپنا گھر ٹھیک کرنے پر بھرپور توجہ دینی چاہیے بصورت دیگر بیڑہ غرق ہوتا ہی چلا جائے گا اور بعد از خرابی بسیار انہیں تبدیل کرنا ہی پڑے گا۔