سوشل میڈیا اس لحاظ سے ایک بہت ہی منفرد فورم ہے کہ یہاں موچی سے لے کر یونیورسٹی کے ڈین تک، چپڑاسی سے لے کر وزیر تک اور کارکن سے لے کر قائد تک سب ایک چھتری تلے جمع نظر آتے ہیں۔ بادی النظر میں یوں لگتا ہے کہ یہ کوئی ٹائم پاس قسم کا فورم ہے جہاں لوگ فرصت کے اوقات میں وقت گزاری کے لئے آتے ہیں، لیکن ایسا ہے ہرگز نہیں۔ ایسی تعداد بہت ہی قلیل ہے جن کے لئے یہ محض تفریح یا وقت گزاری کا فورم ہے۔ پچھلے پانچ سال میں سوشل میڈیا پر بہت کچھ تبدیل ہوا ہے اور اس تبدیلی نے مجموعی طور پر معاشرے پر مثبت اثرات مرتب کئے ہیں۔ سماجی ایشوز پر لکھنے والے رائٹرز کے لئے اس کی بے پناہ اہمیت یہ ہے کہ معاشرے کا کوئی ایک بھی طبقہ یا شعبہ حیات نہیں جس کے متعلقین سوشل میڈیا پر بہت بڑی تعداد میں موجود نہ ہوں اور کوئی ایک بھی شعبہ حیات ایسا نہیں جس سے وابستہ افراد اس کے رموز و اسرار اور مسائل پیش نہ کر رہے ہوں۔ زرعی شعبے سے تعلق رکھنے والا کسان اگر واجبی سی تعلیم بھی رکھتا ہے جس کی مدد سے وہ لکھنا پڑھنا جانتا ہے تو سوشل میڈیا پر اسے اپنی موجودگی کی جانب متوجہ کرنے کے لئے سب سے مؤثر صورت یہی ہے کہ وہ زراعت کے موضوع پر بات کرے، سو وہ کرتا بھی ہے۔ اس باب میں اچھے اچھوں پر اپنی برتری جتانے کے شاندار مواقع بھی اسے میسر آتے ہیں جس سے اس میں اپنی اہمیت کا احساس اور خود اعتمادی پیدا ہوتی ہے۔ مثلا کوئی پروفیشنل رائٹر اپنی وال پر زرعی اجناس یا یا زراعت سے متعلق کوئی خیالی دانش بھگار دے جو حقیقت سے تعلق نہ رکھتی ہو تو یہ کسان اپنے شعبے سے متعلق کچھ دیر کو دانشور کا استاد نظر آئے گا۔ کسی کا زرعی شعبے کے حوالے سے کتنا ہی وسیع مطالعہ کیوں نہ ہو، اس کا مطالعہ کھیتوں میں خون پسینہ بہاتے کسان کے تجربے کی ہمسری کہاں کر سکتا ہے ؟ غرضیکہ سوشل میڈیا پر زراعت سے متعلق خیال پیش کرنے سے لے کر اختلاف رائے تک کسان کی جملہ سرگرمی بعینہ وہ عمل ہے جو ایک شاعر اپنا کلام یا ادیب اپنا نثر پارہ پیش کرنے اور اس پر گفتگو و اختلاف رائے کی صورت کرتا ہے۔ گویا شعبے ضرور مختلف ہوتے ہیں لیکن سرگرمیاں سب کی یکساں ہوتی ہیں۔ شاعر کی پروڈکٹ نظم اور کسان کی تخلیق اس کی فصل ہے۔ غیر شاعر کسان شاعری پر گفتگو کی قدرت رکھتا ہے اور نہ ہی شاعر زراعت پر رائے دینے کی اہلیت۔ اپنے اپنے مدار میں یہ اس مدار کے لوگوں کی ہی رائے کو معتبر جانتے ہیں اور انہی سے اظہار خیال کی توقع رکھتے ہیں۔ کسان اور شاعر کا ذکر تو بطور مثال آیا ورنہ کونسا شعبہ حیات ہے جس کی بھرپور نمائندگی سوشل میڈیا پر نہیں ؟ اور کونسا شعبہ حیات ہے جس سے وابستہ افراد اپنے شعبے کے رموز و اسرار سے وہاں پردے نہیں اٹھا رہے ؟ اگر غور کیجئے تو سوشل میڈیا کی یہ خوبی سیکھنے سمجھنے کے لامحدود مواقع فراہم کرتی ہے جس کے کچھ سائڈ ایفیکٹس بھی ہیں لیکن سائڈ ایفیکٹس کس چیز کے نہیں ہوتے ؟ اسی طرح سوشل میڈیا پر سیکھنے سکھانے کی سرگرمیوں کے بھی کچھ سائڈ ایفیکٹس ہیں جن کا تدارک کسی اور نے نہیں خود ہم نے ہی کرنا ہے۔ سب سے بڑا سائڈ ایفیکٹ تو یہی ہے کہ لوگ ان شعبوں میں بھی رائے زنی کرتے ہیں جن سے ان کا دور پار کا بھی تعلق نہیں ہوتا۔ اس عمل کا حاصل گمراہی کے امکانات کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ یہ حرکت زیادہ تر نوجوان ہی کرتے ہیں۔ اور سوشل میڈیا پر اکثریت ہے بھی انہی کی سو زیر بحث امکان کی شدت کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ جس ملک کی شرح خواندگی بھی کم ہو اور ذوق مطالعہ فنا کے گھاٹ پر بھی پہنچ چکا ہو وہاں شعور کا جو حال ہوسکتا ہے وہ واضح ہے۔ لوگوں کی ایک بڑی تعداد اتنا شعور بھی نہیں رکھتی کہ کم از کم اتنا غور کر لیا جائے کہ طبی مشورے دینے والا سوشل میڈیا یوزر شعبہ طب سے کوئی تعلق بھی رکھتا ہے ؟ شعبے سے تعلق جانچنا تو ایک طرف لوگ یہ دیکھنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے بات کہنے والے کی عمر کیا ہے ؟ ۔عمر کے لحاظ سے مضحکہ خیز صورتحال یہ ہے کہ بیس بائیس برس کے بڑے صاحب علم کو شرعی امور میں اصلاح دینے کی جسارت کرتے پائے جاتے ہیں یا ڈاکٹر عاصم اللہ بخش جیسے ذکی شخص کی پوسٹ پر پورے اعتماد کے ساتھ یک حرفی کمنٹس کر جائیں گے ’’متفق‘‘ سیکھنے کی عمر میں سکھانے کا شوق لئے یہ نوجوان اتنا بھی نہیں جانتے کہ باپ کی عمر کے شخص کی تحریر پر ’’متفق‘‘ لکھنا بڑے کی توہین ہے۔ ڈاکٹر عاصم اللہ بخش جیسے ارباب علم و دانش کی تحریر پر ’’متفق‘‘ درج کرنے کے لئے علم عمر کے کچھ تقاضے بھی ہیں جنہیں ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔ سیدھا سا علمی اصول ہے کہ کسی تحریر یا رائے پر متفق لفظ درج کرنے کے لئے لازم ہے کہ آپ کا اتفاق یا عدم اتفاق کوئی معنی رکھتا ہو۔ کل ہی ایک پروفیسر کی پوسٹ پر کسی نوجوان کا کمنٹ دیکھا ’’میں آپ سے متفق نہیں‘‘ پڑھ کر ہنسی بھی چھوٹی اور صدمہ بھی ہوا کہ ہمارا یونیورسٹی میں زیر تعلیم طالب علم بھی یہ شعور نہیں رکھتا کہ اس کے متفق نہ ہونے سے کسی پروفیسر یا اس کے شعبے کی صحت پر ذرہ برابر بھی فرق نہیں پڑتا۔ ’’میں متفق نہیں‘‘ کہنے کے لئے لازم ہے کہ آپ کا یہ کہنا کوئی وزن اور اہمیت رکھتا ہو۔ وزن اور اہمیت علم اور تجربے سے نصیب ہوتی ہے۔ سوشل میڈیا کی اخلاقیات ان بچوں کو بڑوں سے ہی سیکھنے کو مل سکتی ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ بڑوں کی ایک بڑی تعداد وہاں ایسی بھی ہے جو اپنے فالوؤرز سے کمنٹس بار میں ہمکلام ہونا اپنی توہین سمجھتی ہے۔ نہ یہ کسی کی پوسٹ پر کمنٹس کرتے ہیں اور نہ ہی کسی کے کمنٹ کا جواب دیتے ہیں۔ اگر یہ خبط عظمت کے شکار لوگ عام شہری سے ہمکلام ہونے کی روایت ڈال لیں تو سوشل میڈیا کی اخلاقیات میں بڑی تبدیلی رونما ہوسکتی ہے !