یمن کی شمالی سرحد سعودی عرب کے ساتھ ایک طویل پٹی کی صورت ہے جو صحرااور پہاڑوں پر مشتمل ہے۔ سیدنا زید بن علی کو ماننے والے زیدی اسی علاقے میں آباد رہے ہیں جنہیں عرف عام میں حوثی کہا جاتا ہے۔ تقریبا سو سالہ بدامنی و فساد میں یہ خطہ بھی بری طرح متاثر ہوا۔ لیکن اس عرصہ میں یہ لوگ زیادہ تر قبائلی، قومی اور نسلی تنازعے کی وجہ سے اس سول وار میں الجھے رہے یا الجھائے گئے۔ مصر بمقابلہ سعودی عرب دراصل امریکہ بامقابلہ سوویت یونین معرکہ تھا جو یہاں لڑا گیا۔ لیکن سوویت یونین کے بعد امن کے وقفے میں حوثیوں کے ساتھ حکومت کی مڈبھیڑ ہوتی رہی۔ اسی دوران 2004 ء میں حوثیوں کا رہنما حسین بدرالدین الحوثی حکومتی افواج کے ہاتھوں مارا گیا اور ہنگامے پھوٹ پڑے۔ ہنگامے خونریز اور طویل ہو گئے اور سعودی حکومت نے یمن کی حکومت کا ساتھ دینا شروع کر دیا۔ حوثیوں نے صدر علی عبداللہ صالح کے استعفے کا مطالبہ کر دیا اور 2011ء کی عرب بہار میں شامل ہوگئے۔ علی عبداللہ نے اگلے الیکشن میں حصہ نہ لینے کا اعلان کیا لیکن حوثیوں نے اپنے علاقے سعدہ پر اپنی گرفت ثابت کرنے کے لیے وہاں موجود سلفی مسلک کے گاؤں دماج کا محاصرہ کرلیا۔ صلح ہوئی لیکن دیرپا ثابت نہ ہوسکی۔ یوں حوثیوں اور وہاں آباد دیگر مسالک کے لوگوں کا ان کے ساتھ جھگڑا بڑھنے لگا۔ ستمبر 2014 ء میں حوثیوں نے یمن کے دارالحکومت صنعاء کا کنٹرول سنبھال لیا، پارلیمنٹ ختم کر دی اور ایک انقلابی کونسل بنا دی گئی۔ یہ کونسل حوثیوں کے زیرانتظام علاقوں پر حکومت کرتی تھی جو فروری 2015 ء میں قائم ہوئی۔اسکے بعد پورے یمن میں لڑائی کا آغاز ہوگیا۔ یمن کی اس لڑائی نے پورے خطے کو جو پہلے ہی سے میدان جنگ بنا ہوا تھا مزید اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی حکومتوں نے یمنی حکومت کا عسکری اور مالی طور پر ساتھ دینا شروع کیا اور ایران نے نئی قائم شدہ باغی حکومت کو اسلحہ و سرمایہ دیا یہاں تک کہ افراد فراہم کرنا شروع کر دیئے ۔ یمن، دراصل خطے میں پہلے سے موجود ایران سعودی عرب محاذرائی کا ایک ایسا مورچہ تھا جسکی نزاکت کی بنیادی وجہ سے اصل سعودی عرب کے ساتھ ملحقہ سرحد تھی۔حوثیوں کی طرف سعودی عرب پر میزائلوں سے حملے نے اس میں اس قدر شدت پیدا کردی کہ سعودی عرب نے باقاعدہ میزائل اور فضائی حملے شروع کر دیے۔ یہاں تک کے چونتیس اسلامی ممالک کی ایک فوج بھی ترتیب دے دی جو اس جنگ میں سعودی عرب کی حفاظت کرے۔ یہ منظرنامہ دراصل دوسری جنگ عظیم کے بعد شروع ہونے والی امریکہ اور سوویت یونین کے درمیان برپا ہونے والی سرد جنگ جیسا ہے۔ دونوں ملک آمنے سامنے آکر نہیں لڑتے تھے لیکن اپنے حامی اور مخالف ممالک کی جنگ میں پوری طرح شریک ہوتے تھے۔ ایران اور سعودی عرب سرد جنگ کا معاملہ بھی ایسا ہے۔ دونوں ملک خود ایک دوسرے کے مقابل آکر جنگ نہیں کرتے لیکن ان دونوں کی مدد سے پورے خطے میں ایک فساد اور سول وار کا سا سماں برپا ہے۔ شام اور یمن ان دونوں ملکوں کے لئے بہترین ''میدان جنگ'' ہیں اوران دونوںمظلوم ملکوں کے عوام بلکہ مسلمان لاکھوں کی تعداد میں مارے جاچکے، بے گھر ہوئے اور شہر کے شہر کھنڈر بنا دیے گئے۔ گذشتہ چار سالوں میں یمن بھی بے شمار انسانی المیوں سے دوچار ہوا۔ خوراک سے محروم آبادیوں میں بچے قحط سے مرتے رہے، عام شہری آبادیاں وہاں لڑاکا طیاروں کی بمباری کی زد میں آتی رہیں، لوگ ہجرت کر کے اپنا وطن چھوڑتے رہے۔ لیکن دونوں ملکوں کی یہ پراکسی جنگ جاری رہی۔ اس جنگ کا آخری مرحلہ اس وقت آیا جب ستمبر 2019 ء میں حوثیوں نے سعودی عرب اور امریکہ کی مشترکہ تیل کمپنی آرامکو پر میزائل حملے کو تسلیم کرلیا۔ یہ حملہ اس قدر شدید تھا کہ دنیا کے اس سب سے بڑے تیل سپلائی کرنے والے ادارے کی آدھی سپلائی رک گئی۔ یہ ایک بہت ہی ڈرا دینے والا منظر تھا۔ یہ لڑائی کسی بھی وقت پورے خلیج کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی تھی جس کے نتیجے میں دنیا کو تیل کی سپلائی مکمل طور پر رک جاتی۔ صرف ایک ہفتہ بعد بیک چینل مذاکرات شروع ہوگئے۔ جنگ چونکہ بھڑک چکی تھی، پورا خطہ آتش فشاں بن چکا تھا اس لئے امریکہ نے اعلان کر دیا تھا کہ وہ یمن سے اپنی افواج واپس بلارہا ہے۔ متحدہ عرب امارات کی افواج بھی موثر ثابت نہیں ہو رہی تھیں۔ دوسری جانب عام یمنی آبادی قحط سالی، بمباری اور دربدری سے اس قدر متاثر ہو رہی تھی کہ حوثیوں پربھی امن قائم کرنے کے لیے مسلسل دباؤ تھا۔ یوں سعودی عرب کی کوششوں سے پانچ نومبر 2019 ء کو یمن کی حکومت اور حوثیوں کے درمیان سمجھوتہ ہوگیا جس کے تحت 30 دن کے اندر حکومت بنائی جائے گی جس میں دونوں گروہوں کی برابر نمائندگی ہوگی۔ یمن میں امن کے بعد بظاہر تو یہ لگتا ہے کہ کچھ عرصہ یہاں جنگ نہیں ہوگی۔ لیکن کیا سعودی ایران سرد جنگ کا دوسرا محاذ یعنی شام مکمل طور پر خاموش ہو جائے گا۔ نہیں، ہرگز ایسا نہیں ہوگا، بلکہ وہاں آگ زیادہ بھڑک اٹھے گی۔ لبنان کا موجودہ بحران، ترکی اور کردوں کے درمیان جنگ، ادلب کے علاقے میں تمام اسد مخالف قوتوں کا جمع ہونا، عراق میں ایران کے خلاف ہنگامے اور ایرانی سفارتخانے سے ایرانی پرچم اتار کر عراقی پرچم لہرانا،جیسے واقعات وہاں پر جنگ کے مزید بھڑک اٹھنے کی جانب اشارہ کر رہے ہیں۔ شام ہی تو اصل میدان جنگ ہے جہاں مستقبل کے بڑے بڑے معرکے ہونا ہیں۔ یہاں تک کہ آخری معرکے کی سرزمین بھی یہی ہے۔ یمن میں امن کب تک رہے گا اور یمن کا آخری بڑی جنگوں میں کیا حصہ ہے۔ وہ بڑی جنگ جسے ملحمۃ الکبریٰ کہتے ہیں جس کے بارے میں احادیث میں درج ہے کہ یہ اہل روم یعنی مغرب اور اہل عرب کے درمیان ہوگی، کسی مقام پر خاص طور پر اہل شام بھی لکھا ہے۔ یہ لڑائی شام کے علاقوں اعماق اور دائق میں برپا ہوگی۔ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا جب رومی جنگ عظیم میں اہل شام سے جنگ کریں گے تو اللہ دو لشکروں کے ذریعے اہل شام کی مدد کرے گا۔ ایک مرتبہ ستر ہزار سے اور اور دوسری مرتبہ 80 ہزار اہل یمن سے جو اپنی بند تلواریں لٹکائے ہوئے آئیں گے۔ وہ کہتے ہوں گے ہم پکے سچے اللہ کے بندے ہیں (کتاب الفتن)۔ اس حدیث میں بند تلواروں کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ آج کے دور میں کندھے پر رکھ کر چلائے جانے والے میزائلوں کو دیکھیں تو رسول اکرم ﷺ کی پیشگوئی کی حقانیت سامنے آجاتی ہے۔ یمن ہمیشہ ہی سے رسول اکرم ﷺ کی نظروں میں ایک اہمیت کا مقام رہا ہے۔ آپؐ فرمایا کرتے تھے کہ مجھے یمن سے محبت کی ہوا آتی ہے کیونکہ وہاں میرا دوست اویس قرنی رہتا ہے۔ شام کی فضیلت کے بعد جس جگہ کی جانب بڑی عالمی جنگ کے دوران ہجرت کرنے کے لیے کہا گیا وہ یمن ہے۔ ملکہ سباء اور ابرہہ کی تاریخی روایات کا حامل اور اسلام کی روشنی طلوع ہونے کے بعد سہیل بن عمرو ؓ، حضرت ابوہریرہ ؓاور اویس قرنی ؓکا مسکن۔ جہاں رسول اکرم ﷺنے حضرت علیؓ کو اشاعت اسلام، حضرت عمروؓبن حزم اور حضرت معاذ بن جبلؓ کو عمال (گورنر) بنا کر بھیجا۔ یمن کے افراد جنہوں نے کثرت سے تبوک کے لشکر میں شرکت فرما کر رسول اکرم ﷺکا ساتھ دیا۔ وہ یمن اب امن کے اس مرحلے میں داخل ہوچکا ہے، جب وہ اپنے پکے اور سچے اللہ کے بندے آخری معرکے یعنی ملحمۃ الکبری میں بند تلواروں کیساتھ روانہ کرے گا۔یہی یمن ہے جہاں سے ایک شخص بیت المقدس میں خلیفہ بنے گا جس کے ہاتھوں قسطنطنیہ فتح ہوگا اورجو جہاد ہند کے لیے بھی لشکر روانہ کرے گا۔