ملکی سیاست میں ایک ہیجان کی سی کیفیت ہے۔ ہر سیاسی جماعت کو ریاست سے زیادہ اپنی سیاست او ر اقتدار سے غرض ہے۔ اس میں چاہے ن لیگ ہو یا پیپلزپارٹی جے یو آئی ف ہو یا تحریک انصاف ہو ہر جماعت اس ہیجان میں یہ نہیں دیکھ رہی کہ اسکے اقدامات صرف سیاست بچانے کے ہیں ریاست بچانے کے نہیں۔ اور اگر سیاسی قیادت کا یہی رویہ رہا تو اسکا نقصان سیاست کو ہو یا نہیں ریاست کو ضرور ہوگا۔ اس وقت وفاق ،پنجاب اور بلوچستان میں ایک بحرانی صورتحال ہے۔ وفاق میں حکومت بن گئی ہے لیکن کار سرکار ٹھپ ہیں۔ وفاق کی حکومت کو عمران خان کے بیانیئے ،جلسوں اور اسلام آباد لانگ مارچ اور پھر عمران خان کی چھ دن کی ڈیڈ لائن نے مفلوج کرکے رکھ دیا ہے۔ وفاقی حکومت کا المیہ یہ ہے کہ جو اقدامات اسے اٹھانے ہیں ان کی سیاسی قیمت ادا کرنے کو ن لیگ کی وفاقی حکومت تیار نہیں ۔ ن لیگ کو یہ گمان ہے کہ اگر معاشی عدم استحکام کو قابو کرنے کیلئے جو فیصلے کرنے ہیں وہ فیصلے وہ کر گزرتی ہے تو انتخابات میں اسکی قیمت ادا کرنی ہوگی۔ ن لیگ یہ بھی سمجھتی ہے کہ جس امید کیساتھ انہوں نے اقتدار سنبھالا تھا وہ امیدیں پوری نہیں ہورہی ہیں لیکن اب اپنے فیصلے کو اگر فوری واپس لیتی ہے تو اسکے بھی نظر نہ آنے والے اثرات ہیں اور ان اثرات کو برداشت کرنا بھی ن لیگ کیلئے ممکن نہیں ہے۔ ن لیگ اب پنجاب میں پچیس منحرف اراکین کے فیصلے کے بعد مزید مشکلات میں چلی گئی ہے اور سمجھتی ہے کہ اگر آنے والے دنوں میں انہیں پنجاب کی حکومت برقرار رکھنے میں مشکلات پیش آتی ہیں تو جب پنجاب انکے ساتھ نہیں ہے تو مرکز میں حکومت بے معنی ہوگی ۔ان باتوں کی بنیاد پر ن لیگ اب حکومت سے راہ فرار چاہتی ہے ۔ اس راہ فرار کے نتیجے میں موجودہ وزیر اعظم شہباز شریف کی سی وی پر تو سابق وزیر اعظم لکھا جائیگا لیکن ایک مرد بحران یا مستقبل میں وزارت عظمیٰ کے ایک مضبوط امیدوار کے طور پر انہیں شمار نہیں کیا جائیگا۔ یعنی وہ اگر ان حالات میں انتخابات کی طرف جاتے ہیں تو وہ مستقبل میں وزیر اعظم کی دوڑ سے ٹیکنیکل بنیادوں پر آئوٹ ہو جائینگے۔ پاکستان پیپلزپارٹی ون ون سچویشن کو انجوائے کررہی ہے ۔سندھ میں مکمل حکومت کے مزے پنجاب میں صرف ساتھ آٹھ سیٹوں پر ساجھے داری اور مرکز میں بھی اہم وزارتوں پر فائز ہے۔ مرکز میں اسپیکر شپ سمیت وزارت خارجہ ، صحت اور بی آئی ایس پی کی وزارت انکے پاس ہے۔ تبدیلی میں سب سے زیادہ نقصان ن لیگ نے اٹھایا سب سے زیادہ فائدہ پاکستان پیپلز پارٹی کے حصے میں آیا ہے جبکہ پی ٹی آئی کی ساری کوتاہیاں اور غلطیاں دھل رہی ہیں۔ مولانا فضل الرحمان بھی نہ زیادہ نفع نہ نقصان کی پوزیشن پر ہیں ۔ جو ماحول بلاول بھٹو زرداری کیلئے بطور وزیر خارجہ بنا ہے اسے دیکھ کر مفاہمت کے بادشاہ آصف علی زرداری زیر لب مسکراتے ضرور ہونگے۔ نوجوان وزیر خارجہ نے امریکہ میں اپنی پریس کانفرنس میںسابق وزیر اعظم کے روس کے دورے کا دفاع کرکے ایک ایسا اقدام اٹھایا جو انکی پروفائل کو مزید بہتر ضرور کریگا۔ امریکہ سے لینڈ کرتے ہی چین کے دورے پر بلاول بھٹو کی روانگی یہ بتا رہی تھی کہ پیپلزپارٹی پانچوں انگلیاں گھی میں سر کڑھائی میں رکھے بیٹھی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف نے اس حکومت کے خاتمے کے بعد جو بیانیہ بنایا ہے اسکے نتیجے میں اسے مقبولیت ضرور ملی ہے اب جلسوں کا معاملہ تھم چکا ۔ کپتان پشاور سے لانگ مارچ لیکر اسلام آباد روانہ ہوئے عدالتی حکم آڑے نہ آتا تو ن لیگ نے کپتان کو اٹک پل پر گھیر کر رکھنا تھا۔ عدالتی حکم کے بعد پی ٹی آئی اسلام آباد بھی آئی اور ڈی چوک بھی پہنچی ۔اسلام آباد میں جو کچھ ہوا اگر رات گئے سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ اپنا کردار ادا نہ کرتی تو جو صورتحال پیدا ہونی تھی وہ ملک کیلئے کوئی نیک شگون نہ ہوتی گزشتہ روز تحریک انصاف چئیرمین عمران خان نے اسٹیبلشمنٹ سے کسی ڈیل کو مسترد کردیا لیکن راقم کی معلومات کے مطابق عمران خان کا کچھحلقوں سے رابطہ تھا بلکہ براہ راست رابطہ بھی ہوا جس سے عمران خان نے دھرنا نہ دینے کا فیصلہ کیا ۔ چھ دن کی ڈیڈی لائن دیکر چلے گئے جس میں سے تین دن گزر چکے ہیں تین دن بعد کیا ہوگا اس سے قبل تمام فریقین سفید جھنڈا لہرا کر ایک ایک قدم پیچھے ہٹیں اور سوچیں کہ سیاست اور مفادات کو بچانا ہے یا ریاست کو بچانا ہے۔ پہلے اسکا تعین کریں اور ایک بار پھر صف آراء ہوجائیں کیونکہ جس قسم کی ہیجانی کیفیت ملک میں اس وقت ہے اسکے نتیجے میں اگر فی الفور انتخابات ہوتے ہیں تو تمام فریق اسکے نتائج کو تسلیم کرلے یہ ممکن نہیں ہے تو ایسی صورتحال میں انتخابات میں جانا کیا ایک درست فیصلہ ہوگا کیونکہ اگر انتخابات کے بعد چاہے ن لیگ ہو یا پیپلزپارٹی یا تحریک انصاف ہو یا جے یو آئی ف اگر انہوں نے اسکے نتائج تسلیم نہیں کرنے تو ان انتخابات کا فائدہ پھر ریاست کو نہیں سیاست کو ہی ہوگا راقم کی دانست میں انتخابی اصلاحات سمیت کچھ اہم چیزوں پر انتخابات کے بجائے ایک گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ یا کم از کم میثاق معیشت اس وقت ملک کی ضرورت ہے اس گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ کا آغاز کرنا اسلئے ناگزیر ہے کہ ا س وقت سیاستدان ہو یا آئینی اور دیگر ادارے ایک دوسرے کے سامنے کھڑے ہیں اور صحافی اور اہل علم لوگ بھی انتہائی دائیں اور انتہائی بائیں جانب پوزیشن لئے کھڑے ہیں تو ایسی صورتحال میں تمام سیاسی قوتیں اور ادارے ایک قدم پیچھے ہٹ کر سوچیں گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ کیلئے چند نکتوں پر اتفاق رائے پیدا کر یں پہلے مرحلے میں میثاق معیشت کریں ایک چھت کے نیچے بیٹھیں سیاست نہیں ریاست کو بچائیں کیونکہ ریاست ہوگی تو سیاست ہوگی اس وقت وزیر اعظم کون ہوگا حکومت کس جماعت کی ہوگی یہ ایک بڑا سوال نہیں ہونا چاہئے بلکہ اس وقت بڑا سوال یہ ہونا چاہئے کہ گرتی ہوئی معیشت کو کیسے پٹری پر ڈالا جائے جب معیشت سنبھل جائیگی تو ریاست بھی ہوگی اور سیاست بھی ہوگی کیونکہ اگر بلوچستان میں قدوس بزنجو سرکار کو بچانے کیلئے پی ڈی ایم اور پی ٹی آئی یکجا ہوسکتی ہیں تو ملک کی معیشت کو بچانے کیلئے کیوں نہیں تو میثاق معیشت سے ابتداء کریں اور گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ کی طرف بڑھیں پہلے مرحلے میں سیاسی قوتیں آگے بڑھیں چند نکات پر اتفاق کریں پھر اس ڈائیلاگ کو اداروں کی سطح پر آگے لیجائیں چاہے پارلیمان ہو عدلیہ ہو یا سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ سب بیٹھیں کچھ راہیں متعین کریں اسکی ابتداء ہوچکی ہے ایمان مزاری کے بیانات پر سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ نے جیک برانچ کے ذریعے مقدمہ درج کروادیا ہے یہ مقدمہ تمام سیاسی قوتوں میڈیا سول سوسائٹی کیلئے ایک سنہرا موقع ہے اسٹیبلشمنٹ نے وہ کام کیا ہے جو تمام قوتوں کا مطالبہ رہا ہے کہ تمام ادارے آئین اور قانون کے پابند رہیں کوئی کسی سے برتر نہیں سب آئین اور قانون کے تحت چلیں اب اس مقدمے کا فیصلہ جو بھی یہ مقدمہ تاریخی ہوگا اور بہت سی راہیں متعین کریگا ۔