مارشل لاء کا دور ہو یا جمہوری حکومتوں کا ، بیورو کریسی خاص طور پر پی ایم ایس گروپ کے افسران کے اختیارات لا محدود ہی رہتے ہیں اور بنیادی طور پر زمینی بادشاہ یہی ہوتے ہیں۔ پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروسز کے افسران میں حاکمیت اس قدر سرائیت کر چکی ہے کہ اپنے ساتھی بیوروکریٹس،انفارمیشن گروپ،فارن سروسز، آڈٹ اینڈ اکائونٹس ،کسٹم ،کامرس اینڈ ٹریڈ، ریلوے،پوسٹل سروس ،ملٹری لینڈ اینڈ کنٹونمنٹ، ان لینڈ ریونیو اور آفس مینجمنٹ کے افسران کی راہ میںبھی روڑے اٹکانے سے باز نہیں آتے جبکہ ’’ پرونشل مینجمنٹ سروسز‘‘ کے افسران کی ترقی کی راہ میں دیوار بن کر کھڑے ہوجاتے ہیں۔اس وجہ سے آئے روز سی ایس ایس اور پی ایم ایس افسران کے درمیان تنائو کا ماحول دیکھنے کو ملتا ہے۔سی ایس ایس افسران کی ترقی کا سفر تو ہوا کی سپیڈسے بھی زیادہ تیزی سے اپنی منازل طے کرتا ہے جبکہ پی ایم ایس افسران سمیت دیگر سرکاری ملازمین کی ترقی کے سامنے نہ صرف سوالیہ نشان موجود ہے بلکہ بڑا سا ’’فل سٹاپ،، لگا دیا جاتا ہے۔ پی ایم ایس افسران کو جیسے سرخاب کے پر لگے ہوتے ہیں کہ ساری اہم سیٹوں پر صرف انہی کا استحقاق ہے۔1999میں صوبائی سروس کا امتحان پاس کرنے والے پی ایم ایس افسران آج بائیس سال بعد بھی گریڈ 18سے آگے نہیں جاسکے جبکہ 1999میں ہی سی ایس ایس کرنے والے ناصرف گریڈ 20میں ترقی حاصل کرچکے ہیں بلکہ کلیدی پوسٹوں پر بھی براجمان ہیں۔1999پی ایم ایس گروپ کے احمد جاوید قاضی سیکرٹری ہیلتھ، عامر جان اس وقت پرنسپل سیکرٹری ٹو چیف منسٹر کی اہم ترین سیٹ پر ہیں اسی طرح صوبائی دارالحکومت لاہور کے کمشنر کیپٹن عثمان اور انٹی کرپشن پنجاب کے سربراہ بھی اسی بیج سے ہیں۔ان کی تعیناتی پر کوئی اعتراض نہیں اور نہ ہی ان افسران کی قابلیت اور لیاقت پر کوئی شبہ۔لیکن ان کے مقابل اسی سال صوبائی سروس کا امتحان پاس کرنیوالے ابھی تک نہ صرف گریڈ 18میں ہیں بلکہ دودرجن کے قریب افسران میں سے اس وقت صرف اکیلے رائو پرویز ہی ڈپٹی کمشنر جہلم ہیں ،بائیس سال میں نوید شہزاد مرزا، سیف انور جپہ اور رائو پرویز کو ہی ڈپٹی کمشنر شپ مل سکی جبکہ باقی افسران ڈپٹی اور ایڈیشنل سیکرٹری اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔پی ایم ایس 4کے افسران 2سال سے اور پی ایم ایس 5گذشتہ ایک سال سے پرموشن ٹریننگ کے باوجود ترقی سے محروم گریڈ 17میں کام کرنے پر مجبور ہیں جبکہ پی ایم ایس 5کا آدھا بیج اور پی ایم ایس 6والے ٹریننگ کی راہ تک رہے ہیں۔پی ایم ایس افسران کاپروموشن بورڈکرانے اورڈی ٹی ایل سیٹیں بحال کرنے کامطالبہ بالکل جائز ہے۔ روٹیشن پالیسی پر عمل نہیں کیا جارہا سینئر افسران خاص طور پر خواتین دہائیوں سے پنجاب چھوڑنے کو تیار نہیں۔پنجاب کو سونے کی چڑیا سمجھنے والے سی ایس ایس افسران کی ساری لاقانونیت کا مرکز پنجاب ہی ہے ۔ دوسرے صوبوں میں پنجاب کی نسبت صوبائی افسران کو نہ صرف ترقی کے یکساں مواقع موجود ہیں بلکہ اہم پوسٹوں پر بھی تعینات ہیں۔ پی ایم ایس کی طرح پی ایس پی افسران نے محکمہ پولیس میں اپنی اجارہ داری قائم کر رکھی ہے اور صوبائی پولیس افسران کا استحصال کررہے ہیں۔ اے ایس آئی،سب انسپکٹر، انسپکٹر اورڈی ایس پیز رینک کے افسران کو دس سے بارہ سال کا عرصہ گزر جانے کے باوجود اگلے گریڈ میں ترقی نہیں مل پاتی۔ریٹائرمنٹ کا وقت آن پہنچتا ہے لیکن اے ایس آئی اور سب انسپکٹر بھرتی ہونے والوں کی اکثریت انسپکٹر اور ڈی ایس پی سے آگے نہیں جا پاتے۔ رینکر پولیس افسران میں سے اگر دوچار پرموٹ ہو بھی جائیں تو انکو ساری زندگی اچھی پوسٹنگ نہیں ملتی۔پی ایس پی آفیسر ایس پی گریڈ 18کے باوجود گریڈ انیس کی سیٹ پر بطور ڈی پی او براجمان ہوتے ہیں جبکہ رینکر ایس ایس پی ہو کر بھی اس سیٹ کیلئے اہل نہیں سمجھا جاتا۔کچھ افسران خدا کی زمین پر خدائی فوجدار بنے بیٹھے ہیں۔طبع نازک پر ذرا سی بات کیا ناگوار گزری فوری طور پر تھانے دار معطل ،اور تو اور ظلم کی انتہا دیکھئے معمولی سی وجہ اور حکم عدولی پر چھوٹے افسران کی دو دو سال کی سروس ضبط کرلی جاتی ہے۔ عیدین و دیگر تہواروں پر بھی چھٹی نہ ملنے، میرٹ کے باوجود ترقی نہ ملنے کے غم میں پریشان حال چھوٹے پولیس ملازمین پر سروس ضبطی کا فیصلہ کسی آفت سے کم نہیں ہوتا۔ ناحق سروس ضبط ہونے کے غم میں سینکڑوں افرادپولیس ڈیپارٹمنٹ کو خیرباد کہ چکے ہیں ،کچھ بیچارے تو دلبرداشتہ ہوکر خود کشی کرلیتے ہیں۔ اگرچہ حاکمیت پسند اوراختیارات سے تجاوز کرنے والے مذکورہ پی ایم ایس اور پی ایس پی افسران کی تعداد بہت کم ہے لیکن اس اقلیت نے فرض شناس اکثریت کا امیج بھی دائو پر لگا دیا ہے۔سی ایس پی افسران کی ایک طویل فہرست ہے جو نہ صرف فرض شناسی اور دیانتداری سے اپنی ڈیوٹی سر انجام دیتے ہیں بلکہ اتوار ،عیدین اور دیگرتعطیلات پر بھی انتظامی ذمہ داریاں نبھاتے نظر آتے ہیںاور عام افراد کی خوشی غمی میں شرکت کرتے ہیں ۔ سینٹرل سپرئیر سرسز کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ مختلف صوبوں کے افسران دوسرے صوبوں میں جاتے ہیں وہاں کے رہن سہن اور کلچر کے باعث عصبیت کا خاتمہ ہوتا ہے اور قومی یکجہتی کو فروغ ملتا ہے۔یہ افسران پاکستان کی اکائی کا کردار ادا کررہے ہیں ۔چیف جسٹس آف پاکستان سے درخواست ہے کہ ہر کسی کی امیدوں کا مرکز عدلیہ ہے اور بطور منصف انصاف کا ترازواس بات کا متقاضی ہے کہ انصاف کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے سب کو ترقی کے مساوی مواقع فراہم کیے جائیں تاکہ اداروں کے درمیان کھینچا تانی اور اقتدار کی جنگ کا خاتمہ ہو اور سب ملکر وطن عزیز کی خدمت کر سکیں۔