مکرمی !اکیسویں صدی ہے پر اس بڈھی سوچ کا کیا کیجئے جو بابا آدم کے زمانے کی رکھتے ہیں، اب بھئی نہیں سمجھ آتی ہمیں یہ ماڈرن فون کال والی محبت جس میں اگلے کو یہ تک نہیں پتہ کہ باجی محبوبہ اصل میں جی کس عالم میں رہی ہے، کیوٹ، گارجیس دکھنے والی فلٹر کے پیچھے ماسی بھی دکھتی جو روتی ہے تو گھر والے ڈائن کہتے ...اور گر ہنستی ہے تو اماں بھاگڑ بلی، اور وہ باجی بیچاری بھی سچ جانتے ہوتے اس پر یقین کر لیتی… کیا کیجیے دل تو بچہ ہے نہ جی اور تھوڑا تھوڑا بیوقوف بھی…اب ہمیں گھر والے بھی ایسے ملتے کہ بھولے سے ہی کبھی تعریف کر دیں... کچھ اچھے بول بول دیں تاکہ دل میں اچھا سننے کی خواہش اتنی نہ بڑھے کہ باہر کے لوگوں سے تعریفیں سننے لگ جائیں اور ان پر اعتقاد بھی بڑھ جائے … بات سنجیدہ ہی ہو گئی۔ بھئی یہ بھی محبت ہی ہے، یہ بھی کوئی محبت ہوئی... بھئی پھینک دو ردی میں یہ نسل اٹریکشن کو محبت سمجھتی ہے جسے فون پر نبھاتی ہے،چھپائے پھرتی ہے، چوری جو کرتی ہے۔ جذبات کے بہاؤ کو عشق کہتی ہے جو اماں کے جوتے اور زندگی کے ایک تھپیڑے سے ٹھنڈا پڑ جاتا ہے ۔ ( اسماء طارق گجرات)