’’آئین کو پامال اور معطل کرنے والے شخص کو محفوظ راستہ پاکستانی عوام کے ساتھ بڑی ناانصافی ہے۔آئین سے مسلسل ٹیمپرنگ ،بے سمت سیاسی تجربات نے نئے پرانے نظام کی ساخت کو متاثر کیا ہے۔‘‘ سپریم کورٹ کے قابل احترام جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ یقینا اپنے حق اور انصاف پہ مبنی فیصلوں اور اپنے ذاتی اور خاندانی پس منظر کے سبب قابل صد احترام برادر ججوں کی صف اول میں آتے ہیں۔حالیہ دنوں میں جس جرأت و بے باکی سے انہوں نے عدالتی فیصلے دئیے ہیں ،خاص طور پر کوئٹہ میں سال ِ گزشتہ خود کش حملے میں شہید ہونے والے وکلاء کی شہادت پر جو آبزرویشن انہوں نے دی ،وہ سنہری حرفوں سے لکھنے کے لائق ہے۔ادھر پنجاب کی ایک دو سرکش باروں نے انہیں متنازعہ بنانے ،حتیٰ کہ ان کی برطرفی تک کا مطالبہ کرڈالا۔خوش آئند بات ہے کہ پاکستان بار کونسل سمیت چند اور باروں نے ان کے حق میں آواز بلند کر کے قاضی فائز عیسیٰ نہیں اپنی پروفیشن کی لاج رکھ لی۔اس ساری تمہید باندھنے کا مقصد یہ تھا کہ آگے چل کر جس بیان نے مجھے hauntکیااور جس کے سبب یہ کالم باندھ رہا ہوں۔۔۔ اس میں قطعی طور پر ان کی پروقار شخصیت اور عدلیہ کے حوالے سے ان کی علمیت پر حرف گیری نہیں۔ ۔ ۔ بات یہ ہے اور سوفیصد درست بلکہ روایت چلی آرہی ہے کہ ججوں کو اپنے فیصلوں میں بولنا چاہئے۔نہ کہ سیاست دانوں کی طرح سیمیناروں اور مختلف فورمز پر گل افشانی ِ گفتار کہ کوئی کتنا ہی عالم و فاضل ہو پبلک یعنی عام لوگوں سے مخاطب ہوگا تو پھر زبان کی پھسلن سے بچا نہیں جاسکتا ۔ہمارے محترم قاضی صاحب کا چار مئی کو ایک کثیر الاشاعت اخبار کے صفحہ اول پر چھپنے والے بیان کا افسوس ناک عمل یہ ہے کہ اس کا ٹارگٹ و نشانہ محض ایک شخص ہے۔یعنی سابق صدر جنرل پرویز مشرف۔جن کی ان دنوں اسپتال پر بیڈ پر لیٹے مرجھائے چہرے کو دیکھ کر ہمدردی ہی نہیں معذرت کے ساتھ رحم آتا ہے۔کہ ایک زمانہ تھا کہ اسٹیج پر مکہ لہراتے جب اپنے اقتدار کی مضبوطی کے سبب گرج چمک رہے ہوتے تو لگتا سالوں نہیں دہائیوں اقتدار کا ہما ان کے سر پر بیٹھا رہے گا۔تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں کہ اقتدار سے رخصتی کا سفر جس تیزی سے اختتا م کو پہنچا ، اُس سے زیادہ تیزی سے ان کی صحت نے ان کو کھا لیا۔بات قاضی صاحب کے بیان سے شروع ہوئی تھی۔بصد احترام ،قاضی صاحب آئین کی پامالی اور ٹیمپرنگ کرنے کے جرم میں محض ایک فرد ہی کیوں یاد آئے؟جسے آپ کے بقول محفوظ راستہ دیا گیا۔آپ نے بیان بڑی افسردگی اور جذباتیت سے مغلوبیت میں دیا ہے۔ فوجی آمروں کو محفوظ راستہ دینے کا آغاز تو اس وقت ہی ہوگیا تھا،جب میں غلط نہیں تو جنرل محمد یحییٰ خان کا مارشل لاء آیا۔ ۔۔ آپ نے بچپنے سے جوانی کی دہلیز پر اور پھر اپنے کیرئیر کا آغاز جب کرنے جا رہے تھے۔ ۔ ۔ اس وقت ملک دولخت ہورہا تھا۔قائد اعظم کے بعد پاکستان کے سب سے مقبول عوامی رہنما ذوالفقار علی بھٹوجنرل ضیاء الحق کی آشیر باد سے جوڈیشل مرڈر ہو رہا تھا۔ ۔ ۔ یقینا آپ عمر کے اس پہر میں داخل ہوچکے تھے کہ ایک حساس شخصیت کی حیثیت سے آپ نے آئین اور جمہوریت کا سفاکانہ قتل اپنی آنکھوں سے دیکھا ہوگا۔بعد کے برسوں میں توخیر آپ خود عدلیہ اور شہری آزادی کی تحریک کا حصہ رہے۔خاص طور پر جنرل ضیاء الحق کے دور میں چودھری بحالی جنگ میں تو آپ صف اول میں تھے۔ماضی کی ساری تاریخ کو بیان کرنے کی عاجزانہ جرأت اس لئے کر رہا ہوں کہ آپ خود ہماری المناک سیاسی و عدالتی تاریخ کے عینی شاہدوں میں رہے ہیں۔سابق جنرل مشرف کو محفوظ راستہ دینے پر پژ مردگی کا اظہار کرتے ہوئے آپ کو گفتگو کا آغاز گورنرجنرل غلام محمد سے کرنا تھا۔ ۔ ۔ جس نے پہلی دستور ساز اسمبلی کو توڑ کر پاکستان کے جمہوری اداروں کے تابوت میں پہلی کیل ٹھونکی۔اور پھر جسے اپنے وقت کے عظیم قانون دان چیف جسٹس محمد منیر نے اسمبلی توڑنے کے فیصلے پر مہر ثبت کرتے ہوئے اس گورنر جنرل کو محفوظ راستہ دیا کہ جب وہ دستور ساز اسمبلی کو توڑنے کا فیصلہ کر رہا تھا تو ذہنی و جسمانی طور پر وہ ایک مفلوج زندگی گذار رہا تھا۔ممتاز دانشور اور بیوروکریٹ قدر ت اللہ شہاب نے اس سارے دور کا بڑی تفصیل سے ذکر کیا ہے۔اور پھر فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کہ جن کے لئے ساری ججز برادری نے ریڈ کارپٹ بچھا دیا۔کیسے کیسے پائے کے ججز ۔ ۔۔ جسٹس محمد منیر ،جسٹس ایس اے رحمان ،جسٹس فضل اکبر،جسٹس حمود الرحمان ،جنرل ایوب خان، ان کا فوجی ٹولہ اور انکی آل اولاد اس ملک کے ساتھ دس سال تک کھلواڑ کرتے رہے۔جن محترم ججوں کا میں نے ذکر کیا ،یہ سارے معزز ججز صاحبان نے جنرل ایوب خان کو محفوظ راستہ ہی نہیں دیا،بلکہ جہاں سے یہ فیلڈ مارشل گزرتا،تو یہ سب دست بستہ کھڑے ہوتے۔اور ہاں محترم قاضی صاحب ،آپ کو یاد ہے،مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کو بی ڈی سسٹم کے تحت الیکشن ہرانے کے بعد اُس وقت جنرل محمد ایوب خان کے صاحبزادے ،کیپٹن گوہر ایوب خان نے کیا کیا تھا۔57برس تو گزر ہی گئے۔مگر کراچی کے لالوکھیت کے بزرگ مکینوں کی آنکھوں میں آج بھی وہ تصویر موجود ہے جب گوہر ایوب کا چنگیزی لشکر آگ و خون سے کھیلتا کراچی پر اپنے والد کی فتحمندی کے جھنڈے گاڑ رہا تھا۔جب اس سارے خونی کھیل کے بعد گوہر ایوب خان کراچی کے ایوان صدر میں جشن منارہا تھا۔اسے محفوظ راستہ دینے پر آپ کی 57سالہ عدالتی تاریخ میں ذکر ہوا۔سوری،قاضی صاحب، ابھی ہفتے بھر پہلے آپ کے چیف نے سابق جنرل مشرف کا ذکر کرتے ہوئے،ڈیڑھ سو سال پرانے گورے فوجی ڈکٹیٹر جنرل اولیو ر کرامویل کی قبر کھود کر اس کے ڈھانچے کے ٹرائل کا ذکر کیا تھا۔سو ، سو بسم اللہ۔ جس شخص کو محفوظ راستہ دیا،اسے دوبئی سے ضرور طلب کریں۔مگر پھر اس کا آغاز تما م سابقہ فوجی ڈکٹیٹروں سے ہوگا۔