وہ لڑکی بھی اب سوشل میڈیا کی معرفت بہت مشہور ہو رہی ہے جس نے کراچی پریس کلب کے سامنے سندھ کے مِسنگ پرسنز کی بازیابی کے لیے ہونے والے بھوک ہڑتالی کیمپ پر آنے والے وزیر اطلاعات اور ناصر شاہ اور وزیر داخلہ سہیل انور سیال سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ :کیا آپ کو اس دن کا انتظار تھا ؟ جب سندھ کی بیٹیاں اپنے گھروں سے نکل کر راستوں پر دھکے کھائیں اور اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے نعرے لگائیں؟ آپ ہمارے پاس تب آئے ہیں جب حکومت چند دنوں کی مہمان ہے اور آپ کو دوبارہ وحکمران بننے کے لیے ہمارے ووٹ درکار ہونگے۔آپ ہماری بات سن لیں۔ اس بار آپ کو سندھ سے ووٹ نہیں ملے گا۔ آپ جب تک ہمارے گمشدہ پیاروں کو بازیاب نہیں کرائیں گے؛ آپ کو ووٹ نہیں ملے گا!! وہ لڑکی بولتی رہی اور وہ دونوں وزراء بت بن کر اس لڑکی کو سنتے رہے جو کسی پارٹی کی لیڈر نہیں تھی۔ وہ لڑکی کسی پارٹی کی کارکن تک نہیں تھی۔ اس لڑکی کی کسی سیاسی کوچ نے تربیت نہیں کی۔ اس دن اس لڑکی نے میڈیا کو متاثر کرنے والا میکپ بھی نہیں کیا تھا۔ اس کے سوکھے ہونٹوں پر لپ اسٹک بھی نہیں لگائی تھی۔ جس طرح غریب لڑکیاں گھر میں ہوتی ہیں وہ اسی طرح سے بھوک ہڑتالی کیمپ پر آئی تھی مگر اس کی آواز میں گھن گرج تھی۔ اس کے لہجے میں اعتماد تھا۔ اس کے الفاظ میں غم اور غصے کا سنگم تھا ۔ اس کے انداز میں دور دور تک خوف کا نام و نشان تک نہیں تھا۔ وہ لڑکی جس کا نام تنویر آریجو ہے۔ جس کا والد سندھ کی قوم پرست جماعت کا کارکن تھا۔ اس کے والد کو چودہ ماہ قبل قانون نافذ کرنے والے ادارے اٹھا کر لے گئے ۔ جب ایک برس گزر جانے کے بعد بھی وہ گھر واپس نہیں آیا تو تنویر آریجو سندھ کے گمشدہ افراد کے خاندانوں کی دیگر خواتین کے ساتھ احتجاج کرنے کے لیے کراچی آگئی ہے۔ گذشتہ تین دنوںسے وہ کراچی پریس کلب کے سامنے اپنے جیسی احتجاجی خواتین کے ساتھ بھوک ہڑتالی کیمپ پر بیٹھی ہوئی ہے۔ سوشل میڈیا کی وجہ سے اس کیمپ کے حق میں بھرپور مہم چل رہی ہے۔ اس لیے چند دنوں کے مہمان حکمران بھی ان کے پاس آئے اور ان سے وعدہ کرگئے وہ گمشدہ افراد کی بازیابی کے لیے اپنا کردار ادا کریں گے۔ پیپلز پارٹی کے وزیروں نے اب تک کیا کیا ہے؟ اور اب وہ کیا کریں گے؟ ان دو سوالوں کے گرد سندھ کے عوام کا غصہ بپھرے ہوئے دریا کے بھنور کی طرح گھوم رہا ہے ۔ سوشل میڈیا میں ہلتے ہوئے تنکے پتہ دے رہے ہیں کہ سندھ میں ایک بہت بڑا سیاسی بحران کسی سبب کے پیچھے رکا ہوا ہے۔ عوام کے مسائل وقت کے ساتھ ساتھ سنگین صورت اختیار کرتے جا رہے ہیں اور سیاسی پارٹیاں عوام کے جذبات سے نہ جڑنے کے باعث ختم ہوتی جا رہی ہیں۔ سندھ میں سیاسی لیڈرشپ کا کوئی سایہ دار شجر نہیں ہے۔ صرف چند تنکے ہیں۔ ان چند تنکوں میں ایک تنویربھی ہے۔ وہ تنویر آریجو جس کے کمزور کندھوں پر سندھ کے جذباتی اور مایوس قوم پرست پوری قوم کے مسائل کا بوجھ رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مگر وہ سندھ کے عوامی مسائل حل کروانے نہیں آئی۔ وہ تو اپنے گمشدہ والد کو تلاش کرنے آئی ہے۔ جب اس کواپنا والد مل جائے گا تب وہ اس کی انگلی پکڑ کر گھر واپس چلی جائے گی اور سندھ کا مایوس سیاسی ہجوم اس کو مایوس نظروں سے دیکھتا رہ جائے گا۔ یہ لڑکی سوشل میڈیا اور شہر کے جلسے جلوسوں میں تب تک نظر آئے گی جب تک اس کا والد بازیاب نہیں ہوتا۔ وہ لڑکی کراچی پریس کلب سے پہلے سہراب گوٹھ میں اس وقت نظر آئی تھی جب کراچی میں ایک جلسہ تھا اس وقت کراچی کے پسماندہ علاقے میں تعلیم یافتہ نوجوانوں؛ این جی واوز سے وابستہ خواتین و حضرات اور بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے کچھ لوگ نعرے لگا رہے تھے۔ اس وقت اسٹیج پر یہ لڑکی بھی موجود تھی جس کا نام تنویر آریجو ہے۔یہ بھی ممکن ہے کہ آج اکیلی نظر آنے والی تنویر آریجو بھی سندھ معاشرے کی نمائندہ سیاسی رہنما بنائی جائے۔ اٹلی کے مشہور دانشور گرامچی نے ایک جگہ لکھا ہے کہ جن معاشروں میں سیاسی تنظیموں اور تحریکوں کو پنپنے نہیں دیا جاتا وہاں سیاسی مسائل اپنا حل سماجی تحریکوں میں تلاش کرتے ہیں۔ وہ معاشرے سماجی رہنماؤں کو سیاسی لیڈر بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ ایک افسوسناک حقیقت ہے کہ پاکستان میں سماجی خدمت کے بہت بڑے نام عبدالستار ایدھی پر آخری دم تک سیاسی جماعتوں نے دباؤرکھا کہ وہ ان میں شامل ہوجائے اور اگر شامل نہیں ہونا چاہتا تو ان کے قریب آجائے۔ عبدالستار ایدھی کے معرفت اپنی گرتی ہوئی سیاسی ساکھ کو بچانے کی کوشش بانی ایم کیو ایم سے لیکرعمران خان سب نے کی۔ بے نظیر بھٹو نے تو انہیں سندھ کا گورنر بننے کے لیے بہت مجبور کیامگر اس نے سب کو انکار کردیا۔ جس وقت عبدالستار ایدھی آخری سانسیں لے رہے تھے اس وقت آصف زرداری نے رحمان ملک کو بھیجا کہ وہ ان کا بیرون ملک علاج کرانا چاہتے ہیں مگر عبدالستار ایدھی نے صاف انکار کردیا۔ ایدھی اچھے اور نیک انسان ہونے کے ساتھ ساتھ بہت سمجھدار بھی تھے۔ ان کومعلوم تھا کہ اس کو کون سا کردار ادا کرنا ہے؟ اس لیے وہ کسی سیاسی جماعت کے چکر میں نہیں آئے۔ سیاسی مسائل اپنے جگہ موجود ہیں ۔ وہ اب تک ایسے چہروں کو تلاش کر رہے ہیں جن پر بے وفائی کے نشان نہ ہوں۔ سندھ اور خیبرپختون خوا اپنے سیاسی اور سماجی مسائل کے حل کے سلسلے میں بہت پریشان ہیں۔ ان دونوں صوبوں میں جمہوریت پسندوں اور قوم پرستوں کا کردار موقع پرستی والا رہتا آیا ہے۔ سیاسی جماعتوں کی طرف سے موثر کردار ادا نہ کرنے کے سبب ان دونوں صوبوں کے لوگ اپنے سیاسی مسائل کے حل کا بوجھ بھی سماجی رہنماؤں کے کندھوں پر رکھنا چاہتے ہیں۔ سندھ میں قوم پرست اور ترقی پسند سیاست کے زوال اور پیپلز پارٹی کی نااہلی اورغلط کاررکردگی کے ساتھ ساتھ اس میں لیڈر شپ کے فقدان کے باعث اب سندھ میںتنویر آریجو جیسی سادہ اور بالکل غیرسیاسی لڑکیوں سے سیاسی تحریک کی تمنااور امید وابستہ کرنے کے سلسلے نظرآ رہے ہیں۔ سیاست میں غیرفطری اور اتفاقی لیڈرشپ کی گنجائش نہیں ہوتی۔ سیاسی لیڈر مخصوص مٹی سے بنتے ہیں۔ وہ تحریکوں کی آگ (باقی صفحہ13پر ملاحظہ کریں) میں جل کر پکے ہوتے ہیں۔ ہر سماج کو سیاست کا حق حاصل ہے۔ مگر سیاست کی دنیا میں سیاستدانوں کو داخل ہونا چاہئیے۔ اگر ایک تعلیمی ادارے میں داخلہ کے لیے صلاحیت کا امتحان لینا ضروری ہوچکا ہے تو سیاست کی دنیا میں کیوں نہیں؟ سیاست کی دنیا بچوں کی وہ کہانی نہیں ہے جس میں بتایا جاتا ہے کہ ایک بے اولاد بادشاہ نے وصیت کی تھی کہ میرے مرنے کے بعد صبح کو جو بھی شہر میں داخل ہو اس کے سر پر سلطنت کا تاج رکھا جائے؟ جب ایسے مسافروں کے سر وں پر تاج سجائے جاتے ہیں تو وہ پھر ’’ایک اور کیک‘‘ کی فرمائش کرتے ہیں اور جب انہیں کیک نہیں ملتا تو وہ محل سے روانہ ہوجاتے ہیں۔ تنویر آریجو جیسے کردار سیاسی محنت کے نتیجے میں پیدا نہیں ہوئے۔ وہ معاشرے میں موجودمسائل اور سیاسی خلا کے سنگم میں جنم لیتے ہیں۔ ہمیں ایسے کرداروں سے شفقت کا مظاہرہ کرسکتے ہیں۔ ہم ایسے کرداروں کی پوری بات سن سکتے ہیں اور ان کے جائز مطالبات کی حمایت بھی کرسکتے ہیں مگر ایسے کرداروں کے ہاتھ میں قوم کی باگ نہیں تھماسکتے۔ ہم کو یہ بات پھر سے سمجھنی ہوگی کہ جس طرح ہر چمکنے والی چیز سونانہیں ہوتی اس طرح ہر مشہور شخص سیاسی لیڈر نہیں بن سکتا۔ شہرت حقیقی سیاسی شخصیت کی صرف ایک شرط ہے۔ صرف شہرت کی بنیاد پر ایک شخصیت کے سر پر لیڈرشپ کا تاج نہیں رکھا جا سکتا۔ بھارت میں مشہور فلمی اداکاروں کو سیاست میں لایا گیا اور انہوں نے سیاست کی اسٹیج پر کوئی کردار ادا نہیں کیا۔ اگر ہر مشہور شخص سیاستدان بن سکتا تو کرکٹ کا ہر ریٹائرڈ کھلاڑی عمران خان بن جاتا۔ سیاسی کامیابی کی شرائط مختلف ہیں۔ سیاسی کامیابی صرف شہرت سے مشروط نہیں۔ ہمارے معاشرے میں ایک طرف سیاسی مسائل کے انبار ہیں اور دوسری طرف سوشل میڈیا کا غبار اور ان دونوں کے میلاپ سے کبھی کوئی انقلابی پیدا ہوتا ہے اور کبھی تنویر آریجو جنم لینے کی کوشش کرتی ہے۔ ریاست کو ان کے جائز گمشدہ ادفراد کی بازیابی جیسے مطالبات تسلیم کرنے چاہئیں ۔سیاست کو اپنی ختم ہونے والی ساکھ کی بحالی کے لیے تنویر آریجو سے ہٹ کر حقیقی سیاسی کردار تلاش کرنے چاہئیں۔ شاہ لطیف نے کتنی دانائی والی بات کی ہے ’’چشمے پر جو چمک رہے ہیں وہ ہیں سب حباب‘‘