ہماری ماضی قریب کی تاریخ میں قیدوبند اور قربانیوں کا ذکر بکثرت ملتا ہے۔ قید و بند اور قربانیوں کا یہ سلسلہ تحریک آزادی سے شروع ہوکر مشرف دور تک آتا ہے۔ اس حوالے سے ایک قابل غور بات یہ ہے کہ تحریک آزادی کے کئی اہم رہنماء سیاسی جدوجہد کے ساتھ ساتھ صحافتی محاذ بھی سنبھالے رہے۔ ان میں مولانا محمد علی جوہر، مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا ظفر علی خان اور آغا شورش کاشمیری خاص طور پر بہت نمایاں ہیں۔ یوں برصغیر کی صحافت اور سیاست کا باہمی ربط من تو شدم تو من شدی کی حد تک اپنی بنیاد سے ہی قائم ہے۔ شاندار بات یہ ہے کہ ان میں سے جنہیں آزادی کا سورج طلوع ہوتے دیکھنا نصیب ہوا ان کی اکثریت اپنے ملک کی انتخابی سیاست کی جانب جانے کے بجائے صحافت سے ہی جڑی رہی۔ مولانا محمد علی جوہر 1931ء میں رحلت فرما گئے تھے، مولانا آزاد پاور پالیٹکس کی جانب گئے جبکہ مولانا ظفر علی خان اور آغا شورش کاشمیری نے صحافت کو ہی اپنا اوڑھنا بچھونا بنا کر ’’دائمی اپوزیشن‘‘ کا کردار اپنا لیا۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ان میں سے جس نے آزاد وطن میں زیادہ دیر سانس لی اس نے وہ ساری سانسیں مزاحمت کی صورت حکومتوں پر دباؤ کے لئے ہی وقف رکھیں۔ میری مراد آغا شورش کاشمیری ہیں جو مزاحمتی صحافت کا سب سے ممتاز ترین نام ہے۔ آغا صاحب نے دس برس کی قید قیام پاکستان سے قبل تو دس برس کی ہی قیام پاکستان کے بعد بھی بھگتی لیکن نہ کبھی کسی الیکشن میں کھڑے ہوئے اور نہ ہی کبھی کوئی سرکاری منصب طلب یا قبول کیا۔ یوں کسی عہدے یا منصب سے دور رہ کر سیاسی کاز اور صحافت کا باہمی ربط جس طرح آغا صاحب نے ہمیں قائم کرکے سکھایا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 70ء کی دہائی میں جب آغا صاحب دنیا چھوڑ گئے تو پیچھے کچھ اور ایسے نام ابھر کر سامنے آگئے جو تازہ دم بھی تھے اور نوجوان بھی۔ ذوالفقار علی بھٹو اور جنرل ضیاء دونوں کو ان کی جانب سے سخت مزاحمت کا سامنا ہوا۔ قید و بند اور کوڑوں کی سزائیں بھگت لی گئیں مگر کلمہ حق پر ڈٹے رہے۔ ڈیکلریشن پر ڈیکلریشن منسوخ ہوتے گئے مگر مزاحمت جاری رہی۔ ڈیکلریشنز کے اجرا پر پابندی لگی تو ’’خبرنامہ‘‘ کے عنوان تلے جرائد اور ضمیموں کا اجرا شروع ہوگیا جن کے لئے ڈیکلریشن لازم نہ تھا۔ غرضیکہ سیاست کے کوچے اس ’’مزاحمتی صحافت‘‘ کے چیلنج کا سامنا کرتے رہے جس کے علمبرداروں کو نہ کسی منصب کی طلب تھی اور نہ ہی پلاٹ پرمٹ کی۔بھٹو نے اپنے مزاحمت کاروں کو جیل بھیجا جبکہ جنرل ضیاء نے کوڑوں کا تڑکا بھی شامل کیا مگر یہی قید و بند اور کوڑے تاریخ میں پاکستانی صحافت کا سرمایہ ثابت ہوئے۔ وہ عجیب ہی زمانہ تھا۔ سیاسی رہنماء ہوں خواہ صحافی سب ہی جارحانہ مزاحمت کرتے اور اس کی قیمت چکاتے۔ قید و بند تو ایک عام سا روز مرہ کا معمول تھا۔ معافی مانگنا اور اپنے کئے پر ندامت کے اظہار کا تصور بھی شرمناک تھا۔ بیڑہ اس وقت غرق ہوا جب مہران بینک کی تجوریاں کھلیں اور مال بٹنا شروع ہوا۔ پیسہ اس بڑے پیمانے پر تقسیم ہوا کہ کسی نے خواب میں بھی نہ سوچا تھا۔ ابراہام لنکن کا کہا سچ ثابت ہونے لگا کہ ہر شخص بکتا ہے بس آپ کی جیب میں اس کی مطلوبہ قیمت ہونی چاہئے۔ مہران بینک کی تجوری وہ "انقلاب" لے کر آئی کہ دیکھتے ہی دیکھتے قومی منظر نامے پر درویشوں کی آبادی گھٹ کر اتنی کم رہ گئی کہ حیوان ناطق نہ ہوتے تو عالمی ادارے انہیں "معدوم ہوتی نسل" میں شمار کرکے تحفظ کی عالمگیر مہم شروع کرتے اور بنگال ٹائیگر یا پانڈا سے زیادہ ان پر بنی ڈاکومنٹریز دیکھی جاتیں۔ جو غلاظت قومی سیاست میں متعارف کرائی جاتی ہے عالمی طاقتیں اس سے بھی زیادہ وسیع پیمانے پر پھیلانے لگتی ہیں۔ نتیجہ مہلک نکلا ! پیسہ، پلاٹ اور پرمٹ کی ایسی وبا پھیلی جس نے سیاست، صحافت اور تعلیم کے شعبوں کو بری طرح اپنی لپیٹ میں لیا۔ بھٹو کے خلاف قربانیاں دینے والے بھی بینکوں سے قرض لینے والے شمار ہوئے۔ چھانگا مانگا کے جنگلات میں سیاسی حیوان ناطق گھومتے دیکھے گئے اور قومی سیاست "مسٹر ٹین پرسنٹ" سے ہی نہیں ’’بریف کیس‘‘ سے بھی آشنا ہوئی۔ ایسے میں سرحد پار سے بھی مال آنا شروع ہوا تو دونوں ہی طرح کا مال آیا۔ ڈالرز آئے تو دیکھتے ہی دیکھتے این جی اوز کی بھرمار ہوگئی۔ عالمی این جی اوز نے اتنے مقامی انڈے بچے دئے کہ گننے دشوار۔ کہنے کو پانی پلانے آئے تھے سو "پانی" پلاتے گئے۔ انہی ڈالرز کی مدد سے سول سوسائٹی کے پلیٹ فارم پر لبرلز کو منظم کیا گیا۔ آپ سول سوسائٹی کے کسی بھی سرگرم کارکن سے ’’بزنس کارڈ‘‘ طلب کر دیکھئے، موصوف کے نام کے نیچے یا اوپر این جی او کا نام ضرور ملے گا۔ مگر صرف ڈالرز تو نہیں آئے۔ ح سے حلال والے ریال بھی آئے اور وہ بھی دودو ملکوں سے۔ یوں بوریہ نشین علماء کرام بھی راہ حق میں بوریے سے اٹھے اور لینڈ کروز پر جا بیٹھے۔ نوے کی دہائی بیسویں صدی کا تتمہ تھی۔ یہ پورا دور پاکستانی سیاست، صحافت اور تعلیم کے شعبوں کے کرپٹ ہونے کا دور ثابت ہوا۔ ہم کرپٹ ڈھانچے کے ساتھ اکیسویں صدی میں داخل ہوئے تو نائن الیون ہوگیا۔ ایسے میں امریکہ ہمارے پڑوس میں آبیٹھا تو ہمارا کرپٹ ڈھانچہ اس کے حق میں مکمل سازگار تھا۔ اور یوں شروع ہوئی وہ میراتھن جس میں امریکی مقاصد کے لئے ہر شعبے کے لوگ شریک ہوئے۔ آزاد میڈیا کے فوری بعد سوشل میڈیا وجود میں آیا تو ’’سرمایہ کاری‘‘ مزید تیزی اختیار کرگئی۔ اب ہم حق گوئی کی ایک نئی شکل دیکھ رہے ہیں۔ یہ حق گوئی ’’ٹویٹ‘‘ یا فیس بک پوسٹ کی مدد سے کی جاتی ہے۔ سو اس باب کے حق گو ’’سوشل میڈیا ایکٹوسٹ‘‘ کے نام سے پہچانے جاتے ہیں۔ آج کا سوشل میڈیا ایکٹوسٹ ایسی ایسی حق گوئیاں کرتا ہے کہ مولانا محمد علی جوہر، ابوالکلام آزاد، مولانا ظفر علی خان اور آغا شورش کاشمیری کچھ دیر کو قبروں سے باہر آجائیں تو فرط عقیدت سے ان کے ہاتھ پر بیعت بھی فرما لیں۔ مگر یہ دیکھ کر ایک بار پھر فوت ہوجائیں کہ اکیسویں صدی کے یہ حق گو تو چوبیس گھنٹے میں اپنی ’’ٹویٹ‘‘ پر شرمندگی کا اظہار کرتے ہوئے قربان گاہ سے بھاگ آتے ہیں۔ آنکھیں سرخ، رنگ فق، نبض تیز، چہرے پر ہوائیاں، ماتھے پر پسینہ اور حرارت بڑھی ہوئی، خدا جانے کونسا بھوت دیکھ آتے ہیں یہ سوشل میڈیا ایکٹوسٹ ؟