سول ایوارڈ 2019پر بات کرنی ہے۔ ہر سال حکومت مختلف شعبہ ہائے زندگی سے ممتاز شخصیات کا انتخاب کرتی ہے، جنہیںتئیس مارچ کو یہ ایوارڈز دئیے جاتے ہیں۔ چودہ اگست کو ان شخصیات کا اعلان ہوتا ہے، اس بار چونکہ اس وقت حکومت موجود نہیں تھی، اس لئے اعلان نہیں ہوا۔ تین دن پہلے ان شخصیات کے ناموں کا اعلان کیا گیا، جنہیں دو ہفتے بعد ایوارڈز دئیے جائیں گے۔ ہمارے ہاں ایوارڈز وغیرہ اکثر تنازعات کا شکار رہتے ہیں، وجہ دیانت داری سے سلیکشن نہ ہونا ہے۔سب سے زیادہ بدنامی زرداری حکومت کے حصے میں آئی تھی۔ پاکستانی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ انہوں نے ریوڑیوں کی طرح ریاست کے اہم ترین اعزاز اپنے دوستوں، وزیروں اور من پسند بیوروکریٹس میں بانٹ ڈالے۔ رحمان ملک ، شرمیلا فاروقی تک کو ایوارڈز ملے۔اس بار اقرباپروری اور اپنو ں میں ریوڑیاں تو نہیں بانٹی گئیں، لیکن یوں لگتا ہے کسی ناتجربہ کار، ناشناس شخص نے فہرست بنائی، جسے قطعی علم نہیں کہ علم وادب، صحافت کے شعبوں میں کون ممتاز لوگ ہیں، کسے ایوارڈ ملنا چاہیے۔ انتہائی بچکانہ انداز میں ایک فہرست بنا ڈالی، اٹکل پچو جس کے ذہن میں جو آیا، ڈال دیا ۔ اس لسٹ میں سائنس ، انجینئرنگ، تعلیم وغیرہ کے شعبوں میں جو نام دئیے گئے، چونکہ وہ میرا شعبہ نہیں، اس لئے اس بارے میں کچھ تبصرہ نہیں کر سکتا۔ ادب ، صحافت، کلچر اور سماجی خدمت کے حوالے سے تو مذاق کیا گیا۔ شدید حیرت ہوئی کہ بابرا شریف کا نام آیا۔ بابرا کی آخری فلم کوئی تیس بتیس سال پہلے آئی ہوگی، اپنے زمانے کی وہ معروف اداکارہ تھیں، انہیں اس حوالے سے ایوارڈز بھی ملتے رہے۔سوال مگر یہ ہے کہ اب پچھلے برسوں میں انہوں نے کیا ایسا کام کیا ،جس پر ایوارڈ دیا جائے ؟ اسی طرح ریما کو بھی اس بار ایوارڈ کا مستحق قرار دیا گیا، طویل عرصہ ہوا ریما نے فلمی دنیا میں کام چھوڑ دیا۔یہی بات ماضی کے معروف فلم رائٹر ناصر ادیب کے بارے میں کہی جا سکتی ہے۔ پاکستانی فلمی انڈسٹری میں ری وائیول ہوا ہے، ہر سال کئی فلمیں ہٹ ہونے لگی ہیں۔بعض چونکا دینی والی فلمیں جیسے منٹو، مور، شاہ وغیرہ یہاں بنی ہیں۔ بڑی آسانی کے ساتھ ایسی کسی شخصیت کا انتخاب کیا جا سکتا تھا، جس نے اپنے ہنر سے فلم انڈسٹری میں جان ڈالی اور جو فن کی خدمت کر رہا ہو۔ ایک عجیب وغریب فیصلہ اداکارہ مہوش حیات کوایوارڈدینا ہے۔ مہوش دلکش اداکارہ ہیں، پاکستانی فلموں میں بولڈرقص فلمبند کراتی ہیں، آئیٹم نمبر زکی ابتدا انہوں نے کی۔ ممکن ہے سلیکشن کرنے والے اس سے متاثر ہو گئے ہوں ،مگر مہوش حیات ٹاپ ٹین اچھی اداکارئوں میں بھی نہیں آتیں۔ ہمارے ہاں ٹی وی میں کئی نہایت عمدہ اداکارائیں سامنے آئی ہیں۔مختلف ڈرامہ سیریلز میں انہوں نے اپنے فن کو منوایا۔انتخاب مشکل نہ تھا۔ ادب کے شعبے میں تو نہایت افسوسناک منظرنامہ ہے۔ لگتا ہے سلیکشن کرنے والوں کو علم ہی نہیں کہ پچھلے پندرہ بیس برسوں میں کن لوگوں نے اعلیٰ تخلیقی کام کیا یا کون سے ایسے لوگ ہیں جو پچھلے چارعشروں سے فکشن یا شاعری لکھ رہے ہیں۔پچھلے سال اگر نامور ترجمہ نگار اور ادیب شاہد حمید کو ایوارڈ مل جاتا تو ان کے ساتھ ہونے والی زیادتی کی بھی تلافی ہوجاتی۔ شاہد حمید نے تاریخ انسانی کے دو عظیم ترین ناولوں وار اینڈ پیس(از ٹالسٹائی)اور برادرز کرامازوف (از دوستئو فسکی)کو اردو میں منتقل کیا، بعض اور اہم تراجم بھی کئے۔ شاہد حمید اب مٹی اوڑھے سو رہے ہیں، کاش انہیں بعد از مرگ ایوارڈ ہی دے دیا جاتا۔باقر نقوی چند ماہ پہلے انتقال کر گئے، پاکستان میں نوبل انعام یافتگان کے حوالے سے انہوں نے بڑا کام کیا، ان پر کتابیں لکھیں، ان کے خطبات ترجمہ کئے اور وکٹر ہیوگو کا شاہکار ناول لامزرابیلزبھی ترجمہ کیا۔ اسد محمد خان کو معلوم نہیں ایوارڈ ملاہے یا نہیں، تارڑ صاحب کے بعد وہ اردو کے سب سے نمایاں فکشن نگار ہیں۔ حسن منظر بھی ضعیف ہوچکے ہیں، علامتی افسانے،ناول میں ان کا بڑا کنٹری بیوشن ہے۔ مرزا اطہر بیگ نے غلام باغ سے لے کر حسن کی صورتحال تک تین غیر معمولی ناول لکھے، فلسفے کے اس سابق استاد کے افسانے بھی بہت اہم ہیں۔لاہور ہی میںاقبال اکیڈمی کے سابق ڈپٹی ڈائریکٹرجناب احمد جاوید جیسا عبقری دانشور، صوفی اور شاعر موجود ہے۔ جتنا وقیع علمی کام انہوں نے کر ڈالا، اس کے لئے ادارے درکارہوتے ہیں۔ اکادمی ادبیات پاکستان سے وابستہ دو ادیبوں نے اتنے اہم ناول لکھے ہیں کہ پرائیڈ آف پرفارمنس ان کا حق بنتا ہے۔ عاصم بٹ کا ناول ’’دائرہ‘‘ ،’’ بھید‘‘ کسی بھی طرح سے عاطف اسلم کی گائیگی یا پھریاسر شاہ کی لیگ سپن سے کم نہیں۔ اختر رضا سلیمی اکادمی ادبیات اسلام آباد میں ملازم ہیں، اس درویش لکھاری نے جندر جیسا شاندار ناول لکھا، جسے پاکستان کے سب سے بڑے فکشن نگار مستنصر حسین تارڑ نے غیر معمولی ناول قرار دیا۔ کیا صرف سادگی اور لابنگ نہ ہونا ہی ان کا قصور ہے۔علاقائی زبانوں میں اتنا غیر معمولی کام کرنے والے موجود ہیں۔ سرائیکی کے دو نامور شاعروں رفعت عباس اور ڈاکٹر آشو لال بڑے سے بڑے ایوارڈ کے مستحق ہیں۔ یہی بات عاشق بزدار اور عزیز شاہد کے بارے میں کہی جا سکتی ہے۔محترمہ مسرت کلانچوی نے ناول، افسانے، ڈرامے، سیرت غرض ہر شعبے میں کام کیا، انہیں کب ایوارڈ دیا جائے گا؟جہانگیر مخلص ، عبدالباسط بھٹی جیسے جینوئن سرائیکی لکھاری کبھی ایوارڈ دینے والوں کی نظر میں آ سکیں گے؟پنجابی میں سعید بھٹہ نے بڑا کا م کر رکھا ہے، زاہد حسن کے ناول انہیں منفرد اور ممتاز بناتے ہیں۔سندھی، بلوچ، پشتو اور دیگر علاقائی زبانوں کے ادب سے واقفیت نہیں، مگر ظاہر ہے بڑے تخلیق کار وہاں بھی موجود ہیں۔ صحافت میں تو سب سے زیادہ زیادتی ہوئی۔ صرف دو ایوارڈ دئیے گئے، ان کے میرٹ، ڈی میرٹ پر بات چلیں چھوڑ دیتے ہیں، سوال یہ ہے کہ جب یہاں اتنے نامور ، ممتاز لوگ موجود ہیں ،جنہیں ماضی میں صرف اس لئے ایوارڈ نہیں ملا کہ وہ حکومتوں کی کاسہ لیسی نہیں کرتے،تو موجودہ حکومت کو اس حوالے سے اپنا فرض ادا کرنا چاہیے تھا۔کون ہے جو یقین کرے گا کہ فسوں ساز قلم کارجناب ہارون الرشید کو ابھی تک صدارتی سول ایوارڈ نہیں ملا؟لفظ ہارون صاحب کے آگے ہاتھ باندھے کھڑے ہوتے ہیں، تین نسلوں پر وہ اثرانداز ہوئے۔مخالفین بھی ان کا کالم نظرانداز نہیں کر سکتے۔ افسوس کہ ہارون الرشید اس باربھی نظرانداز ہوئے۔ لاہور میں حسین نقی، کراچی میں احفا ظ الرحمن جیسے جینوئن نظریاتی مگر درویش صفت صحافی نصف صدی کی خدمات کے باوجود محروم ہیں۔ مجاہد بریلوی بھی نظرانداز ہوتے رہے۔ ہم اپنے گروپ ایڈیٹر کا نام نہیں لکھ سکتے کہ وہ ایڈٹ کر دیں گے، مگر پنتالیس سال کے لگ بھگ صحافتی کیرئر رکھنے ، کئی کتابوں کے مصنف اورنوائے وقت جیسے اخبار کے ہزاروں ادارئیے، سینکڑوں کالم لکھنے والے کو ایوارڈ نہیں ملنا تو پھر کون کم بخت اس کا حق دار ہے؟ ہمارے استادوں میں سے ایک جناب سجاد میر، اردو کالم نگاری کا سنگھار جناب اظہارالحق، اپنا الگ راستہ بنانے اور اس پر چلنے والے اوریا مقبول جان، ڈاکٹر حسین پراچہ کے ساتھ کب تک زیادتی ہوتی رہے گی؟ نصرت جاوید کو کیا تنقید کرنے کی سزا ملے گی؟اگر اینکر کو ایوارڈ ملنا ہے تو رئوف کلاسرا پہلے آتے ہیں۔ وہ اینکر ، کالم نگار، ایوارڈ یافتہ انویسٹی گیٹو رپورٹر ہیں۔چار بیسٹ سیلر کتابوں کے مصنف،پاکستانی سیاست پر لکھی کتاب کے درجنوں ایڈیشن فروخت ہوچکے۔عامر متین جنہیں کلاسرا جیسا تیز دھار صحافی گرو کہتا ہے، دو نجی علاقائی چینل جنہوں نے کھڑے کئے، تمام زندگی صحافت میں گزار دی، ان کا حق کیسے نہیں بنتا؟قدرت اللہ چودھری جیسا استادوں کا استاد، درویش ایڈیٹر تمام زندگی نیوز روم میں گزار کر بھی گمنام ہے۔ اور بھی بہت مثالیں ہیں۔ بات ختم نہیں ہوئی، پبلک سروس یعنی سماجی خدمت کے حوالے سے جو ایوارڈز دئیے گئے ، ان میں سے کئی نام ایسے ہیں جن پر سوال ہوسکتا ہے۔ پارٹی کو فنڈ دینے والے کسی ارب پتی کو سماجی خدمت کے کھاتے میں ایوارڈدینے کا اعلان کیوں ہوجب ملک میں غیرمعمولی سوشل ورک کرنے والے جینوئن لوگ موجود ہوں۔ اخوت کے بانی ڈائریکٹر ڈاکٹر اظہار ہاشمی جنہیں جاننے والے ون مین آرمی کہتے ہیں، دن رات وہ سوشل ورک میں جتے رہتے ہیں، ان کا ارب پتی بزنس مینوں سے پہلے نام نہیں آنا چاہیے تھا؟مشہور آئی سرجن پروفیسر ڈاکٹر انتظار بٹ جن کی تنظیم پی او بی نے ڈیڑھ لاکھ سفید موتیے کے مفت آپریشن کر ڈالے۔ جی ڈیڑھ لاکھ مفت آپریشن۔ الخدمت جیسی بڑی اور قابل احترام تنظیم کے سربراہ عبدالشکور صاحب ، پیرانہ سالی کے باوجود وہ دن رات الخدمت کے چیریٹی پراجیکٹس کی بہتری کے لئے خواہاں رہتے ہیں‘ مسلم ہینڈز کے سربراہ سید لخت حسنین کی سماجی خدمات کا دائرہ یورپ‘ افریقہ تک وسیع ہے۔عامر محمود جعفری نے غزالی سکول ٹرسٹ کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا، ہزاروں، لاکھوں مستحق طلبہ کی زندگیاں بدل ڈالیں۔ سماجی خدمت کے میدان میں اور بھی بہت سے نام ہوں گے۔ کالم کی گنجائش کم ہے، ادب، صحافت، سماجی خدمت کے شعبوں میں بہت سے قابل احترام نام نہیں آ سکے ۔ مقصد صرف نشاندہی تھا کہ اتنے زیادہ تعداد میں اہل لوگوں کے ساتھ زیادتی ہوئی۔ پس نوشت: کہا جارہا ہے کہ اس فہرست میں بعض نام شامل تھے، کاٹ دئیے گئے ۔اگر سچ تو یہ نہایت افسوسناک ہے۔ وزیراعظم ہائوس کو اس کی تحقیقات کرنی چاہیے۔ سول ایوارڈز2019 کا اعلان کر کے حکومت نے اپنی بھد اڑائی ہے، اگر اس بدنامی سے بچا جا سکتا ہے، اصلاح ممکن ہے تو ضرور کی جائے۔ عمران خان سے ابھی تک لوگوں کو حسن ظن ہے، کاش یہ کچھ مزید عرصہ قائم رہ سکے۔