اسلام آباد (خبر نگار) سودہ نظام کے خاتمے سے متعلق مقدمے کی سماعت کے دوران عدالتی معاون نے وفاقی شرعی عدالت کو بتایا کہ جب تک اثاثوں پر مبنی معیشت قائم نہیں ہوگی سودی نظام قائم رہے گا۔ چیف جسٹس محمد نور مسکانزئی کی سربراہی میں جسٹس سید محمد انور اور جسٹس خادم حسین پر مشتمل تین رکنی فل بنچ نے سودی نظام کیخلاف شرعی درخواستوں پر سماعت کی۔ عدالتی معاون انور منصور خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ جب تک اثاثہ بیس اکانومی نہیں ہو گی تو سود سے نجات حاصل نہیں کر سکتے ، کاغذی کرنسی کے استعمال سے استحصال کو نہیں روکاجا سکتا،کورونا وبا کے دوران کاغذی کرنسی کی ٹرانزیکشن بند ہوئی تو سارا سسٹم نیچے آ گیا۔انور منصور خان نے کہا کہ قرآن پاک میں ربا کی خاص تعریف نہیں ، لیکن سود حرام ہے ، اس بارے میں واضح احکامات ہیں،پیسے دے کر اس پر اضافی پیسے طلب کرنا سود ہے ۔انھوں نے بتایا کہ احادیث میں تو قرض دار سے تحفہ لینا بھی معیوب سمجھا جاتا ہے اور قرض دار سے تحفے لینے سے منع کیا گیا ہے ، سودی کاروبار کسی بھی شکل میں کرنا بھی حرام ہے ، کچھ لوگ کہتے ہیں انٹرسٹ ربا میں نہیں آتا، ایسے لوگوں پر مجھے ہنسی آتی ہے کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں ، انٹرسٹ کا لفظ دراصل ربا کا ہی متبادل ہے ۔ انور منصور خان نے کہا کہ میں کوئی مفتی یا عالم نہیں،دنیا کی کتابوں سے جو پڑھا وہ بیان کر رہا ہوں۔عدالتی وقت ختم ہونے پر کیس کی مزید سماعت آج جمعہ تک ملتوی کردی گئی ۔دوران سماعت نائب امیر جماعت اسلامی پروفیسر ابراہیم خان، تحریک اسلامی کے سربراہ حافظ محمد عاکف ، علامہ ساجد نقوی کے وکیل سید سکندرعباس گیلانی و دیگر فریقین بھی عدالت میں پیش ہوئے ۔علاوہ ازیں وفاقی شرعی عدالت نے خواجہ سراؤں کے تحفظ کے قانون کے خلاف دائرتمام درخواستیں کو یکجا کردیا ہے ۔ چیف جسٹس محمد نور مسکانزئی کی سربراہی میں تین رکنی شریعت بنچ نے سماعت کی۔چیف جسٹس نے کہا ہمارے سامنے اصل معاملہ خواجہ سرائوں کے جائیدادمیں حقوق اور دیگربنیادی حقوق کا ہے ۔عدالت نے درخواست گزار کو گزارشات کی کاپی فریقین کو فراہم کرنے کا حکم دیا اور سماعت ملتوی کردی۔