کراچی (سٹاف رپورٹر) کونسل آف پاکستان نیوزپیپر ایڈیٹرز (سی پی این ای) نے وفاقی حکومت کی جانب سے سوشل میڈیا کے لیے قوانین کی منظوری پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان قوانین پر سٹیک ہولڈرز سے کوئی مشاورت نہیں کی گئی۔ ایک بیان میں سی پی این ای کے صدر عارف نظامی، سیکرٹری جنرل ڈاکٹر جبار خٹک، ڈپٹی سیکرٹری جنرل عامر محمود اور دیگر عہدیداروں نے کہا کہ ایسے قوانین بنا کر حکام شہریوں کی آن لائن حفاظت کے نام پر آزادی اظہار رائے پر قدغن لگانا چاہتے ہیں،حکومت کا یہ خفیہ اقدام جاننے اور معلومات تک رسائی کے آئینی حقوق کے خلاف ہے جس کے ذریعے وہ اختلاف رائے رکھنے والی سیاسی و عام لوگوں کی آوازوں کو روکنا چاہتی ہے ، حکومت میڈیا اور انٹرنیٹ کو اپنے قابو میں رکھنے کے لیے مسلسل کوششیں کر رہی ہے جس کی وجہ سے سی پی این ای یہ سمجھنے پر مجبور ہے کہ نوٹیفائی کیے گئے سٹیزن پروٹیکشن قوانین (آن لائن نقصان کے خلاف) 2020 پاکستان کی ڈیجیٹل معیشت اور لوگوں کی اظہار رائے کی آزادی کے خلاف براہ راست خطرہ بن گئے ہیں، عارف نظامی نے کہا کہ سی پی این ای سمجھتی ہے کہ نیشنل کوآرڈینیٹر کے دفتر کا قیام، اختیارات اور وفاقی وزیر کی جانب سے اس کی یکطرفہ تعیناتی جیسے اقدامات کا مقصد ڈیجیٹل اور آن لائن پلیٹ فارمز پر موجود لوگوں کے خیالات پر سختی سے قابو رکھنا ہے ، یہ غیر جمہوری طرزعمل ہے ، انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ خفیہ طریقے سے منظور کیے گئے ان قوانین کو نہ صرف واپس لیا جائے بلکہ اس حوالے سے تمام سٹیک ہولڈرز اور شہریوں کو اعتماد میں لے کر ایسے قوانین اور پالیسیاں متعارف کرائی جائیں جبکہ سی پی این ای نے محراب پور، نوشہروفیروز کے صحافی عزیز میمن کے بہیمانہ قتل کی شدید مذمت کرتے ہوئے قاتلوں کو فوری گرفتار کر کے انصاف کے کٹہرے میں لانے کا مطالبہ کیا ہے ۔،عارف نظامی، ڈاکٹر جبار خٹک اور دیگر عہدیداران نے کہا کہ پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کی ادائیگی کی وجہ سے صحافیوں پر حملے معمول بن گئے ہیں اور اس پر ایکشن لینے والا کوئی نہیں ہے ،حکومت اور حکومتی ادارے صحافیوں کو تحفظ دینے میں مکمل ناکام دکھائے دے رہے ہیں ، ایسے واقعات میڈیا کی آواز دبانے کے مترادف ہیں۔ عارف نظامی نے وزیراعظم ، وزیراعلیٰ سندھ ، آئی جی پولیس سندھ اور دیگر متعلقہ حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ قاتلوں کو فوری گرفتار کیا جائے ۔